کے سی آر کی حکومت اور پارٹی پر گرفت مضبوط

محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ تحریک کو کامیابی میں تبدیل کرنے والے سربراہ ٹی آر ایس مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی اب انتظامی اُمور پر گرفت مضبوط ہوگئی ہے اوروہ دلیرانہ فیصلے کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی تنقیدوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی حلقوں میں ان کی سیاسی بصیرت کے چرچے عام ہورہے ہیں۔ 14سال تک تلنگانہ کی تحریک چلانے والے کے چندر شیکھر راؤ نے جہاںکانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کو علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے پر مجبور کیا وہیں سارے ملک میں چلنے والی مودی لہر کو تلنگانہ میں داخل ہونے نہیں دیا۔کے سی آر نے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے والی کانگریس اور تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کو مات دیتے ہوئے نئی ریاست میں اپنی حکومت قائم کرلی۔ پارٹی پر مکمل کنٹرول رکھنے والے سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے 9ماہ میں اقتدار پر اپنا لوہا منوالیا ہے، اس میں شک نہیں کہ ابتداء میں کئی مسائل کا سامنا ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو اُبھرنے کا کوئی بھی موقع نہیں دیا۔ برقی بحران تلنگانہ کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ابھی تک 600 سے زائد کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ آئندہ مزید برقی بحران بڑھ جانے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ سے برقی خریدی کا معاہدہ کیا گیاہے اور بی ایچ ای ایل سے بھی معاہدہ کیا گیا ہے۔ برقی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے لیکن پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا ہے۔

تلگودیشم پارٹی بی جے پی کی حلیف ہونے کی وجہ سے ابتداء میں تلنگانہ حکومت اور مرکزی حکومت کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور تھا تاہم دھیرے دھیرے اب حالات سدھر رہے ہیں اور دونوں حکومتیں ترقی اور دوسرے مسائل پر ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں۔ گزشتہ ماہ ورنگل میں تین دن تک قیام کرنے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ہنی مون ختم ہوجانے کا وزراء کو انتباہ دیتے ہوئے اپنے اپنے محکمہ جات کی کارکردگی میں اضافہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور بدعنوانیوں کو قطعی برداشت نہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے عوام کو چیف منسٹر آفس کا ٹیلی فون نمبر دیتے ہوئے سرکاری ایمپلائز کی جانب سے رشوت طلب کرنے پر ان کی راست شکایت کرنے کی ہدایت دی تھی۔ چند دن قبل بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے ڈپٹی چیف منسٹر و ریاستی وزیر صحت راجیا کو فوری اثر کے ساتھ برطرف کردیا گیا۔ اگر وہ چاہتے تو استعفی طلب کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کوئی وضاحت طلب کی بلکہ راست طور پر کارروائی کرتے ہوئے سیاسی حلقوں کو حیرت زدہ کردیا۔ راجیا کا دلت طبقہ سے تعلق ہے اس طبقہ کو اور ساتھ ہی ضلع ورنگل کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دینے کیلئے ایک اور چونکا دینے والا فیصلہ کرتے ہوئے کے سی آر نے ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ کڈیم سری ہری کو اسی دن راج بھون میں ریاستی وزیر کا حلف دلاتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر نامزد کردیا۔

کے چندر شیکھر راؤ کے اس فیصلہ سے عوام کو پیغام ملا ہے کہ وہ پارٹی اور حکومت پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں کیونکہ پارٹی اور حکومت میں کسی نے بھی چیف منسٹر کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔ یہاں تک کہ برطرف شدہ ڈپٹی چیف منسٹر راجیا نے چیف منسٹر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شفافیت کا ثبوت دینے کیلئے اس طرح کے فیصلے ضروری ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور کسی بھی تحقیقات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ یہی نہیں چیف منسٹر نے محکمہ صحت کے تین اعلیٰ عہدیداروں کا بھی تبادلہ کرتے ہوئے سرکاری مشنری کو چوکس کردیا ہے۔ فیس ریمبرسمنٹ کے مسئلہ پر فاسٹ اسکیم کا اعلان کرنے والے چیف منسٹر نے اس اسکیم سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے کانگریس دور حکومت کی اسکیم کو نہ صرف برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ 850 کروڑ روپئے کے بقایا جات جاری کرنے کا اعلان کیا جس سے طلبہ اور ان کے سرپرستوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف منسٹر کا یہ فیصلہ سیاسی طورپر بھی کارآمد نظر آرہا ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے حدود میں رہنے والے آندھرا اور رائلسیما کے عوام ( سیٹلرس ) نے بھی مسرت کا اظہار کیا ہے جس سے مجوزہ گریٹر حیدرآباد کے بلدی انتخابات میں سیٹلرس کی جانب سے ٹی آر ایس کیلئے اپنے موقف میں نرمی برتنے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تلنگانہ کے 10اضلاع میں حیدرآباد اور ضلع کھمم ایسے اضلاع ہیں جہاں ٹی آر ایس کا موقف انتہائی کمزور ہے۔ سیاسی حلقوں میں چانکیہ کی حیثیت سے مانے جانے والے کے چندر شیکھر راؤ نے ضلع کھمم سے تعلق رکھنے والے تلگودیشم کے طاقتور قائد ٹی ناگیشور راؤ کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے انہیں وزارت سونپ دی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے دو ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے ضلع کھمم میں ٹی آر ایس کے جھنڈے بلند کردیئے۔ دوسری طرف تلنگانہ کے کٹر مخالف تلگودیشم کے رکن اسمبلی ٹی سرینواس یادو کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے انہیں بھی وزارت سونپ دی اور اس کے علاوہ شہر کے مزید دو ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے ہیں۔ کانگریس اور تلگودیشم کے کئی سابق کارپوریٹرس بھی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔

