رشیدالدین
بی جے پی کی 4 دیویوں نے نریندر مودی سرکار کی کشتی کو بھنور میں چھوڑ دیا ہے۔ مرکز کے ایک سالہ اقتدار کی تکمیل کی خوشیوں اور جشن کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ 4 دیویوں نے رنگ میںبھنگ کا کام کیا۔ حکومت کے ایک سال کی تکمیل کے ساتھ ہی 4 اہم قائدین کے اسکام منظر عام پر آئے۔ اس طرح نریندر مودی کو وزیراعظم کی کرسی پر ایک سال کی تکمیل کے تحفہ کے طور پر اسکامس ملے۔ شفاف اور بے قاعدگیوں سے پاک حکمرانی اورکرپشن کے بارے میں Zero tolerence سے متعلق نریندر مودی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ جو بھی اسکامس منظر عام پر آئے ، ان میں خواتین ملوث پائی گئیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج اور چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے کا تنازعہ ابھی گرم تھا کہ وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی اور مہاراشٹرا میں بی جے پی کی وزیر پنکجا منڈے نے پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ ہزاروں کروڑ کے آئی پی ایل اسکام کے ملزم للت مودی کی مدد کے معاملہ میں سشما سوراج اور وسندھرا راجے کے خلاف اپوزیشن کا گھیرا دن بہ دن تنگ ہورہا تھا کہ اچانک سمرتی ایرانی اور پنکجا منڈے کے معاملات نے مودی کی نیند حرام کردی ہے۔ 10 دن کے عرصہ میں 4 خواتین سے جڑے معاملات کے افشاء نے بی جے پی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
اگر یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ ابھی آغاز اور ملاحظہ اسباب ہے۔ کئی اور اسکام آنے والے دنوں میں منظر عام پر آئیں گے۔ دنیا بھر میں بہتر حکمرانی کی تصویر پیش کرتے ہوئے اور اپنی لفاظی سے واہ واہی لوٹنے والے نریندر مودی کی بولتی جیسے بند ہوچکی ہے۔ خاتون وزراء اور چیف منسٹر سے متعلق اسکینڈل کا انکشاف خود اپنے میں اہم سوال ہے۔ کیا پارٹی اور حکومت میں نریندر مودی کا خواتین پر کنٹرول نہیں ہے؟ کسی نے درست کہا کہ نریندر مودی کو خواتین سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ لہذا حکومت میں شامل خواتین کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اگر مودی گھر گرہستی سے جڑے ہوتے تو شائد انہیں خواتین پر قابو پانے کا ہنر آجاتا۔ خیر معاملہ کچھ ہو لیکن 4 خواتین نے ایک سال میں ہی حکومت کے چہرہ پر سیاحی مل دی ہے اور حکومت کا اس تنازعہ سے ابھرنا آسان نہیں۔ للت مودی جو اسکام سے بچنے کیلئے ہندوستان سے فرار ہوگیا اور قانون نے جسے بھگوڑا قرار دیا، اس کے سفری دستاویزات کے حصول میں سشما سوراج اور وسندھرا راجے نے مدد کی تھی۔ سشما سوراج نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کا اعتراف کیا ہے جبکہ وسندھرا راجے دستاویزات سے انکار کر رہی ہیں۔ بعد میں برطانوی عدالت میں پیش کردہ ان کے حلفنامہ کی نقل منظر عام پر آگئی جس میں انہوں نے ہندوستانی عہدیداروں کو اطلاع نہ دینے کی شرط رکھی تھی۔ بی جے پی اور نریندر مودی حکومت اس تنازعہ سے ابھرنے کی جدوجہد کر رہی تھی کہ سمرتی ایرانی اور پنکجا منڈے نے نئے تنازعات کے ذریعہ حکومت کو کٹہرے میںکھڑا کردیا۔ جس وزیر کا کام تعلیمی شعبہ میں اصلاحات ہے، ان کی تعلیمی قابلیت مشکوک ہوچکی ہے اور عدالت نے اس مقدمہ کو سماعت کیلئے قبول کرلیا۔ دوسری طرف مہاراشٹرا میں بی جے پی وزیر نے ایک ہی دن میں 206 کروڑ کے سامان کی خریدی کو منظوری دیتے ہوئے کرپشن کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ لوگ کئی برسوں میں چند کروڑ کا فراڈ کرتے ہیں لیکن پنکجا منڈے نے ایک ہی دن میں سارے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ ان چار دیویوں کے خلاف کارروائی کیلئے حکومت پر دباؤ بڑھنے لگا ہے اور بی جے پی چاروں کے دفاع کی سعی لاحاصل کر رہی ہے۔ یو پی اے دور حکومت میں ہر چھوٹے معاملہ پر وزراء سے استعفی کا مطالبہ کرنے والے بی جے پی قائدین آج بدعنوان وزراء کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ جس انداز سے چاروں کے خلاف دستاویزی ثبوت منظر عام پر آئے انہیں ایک لمحہ کیلئے بھی اقتدار پر برقراری کا اخلاقی حق نہیں ہے۔ یہ اسکامس 21 جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ سیشن کے ماحول کو گرمانے کا کام کریںگے۔ بی جے پی کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے چاروں کے خلاف کارروائی کرے لیکن اسے اندیشہ ہے کہ کارروائی کی صورت میں پارٹی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ بی جے پی اور نریندر مودی کیلئے دشواری یہ بھی ہے کہ ان میں سے 3 کا شمار سنگھ پریوار کے قریبی اور تائیدی قائدین میں ہوتا ہے اس لئے سنگھ پریوار کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
وسندھرا راجے نے راجستھان میں بی جے پی کو تمام نشستوں پر کامیابی دلائی جبکہ سمرتی ایرانی ملک کے تعلیمی نصاب کو زعفرانی بنانے میں مصروف ہیں۔ تعلیمی نصاب میں ہندوتوا نظریات اور اس ذہنیت کے بانیوں کے بارے میں اسباق شامل کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ انہوں نے اسکولوں کے نصاب میں یوگا کو لازمی قرار دینے کی بات کہی۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کو ایسی ہی وزیر کی ضرورت ہے۔ واضح ثبوت کے باوجود بی جے پی اور سنگھ کی تائید شرمناک ہے اور اسے اقتدار کے پہلے ہی سال حکومت کی الٹی گنتی کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ان معاملات پر خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ یہ ان کی بے بسی ہے یا مجبوری ؟ کیا وہ چاہتے ہوئے بھی کسی کے خلاف کارروائی کی جراء ت نہیں کرسکتے؟ اس قدر سنگین مسائل پر وزیراعظم آخر کب تک خاموش رہیں گے ۔ ملک کو مودی کی لب کشائی کا انتظار ہے۔ عوام دیکھنا چاہتے ہیںکہ مودی اپنے دعوؤں میں کس قدر سنجیدہ اور سچے ہیں۔ کارروائی بعد میں سہی لیکن پہلے اپنے من کی بات عوام کو بتائیں۔ آخر نریندر مودی کب جاگیں گے ؟ بقول ڈگ وجئے سنگھ، سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ خاموش تھے تو نریندر مودی مہا خاموش ہے۔ شائد وہ یوگا کے موقع پر مختلف آسن کرنے سے تھک چکے ہیں اور اب آرام کر رہے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ اسکامس کے سبب بی جے پی بیمار ہوچکی ہے اور صحت مند ہونے کیلئے ساری پارٹی کو یوگا کی ضرورت ہے۔ جب بی جے پی کی خواتین کا یہ حال ہے تو مرد حضرات کا کیا حال ہیں۔ اسکامس اور بدعنوان چہروں کے ساتھ بی جے پی بہار میں عوام کا کس طرح سامنا کرے گی؟
نریندر مودی حکومت کے ایک سال کے دوران جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں۔ نریندر مودی دنیا کے سامنے تو دستور ہند کو ملک کی مذہبی کتاب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ حکومت کی سرپرستی میں بے لگام فرقہ پرست عناصر نے حکومت کی پالیسیوں پر عملاً کنٹرول حاصل کرلیاہے اور عوام پر ہندوتوا ایجنڈہ مسلط کرنے کا آغاز کردیا گیا۔ مذہبی آزادی اور رواداری کے دعوے صرف زبانی جمع خرچ تھے اور بی جے پی دراصل بھارتیہ ’’جملہ‘‘ پارٹی میں تبدیل ہوگئی، جو الفاظ اور جملوں کی تک بندی سے عوام کو گمراہ کرتی رہی۔ وقفہ وقفہ سے مختلف عنوانات کے ذریعہ اسلامی عقائد پر یلغار کی کوشش کی گئی۔ گھر واپسی ، ذبیحہ گاؤ ، زائد بچے پیدا کرنے کا تنازعہ ، یکساں سیول کوڈ ، رام مندر ، یوگا ، سوریہ نمسکار اور وندے ماترم کے لزوم جیسے نعروں سے اقلیتوں کے مذہبی تشخص پر حملہ کیا گیا۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ہیڈ گیوار کی برسی کے دن کو عالمی یوم یوگا کی حیثیت سے اقوام متحدہ سے منظوری حاصل کرنا نریندر مودی کی ذہنیت اور خفیہ ایجنڈہ کی عکاسی کرتا ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دینے والی نریندر مودی حکومت بھول رہی ہے کہ اسے صرف 33 فیصد عوام کی تائید حاصل ہے اور رائے دہندوں کی اکثریت ان کے ایجنڈہ کے خلاف ہے۔ کھلی شرانگیزی اس حد تک پہنچ گئی کہ بات بات پر پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے یا جبری طور پر بھیجنے کی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔
مودی پسند نہیں تو پاکستان جاؤ۔ گائے کا گوشت کھانا ہو تو پاکستان جاؤ ، بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے چاہئے تو پاکستان جاؤ ، گھر واپسی کی مخالفت کرنی ہو تو پاکستان جاؤ ، تحفظات چاہئے تو پاکستان جاؤ۔ سوریہ نمسکار سے انکار ہے تو پاکستان جاؤ ، اب حد یہ ہوگئی کہ یوگا نہیں کرنی ہو تو پاکستان جاؤ۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی مرکز میں حکومت چلا رہی ہے یا پاکستان ٹورازم ؟ کیا بی جے پی کو پاکستان میں سیاحت کے فروغ کا کنٹراکٹ مل چکا ہے کہ ہر کسی کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ اگر سیاحت کے فروغ کیلئے پاکستان بھیجنا ہی ہے تو پہلے سنگھ پریوار کے قائدین سے شروعات کریں۔ بی جے پی اور سنگھ کے ان قائدین کی فہرست تیار کی جائے جو تقسیم کے بعد پاکستان سے آئے تھے۔ اس میں بھی سینیاریٹی کو ملحوظ رکھتے ہوئے روانگی کا آغاز کریں۔ اگر ایسا کیا جائے تو بی جے پی کی صف اول کی قیادت پاکستان میں نظر آئے گی۔ ہمیں ہنسی آتی ہے کہ نریندر مودی نے تو حلف برداری میں نواز شریف کو پاکستان سے دہلی مدعو کیا لیکن سنگھ پریوار ہندوستانیوں کو پاکستان جانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ مودی نے ورلڈ کپ اور رمضان کے موقع پر نواز شریف سے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ خارجہ سکریٹری جئے شنکر کو سارک یاترا کے نام پر اسلام آباد روانہ کیا گیا۔ پاکستان کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ تو آپ کے رہنما نریندر مودی کریں لیکن ہندوتوا طاقتیں ہندوستانیوں کو پاکستان بھیجنے پر مصر ہیں۔ انہیں نریندر مودی سے پہلے پوچھنا چاہئے کہ ان کا کیا ارادہ ہے؟ سنگھ پریوار کی شر انگیزیوں کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ نے شعور بیداری کا جو کام کیا وہ بروقت اور قابل ستائش ہے۔ بورڈ کے اکابرین نے یوگا اور سوریہ نمسکار کے بارے میں شریعت کی رو سے سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے دینی اور ملی حمیت کا ثبوت دیا ہے۔ اکابرین نے حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر شریعت کے موقف کو پیش کیا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان مسلک اور عقائد سے ابھر کر شریعت پر یلغار کی سازشوں کا متحدہ طورپر مقابلہ کریں۔منور رانا نے کچھ اس طرح کہا ہے ؎
گئے وہ دن کہ ہواؤں سے خوف کھاتے تھے
ہوا سے کہنا چراغوں سے ہوشیار رہے