تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کے سی آر حکومت سے محض چند ماہ کی کارکردگی کا حساب مانگ لیا جائے تو اس کا جواب صفر ہوگا کیوں کہ اس حکومت کی دوسری میعاد شروع ہونے کے باوجود لوک سبھا انتخابات میں تلنگانہ عوام کے ووٹ بٹورنے کی تیاری ہورہی ہے ۔ کے سی آر کابینہ کی منہ دکھائی رسم پوری ہی نہیں ہوئی کہ خالی جیب سے نو منتخب ارکان اسمبلی اپنے رائے دہندوں کے درمیان دوبارہ پہونچکر لوک سبھا انتخابات کے لیے ووٹ مانگنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ہر کام کے لیے پیسہ چاہئے ۔ اسمبلی انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کر کے خالی جیب ہونے والے ٹی آر ایس قائدین کابینہ میں جگہ ملنے کی آس میں مبتلا ہیں ۔ بغیر وزراء کے بھی حکومت چلانا کوئی بچوں کا کھیل بھی نہیں ہے ، مگر کے سی آر اب وزراء کے بغیر حکومت چلا کر دکھا رہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس حکومت کو دوبارہ لاکر عوام پس رہے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ پوری دیانتداری سے حکومت کے ساتھ ہی ہیں ۔ عوام تھوڑا سا اور پسائی برداشت کرلیں تو لوک سبھا انتخابات میں بھی ووٹ دینے کے لیے کڑی دھوپ میں صبح سے پولنگ بوتھس پر طویل قطار میں ٹہرنے کو بھی اُف نہیں کریں گے ۔ کے سی آر کا سحر ہی تو ہے کہ کابینہ کے بغیر بھی سرکار چل رہی ہے ۔ اپوزیشن اچھل اچھل کر چیخ چیخ کر حیران ہے مگر کچھ کر نہیں پارہی ہے ۔ عوام کے ووٹوں سے محرومی کے بعد جو تنہائی نصیب ہوتی ہے اس میں اپوزیشن پارٹیاں بے چاری بری طرح پھنسی ہوئی ہیں ۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ تلنگانہ کا رائے دہندہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں انہیں ووٹ دے تاکہ وہ کے سی آر حکومت کو اوقات یاد دلا سکیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں کو یہ احساس ضرور ہے کہ اب ان کی کوئی اوقات نہیں ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود وہ کے سی آر کو اوقات یاد دلانے کی فراق میں ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کے سی آر نے اپنی وفاقی محاذ کی دنیا الگ سے بنائی ہے اور وہ اپوزیشن اتحاد سے دور ہوگئے ہیں ۔ قومی سطح پر مخالف مودی اپوزیشن اتحاد خاص کر علاقائی پارٹیوں کے کٹھ بندھن سے دور رہ کر کے سی آر اپنا وفاقی کٹھ بندھن بنانے کی ہی فکر میں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آیا قومی سطح پر علاقائی پارٹیوں کا ساتھ لیے بغیر کے سی آر اپنا وفاقی محاذ بنا پائیں گے ۔ اس وقت مخالف مودی صف میں جو پارٹیاں شامل ہیں ان تمام علاقائی پارٹیاں بھی اول دستہ ہیں ۔ حال ہی میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی کا مخالف مودی حکومت دھرنا اور کولکتہ پولیس کمشنر سے پوچھ گچھ کے لیے آنے والی سی بی ائی ٹیم کے خلاف شدید احتجاج کی قومی و علاقائی ہر اپوزیشن پارٹی نے تائید کی صرف تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور اس کے سربراہ کے سی آر ہی ممتا بنرجی سے دور رہے ۔ کولکتہ میں جمع ہونے والی علاقائی پارٹیوں کے قائدین نے جہاں وفاقی محاذ کا مضبوط علمبردار ہونے کا مظاہرہ کیا تو وہیں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ اس سیاسی صف بندی سے دور رہے ۔ ریاستی حکومتوں کے اختیارات کو سلب کرنے والے مرکز کی نریندر مودی حکومت کے اقدام و خلاف اپوزیشن کا یہ متحدہ مظاہرہ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں ایک نئی سمت کا تعین کرے گا ۔ لیکن کے سی آر نے تلنگانہ کو آج اس سمت سے موڑ دیا ہے ۔ کولکتہ میں کئی علاقائی قائدین اور چیف منسٹرس نے شرکت کی ان میں چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو ، چیف منسٹر کرناٹک ایچ ڈی کمارا سوامی ، چیف منسٹر اوڈیشہ نوین پٹنائک نے بھی ممتا بنرجی کے حق میں آواز اٹھائی ۔
جنہوں نے بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ریاستی حکومتوں کو کمزور کرنے سی بی آئی کا استعمال کررہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں بھی مغربی بنگال واقعہ پر ہنگامہ ہوا تو ٹی آر ایس قائدین بھی اس ہنگامہ سے دور رہے ۔ ٹی آر ایس قائدین نے اپنی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں یہی کہا کہ کے سی آر نے غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے۔ اس لیے وہ اس سیاسی ڈرامہ سے دور ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ جب کے سی آر نے اپنے وفاقی محاذ کے قیام کی کوششوں کے دوران دو مرتبہ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی سے ملاقات کی تو انہوں نے کے سی آر کو کوئی تیقن نہیں دیا ۔ کے سی آر چاہتے تھے کہ لوک سبھا انتخابات سے قبل ان کا وفاقی محاذ قائم ہوجائے اور ممتا بنرجی اس میں شامل ہوں لیکن اب وفاقی محاذ کا رخ بدل گیا ہے ۔ کے سی آر کو بی جے پی سے قربت حاصل ہے وہ اس قربت میں دوری لانا نہیں چاہتے ۔ بی جے پی کے ساتھ ان کی درپردہ کیمسٹری بہترین طریقہ سے چل رہی ہے لہذا وہ اپنے اس موقف اور اپوزیشن کو نقصان پہونچانا نہیں چاہتے ۔ مخالف بی جے پی پارٹیوں کو ممتا بنرجی کے بیٹھے رہو دھرنے کی کامیابی میں اپنی کامیابی نظر آرہی ہے ۔ خاص کر چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے مغربی بنگال سے واپسی کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں توقع تھی کہ ممتا بنرجی کے اس احتجاج میں کے چندر شیکھر راؤ اور وائی ایس جگن موہن ریڈی بھی حصہ لیں گے لیکن ان دونوں نے تمام غیر بی جے پی پارٹیوں کے ساتھ اظہار یگانگت نہیں کیا تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ٹی آر ایس اور وائی ایس کانگریس پارٹی آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ ہوں گی ۔ ان دونوں پارٹیوں کی مرکز کی بی جے پی حکومت سے خفیہ معاملت ہوچکی ہے ۔ بہر حال یہ بات سارے ملک کو معلوم ہوچکی ہے کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت سی بی آئی جیسے اداروں کا غلط استعمال کررہی ہے اور کے سی آر بھی اس میں برابر کے شریک سمجھے جارہے ہیں ۔ مرکز سے لے کر ریاستی سطح تک اب کچھ تو بدل رہا ہے ۔ کے سی آر نے وفاقی محاذ کا خواب دیکھا تھا لیکن اس کے حقائق ممتا بنرجی کی صف میں نظر آرہے ہیں ۔ سیاسی سوچ اور محسوسات کی دنیا میں ہلچل سی مچی ہوئی ہے ۔ کہیں شور بہت ہے تو ادھر تلنگانہ میں ایک موہوم سے دھمک سنائی دے رہی ہے جو آنے والے دنوں میں کے سی آر کو زیادہ نہ سہی کچھ نہ کچھ پریشان کرے گی ۔۔