کے سی آر کو بے نقاب کرنے کی دھمکی

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
سیاسی لیڈر کی محنت ، خلوص ، نیت اور قوم پرستی میں مغلوب حکمرانی سے ایک حوشحالی کی لہر اٹھتی ہے ۔ ریاست تلنگانہ میں اسی طرح کی خوشحالی کا دعویٰ کرتے ہوئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پَر طول رہے ہیں ۔ ریاست کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کے سی آر نے حال ہی میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دے کر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ان کی حکومت میں ریاستی معاشی ترقی 17.5 فیصد ہوگئی ہے جو ملک کی کسی بھی بڑی ریاست کی معاشی ترقی سے آگے ہے ۔ محنت سے سینچے گئے تلنگانہ کو خوشحال بنانے کے لیے کے سی آر نے کتنی محنت کی ہے اور عوام نے ان پر کس حد تک اعتماد کیا ہے یہ تو چند ماہ بعد عام انتخابات کے نتائج سے اندازہ ہوجائے گا ان کی حکومت نے اگر اپنے فرائض منصبی کو دیانتداری سے ادا کیا ہے تو عوام پھر ایک بار ٹی آر ایس کو ووٹ دیں گے ۔ اب تک کہیں سے کسی بے ضابطگی کی کوئی آواز سنائی نہیں دی ہے ۔ صرف ٹی آر ایس کے اندر ہی دوسری پارٹیوں سے آنے والے قائدین کی بے ضابطگیوں اور مخالف پارٹی سرگرمیوں کی اطلاعات ہیں ۔ نظام آباد کے سینئیر لیڈر اور کانگریس کے سابق لیڈر ڈی سرینواس نے سال 2015 میں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اور انہیں حکومت تلنگانہ کا خصوصی مشیر مقرر کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انہیں کابینہ درجہ کی ذمہ داری دے کر بین ریاستی امور سے نمٹنے کے کام بھی حوالے کیے گئے ۔

بعد ازاں 2016 میں ڈی سرینواس کو تلنگانہ سے راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا گیا ۔ ان کے ہمراہ کیپٹن وی لکشمی کانت راؤ بھی تھے لیکن اب نظام آباد کے ٹی آر ایس قائدین اور کارکنوں کو ڈی سرینواس کی مخالف ٹی آر ایس سرگرمیوں پر اعتراض ہے ۔ ٹی آر ایس ایم پی کویتا کی زیر قیادت ٹی آر ایس قائدین اور ریاستی مہیلا صدر ٹی اوما نے چیف منسٹر کے سی آر سے مطالبہ کیا کہ ڈی سرینواس کے خلاف کارروائی کریں ۔ ان کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ کمزور ہورہی ہے ۔ ٹی آر ایس قائدین اپنی صف میں کسی دوسری پارٹی سے نکل کر آنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کررہے ہیں ۔ ڈی سرینواس کو بھی یہ لوگ برداشت نہیں کرسکے اب ڈی ناگیندر نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ یہ قائدین اپنی اصل پارٹی کو خیر باد کہہ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہورہے ہیں ۔ ان قائدین کا حشر بھی آگے چل کر ڈی سرینواس کی طرح ہوگا ۔ حالانکہ ڈی سرینواس کو ٹی آر ایس نے سر آنکھوں پر بٹھالیا تھا مگر وہ اپنی مخالف ٹی آر ایس سرگرمیوں کے ذریعہ معتوب بن گئے ۔ ٹی آر ایس نے ہمیشہ سینئیر قائدین کا احترام کیا ۔ انہیں عزت بخشی ہے ۔ کے سی آر نے واضح کردیا ہے کہ اگر کوئی بھی لیڈر مخالف پارٹی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ عام انتخابات سے قبل کسی بھی پارٹی میں مخالف پارٹی سرگرمیوں کو ’ بدشگونی ‘ مانا جاتا ہے ۔ ٹی آر ایس میں بدشگونی یوں شروع ہوئی کہ ایک سابق سینئیر کانگریس لیڈر ڈی سرینواس کو ٹی آر ایس سے نکالنے کے لیے زور دیا جارہا ہے تو دوسری طرف ڈی ناگیندر کی ٹی آر ایس میں شمولیت کو بدشگونی سمجھا جارہا ہے ۔ یہ بدشگونی اور بدگمانی ابھی سے شروع ہونا چیف منسٹر کے سی آر کے لیے فال نیک نہیں ہے ۔ کسی حد تک تو شکوک و شبہات مفروضے پر مبنی ہیں لیکن حقیقت سے پردہ اٹھانا ہی ایک تلخ سچائی ہوتی ہے ۔ ڈی سرینواس کا تنازعہ محض ایک معمول کا واقعہ ہے ۔ لیکن کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کے سی آر کے مستقبل پر داغ آئے گا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن کانگریس پارٹی کے لیے یہ موقع کا مقام ہے ۔

وہ تلنگانہ میں خود کو مضبوط کرنے کے لیے زور لگائے گی تو ہی کامیاب ہوگی یا کم از کم اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے گی ورنہ 2019 کے عام انتخابات کے طوفان میں وہ اسی طرح بہہ جائے گی کہ اس کے وجود کا احیاء ہونا مشکل ہوگا ۔ آندھرا ، ٹاملناڈو اور یو پی کی طرح اسے تلنگانہ میں بھی اپنی ساکھ کھو دینی پڑے گی ۔ یہ قومی پارٹی آئندہ انتخابات میں ٹی آر ایس جیسی علاقائی پارٹی کا مقابلہ کرسکے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال بی جے پی کو بھی ٹی آر ایس خاص کر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی کارکردگی اور طرز حکمرانی پر اعتراض ہے ۔ چیف منسٹر پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ پرگتی بھون جیسے پیالیس سے ایک بادشاہ کی طرح حکمرانی کررہے ہیں ۔ انہیں غریبوں کی آہ و بکا سنائی نہیں دے رہی ہے ۔ غریب عوام کا خیال کیے بغیر وہ حکومت کرتے جارہے ہیں ۔ حال ہی میں بی جے پی کے قومی ترجمان سمپت پاترا نے کہا تھا کہ چیف منسٹر حود کو دوسرا نظام متصور کررہے ہیں اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ غریبوں کا خیال نہیں رکھتے ۔ سمپت پاترا کی تنقید میں بھی جھول پایا جاتا ہے ۔ وہ ایک طرف کے سی آر کو بادشاہ کی طرح حکومت کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں دوسری طرف ان پر غریبوں کو نظر انداز کرنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں جب کہ حضور نظام کے دور میں غریبوں کا سب سے زیادہ خیال نظام حکومت نے کیا تھا ۔ کے سی آر کو حضور نظام کی طرح مثال دینا تنگ نظری اور کوتاہ ذہنی کی علامت ہے ۔ کانگریس کے سینئیر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر ایس جئے پال ریڈی نے بھی بحث چھڑ دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ اب زیادہ دن تک عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور کانگریس ان کو درست وقت میں بے نقاب کرے گی اور کے سی آر کو بہت جلد سنگینوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آخر جئے پال ریڈی کے پاس ایسی کونسی معلومات اور انکشافات ہیں جس کے ذریعہ وہ کے سی آر کو دھول چٹانے والے ہیں ۔ یہ تلنگانہ کے عوام دیکھنے کے منتظر رہیں گے ۔۔