تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے قومی سیاست میں قدم رکھنے کی خواہشات کے ساتھ جان و زندگی کو نکسلائٹس سے لاحق خطرات بھی تعاقب کرنے لگے ہیں ۔ کل تک تلنگانہ عوام کے درمیان رہنے والا لیڈر اچانک قومی اُفق کے خواب دیکھنے لگا ۔ اس خواب کے پیچھے پیچھے ماویسٹوں کا خظرہ بھی سایہ بن کر منڈلانے لگا اب یہ عوامی قائد سیکوریٹی کی مضبوط حصار میں پناہ لینے لگا ہے ۔ چیف منسٹر کو زیڈ پلس سیکوریٹی حاصل ہے اس کے باوجود انہوں نے اپنے لیے بلٹ پروف مریسیڈیز بینز خریدی۔ 3 سال قبل 4 کروڑ لاگت کے خریدی گئی اس بس کو بازو رکھ کر اب نئی 7 کروڑ لاگت کی نئی بس خریدنے کا منصوبہ ہے اس بس میں سیکوریٹی کے تمام عصری سازو سامان ہوں گے۔ خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے کے مصداق جب خدا کسی کو بے پناہ مقبولیت عطا کرتا ہے تو جان قیمتی بن جاتی ہے ۔ تلنگانہ عوام کے لیے جان دینے کا جذبہ رکھ کر 9 روز تک بھوک ہڑتال کرنے والے کے سی آر کو اپنی جان کی حفاظت کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنے عوام کی خدمت کرسکیں اور وعدوں و منصوبوں کو انجام دے سکیں ۔ جب مرکز نے ریاستوں کی ایک نہ سنی تو انہوں نے مرکز میں ہی اپنے لیے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم بنانے کا اعلان کردیا ۔ تیسرے محاذ کا منصوبہ نیا نہیں ہے ماضی میں بھی کئی علاقائی پارٹیوں نے مل کر تیسرا محاذ بنایا اور یہ مرکز میں اپنے وجود کے ذریعہ عوام کو متبادل حکومت بھی فراہم کی مگر یہ محاذ مختلف مکتب فکر کے سیاستدانوں کے علاوہ اپنے مفادات کی پوجا کرنے والوں کا ٹولہ ثابت ہوا تو تیسرا محاذ بکھر گیا ۔ اس وقت ملک کے حالات پھر ایک بار تیسرے محاذ کا تقاضہ کررہے ہیں تو اس کے لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ایک مضبوط پلیٹ فارم بنانے کی مساعی میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی بھی اس محاذ کی حامی ہیں لیکن قومی سطح پر محاذ کی قیادت کون کرے گا ۔ یہ سوال ہر لیڈر کو عزیز ہوگا کہ قومی محاذ پر وہ ہی قیادت کا حقدار بن جائے ۔ کے سی آر کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے قائدین فی الحال کے سی آر کی بات پر راضی ہوجائیں لیکن بعد ازاں ان حضرات کا موقف بدل جائے تو تیسرے محاذ کا خواب چکنا چور ہوجائے گا ۔ قومی سطح پر بی جے پی اپنا متبادل برداشت نہیں کرے گی ۔ چیف منسٹر نے 27 اپریل کو ایک اجلاس طلب کرنے پر غور کیا ہے ۔ اس اجلاس کی تاریخ قومی سطح پر تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی بنیار رکھے جانے کی تاریخ ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہم خیال پارٹیاں جمع ہو کر بی جے پی اور کانگریس کا متبادل بنانے تیار ہوجائیں تو وہ کے سی آر کی توقع کے مطابق مرکز میں ایک معیاری تبدیلی لانے میں ان کی مدد کرسکیں گے فی الحال یہ کہنا مشکل ہے ۔ 27 اپریل ٹی آر ایس کا یوم تاسیس دن ہے ۔ اس دن کو ٹی آر ایس کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے ۔ ریاستی سطح پر ٹی آر ایس نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس کامیابی کا عکس اب قومی سطح پر دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کے چندر شیکھر راؤ جب قومی سیاست میں سرگرم ہوں گے تو ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ کو تلنگانہ میں مضبوط مقام دیا جائے گا ۔ ٹی آر ایس کی ریاستی قیادت ان کے ہاتھ میں آئے گی ۔ کے ٹی راما راؤ ایک بہترین اڈمنسٹریٹر ثابت ہوسکتے ہیں ۔