چیف منسٹر کی اقتدار پر گرفت کا ایک اور ثبوت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں لاء اینڈ آرڈر پوری طرح کنٹرول میں ہے۔ حیدرآباد سے چند مسلم نوجوان داعش کے نیٹ ورک میں پھنس گئے تھے تاہم پولیس نے ان کے خلاف اندھادھند مقدمات درج نہیں کئے بلکہ نوجوانوں اور ان کے والدین کی کونسلنگ کرتے ہوئے انہیں چھوڑدیا گیا مگر نظر ضرور رکھی ہے۔ صرف ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ماضی میں تلگودیشم اور کانگریس کے دور حکومت میں شک کی بنیاد پر سینکڑوں مسلم نوجوانوں کے خلاف کئی مقدمات درج کروائے گئے انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا جس میں سے کئی نوجوانوں کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔ ہم دہشت گردی کے چنگل میں پھنس کر تشدد برپا کرنے والوں کے حق میں ہرگز نہیں ہیں بلکہ قانون کے مطابق انہیں سزا ملنی چاہیئے ۔ بے قصور نوجوانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت کی یہ پالیسی یقیناً مثبت نتائج برآمد کرے گی اور سماج میں پھیلی ہوئی بدگمانی اور بے چینی کو دور کرے گی۔

واستو کے نام پر سرکاری خزانہ کو پانی کی طرح بہانے کی ہرگز کسی کو اجازت نہیں ہے۔ چیف منسٹر کو اس پر یقین ہوسکتا ہے یہ ان کا شخصی اور انفرادی فیصلہ ہے اس کو سیاسی نظریہ سے دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے سکریٹریٹ میں داخل ہونے کیلئے اسمبلی میں چار راستے تبدیل کئے ہیں۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں نے واستو پر بھروسہ کرتے ہوئے ابھی تک 170کروڑ روپئے خرچ کردیئے ہیں۔ قدیم سکریٹریٹ کا واستو ٹھیک نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے چیف منسٹر تلنگانہ نے سکریٹریٹ کو ایرا گڈہ میں واقع چیسٹ ہاسپٹل کے احاطے میں منتقل کرنے اور 150 کروڑ روپئے کے مصارف سے نیا سکریٹریٹ تعمیر کرنے چیسٹ ہاسپٹل کو وقارآباد منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے اور اپوزیشن جماعتیں عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا بھی انتباہ دے رہی ہیں۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ چیف منسٹر اپنا چیمبر ہائیکورٹ کی طرز پر اور وزراء کے چیمبرس اسمبلی کی طرز پر تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں۔

دوسری جماعتوں کے قائدین کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے ٹی آر ایس کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی میں چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کامیاب ہورہے ہیں۔ ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین اور تلنگانہ تحریک میں حصہ لینے والے ملازمین اور دیگر قائدین کو 2014 کے عام انتخابات میں ٹکٹ دیا گیا۔ حکومت کی تشکیل کے بعد پارٹی میں شامل ہونے والے قائدین کو وزارت کے علاوہ دیگر عہدے بھی تقسیم کئے گئے ہیں جس سے ٹی آر ایس کے حلقوں بالخصوص 14سال سے پارٹی سے وابستہ رہتے ہوئے بے لوث خدمات انجام دینے والے قائدین میں ناراضگی اور مایوسی پائی جاتی ہے کیونکہ غیر ٹی آر ایس قائدین کو عہدوں کی تقسیم میں زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جس سے ٹی آر ایس کے حقیقی قائدین اور کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ تاہم اس وقت حکومت اور پارٹی پر مسٹرکے چندر شیکھر راؤ کی گرفت مضبوط ہے اس لئے سب خاموش ہیں مگر اندرونی طور پر ان کے تعلق سے ناراضگی ہے جسے وہ پارٹی صدر سے رجوع بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ سربراہ ٹی آر ایس کے سی آر کو بھی ہے۔ ٹی آر ایس کے توسیعی اجلاس میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے آئندہ2019 کے عام انتخابات میں 753 کے منجملہ 130 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے اور تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی کوئی متبادل جماعت نہ رہنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کے کیڈر میں ایک نیا جوش و خروش پیدا کرنے میں کامیاب تو ہوئے ہیں مگر بورڈ و کارپوریشن کے عہدوں کی تقسیم کے موقع پر کیا یہ قائدین خاموشی اختیار کرتے ہیں یا ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