امریکہ کی ماسٹر ڈگری رکھتے ہیں ۔ انگریزی ، تلگو کے علاوہ اردو زبان پر بھی عبور ہے ۔ اپنے والد کی طرح وہ بھی اچھی اردو بولتے ہیں ۔ کے سی آر کو قومی سیاست میں دلچسپی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انہیں اردو میں بات کرنے اور قومی قائدین کو اپنا ہمنوا بنانے میں مدد ملے گی ۔ اسی طرح کے ٹی آر بھی علاقائی سطح پر تمام سرکاری امور بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ ایک کم وقت میں کے ٹی راما راؤ نے اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا ہے ۔ اس لیے باپ کی حیثیت سے کے سی آر کو اپنے بیٹے میں یہ خوبی دکھائی دی ہے کہ ان کی جگہ وہ ریاستی امور بہتر طریقہ سے سنبھالیں گے ۔ لہذا وہ اب قومی سطح پر اپنی توجہ مرکوز کر کے سارا وقت نیشنل لیول کی فکر میں لگا سکتے ہیں ۔ کے ٹی آر بھی اپنے والد کی طرح مضبوط اعصاب کے مالک ہیں ۔ الفاظ اور موضوع پر بھر پور گرفت ، سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے حیدرآباد میں عالمی سطح کی چوٹی کانفرنس منعقد کر کے عالمی صنعتکاروں ، سرمایہ کاروں اور سیاستدانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے ۔ تلنگانہ کی نوجوان نسل کی نظروں کا مرکزی کردار بن چکے ہیں ۔ تلنگانہ کے نوجوان ان کی قیادت میں سیاسی میدان میں خود کو متحرک کر کے حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل متحدہ آندھرا پردیش کے قائدین وائی ایس راج شیکھر ریڈی اور چندرا بابو نائیڈو کے فرزندان علی الترتیب وائی جگن موہن ریڈی اور نارا لوکیش نے بھی علاقہ کی نوجوان نسل میں شعور پیدا کرنے کا باعث بنے تھے ۔ لیکن ان کی سیاسی جماعتوں میں آندھرائی خوشحال طبقہ کا عمل دخل زیادہ تھا اور اس سطح کی نوجوان نسل متحرک ہوسکتی تھی ۔ اس کے برعکس تلنگانہ میں کے ٹی آر نے غریب پرور نوجوانوں کے مسیحا کا رول ادا کرنے میں خود کو نمایاں کیا ہے ۔ تلنگانہ کے پسماندہ طبقات سے لے کر متوسط طبقہ اور اقلیتی طبقہ کے لوگ کے ٹی آر کو اپنا آئیڈل بنالیں تو ٹی آر ایس کو مضبوط نوجوان کیڈر ملے گا ۔ کے ٹی آر کی خوبیوں کو دیکھ کر ہی ان کی سیاسی بصیرت کی بناء پر انہیں کے سی آر کا سیاسی جانشین قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کل تک ٹی آر ایس میں اختلافات اور ہریش راؤ کے ساتھ تنازعات کی خبریں آئی تھیں ۔ اب یہ باتیں بھی بند ہوگئی ہیں ۔
کے ٹی آر سے ملنے والا ہر بزرگ کیڈر اس بات کا معترف ہے کہ وہ ایک سمجھ دار اور بزرگوں کا احترام کرنے والے نوجوان لیڈر ہیں ۔ انہیں بزرگوں سے ملاقات کے وقت اپنے الفاظ پر مکمل کنٹرول رکھنے کا ہنر آتا ہے ۔ وہ کبھی بھی موضوع سے ہٹ کر بات نہیں کرتے اور پھر انہیں اپنے والد کی طرح تلنگانہ عوام کی نبض کا اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کیا بات سننا چاہ رہے ہیں ۔ عوام سے رابطہ رکھنے میں کامیاب لیڈر ہی عوام کا پسندیدہ لیڈر بن جاتا ہے ۔ اقلیتی طبقہ کے ارکان کو ٹی آر ایس سے صرف اس بات پر ناراضگی ہے کہ ٹی آر ایس نے انہیں اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق راحت فراہم نہیں کی ۔ تعلیم ، روزگار اور سیاسی شعبوں میں ان کے ساتھ کے سی آر کے وعدوں کے مطابق موقع نہیں دیا گیا ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ کے سی آر کے قومی عزائم کے ساتھ کے ٹی آر اپنے والد کے منصوبوں کو بروے کار لاتے ہوئے مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی پر دھیان دیں ۔ آئندہ عام انتخابات تک ٹی آر ایس کو مسلمانوں سے دور ہونے نہ دیا جائے تو اس پارٹی کے سربراہ کے قومی ، علاقائی عزائم میں کوئی رکاوٹیں حائل نہیں ہوں گی ۔ اس میں شک نہیں کہ کے سی آر کے قومی عزائم کے اظہار کے ساتھ ہی دہلی سے لے کر کولکتہ ، کولکتہ سے لے کر جھارکھنڈ اور ٹاملناڈو سے لے کر تلنگانہ تک سیاسی منڈی لگ گئی ہے ۔اب تجوریوں کے منہ کھل جانے کا انتظار ہے ۔ روایتی سیاسی بیوپاریاں اور کھلاڑیاں میدان میں اتر آئیں گے ۔ 27 اپریل کو کون کون منظر عام پر آکر سیاسی اسٹاک ایکسچینج میں پیسہ لگتا ہے یہ منظر دیکھنے کے لائق ہوگا ۔
kbaig92@gmail.com