’’نیا پاکستان‘‘ کیلئے ہنگامہ خیز سفر ’تکلیف دہ سمجھوتے لیکن جنگجویانہ بلند حوصلگی کو خیرباد نہیں کیا
راج دیپ سردیسائی
ڈسمبر 2013ء میں کرکٹ سیاستداں بن جانے والے عمران خان ہندوستان ٹائمز لیڈرشپ سمٹ میں شرکت کے لیے ہندوستان آئے تھے۔ اسی موقع پر دہلی کے انتخابات کے نتائج منظر عام پر آچکے تھے اور اروند کیجروال ہندوستانی سیاست میں ایک نئی کرن بن کر نمودار ہوئے تھے تب عمران خان نے کہا تھا کہ میں اروند کیجروال نے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ میری طرح وہ بھی سیاسی کرپشن کے لیے جرأت مندانہ اقدامات اٹھانے کی ٹھانی ہے۔ اس کے پانچ سال بعد عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے نامزد ہوچکے ہیں لیکن کیجروال اپنی حیثیت منوانے کے لیے اپنی تگ ودو جاری رکھے ہوئے ہیں اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان برصغیر کی خاندانی وراثتوں کی روایاتی سیاست سے ہٹ کر اور بغیر پارٹی تنظیم کے اپنی جیت درج کروائی ہے ہاں یا نہیں؟ ہاں عمران خان یقیناً ان افراد کی لسٹ میں شامل ہوگئے ہیں جو نہ صرف روایاتی سیاسی اشرافیہ طبقہ کے لیے چیلنج بن گئے ہیں بلکہ مطلق پاکستانی رجحان جس میں آرمی کو ہمیشہ عمل دخل رہا ہے کی مددسے 2018ء کے انتخابات کے لیے میدان صاف کرلیا تھا۔ برخلاف کجریوال کے عمران خان سیاسی افق پر اچانک نمودار ہونے والے سیاستداں نہیں ہیں بلکہ بھٹو، زرداری اور شریف برادریوں کے ساتھ اپنی جنگوں کو لڑتے ہوئے اپنی سیاسی بصیرت کو نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ اپنی لچکدار رویہ کی بدولت عوام میں بھی مقبول ہوتے گئے۔ یقینا خود یقینی اور خود اعتمادی ہی عمران کی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس راہ میں وہ اپنے آپ کو نہ صرف ثابت قدم رکھے بلکہ کسی بھی مشکل سے سمجھوتہ نہیں کیا چاہے وہ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ ہو یا پھر بحیثیت وزیراعظم۔
ابتدائی ایام میں جب ان کی پارٹی کو انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا تو ان کے ساتھ ہوئی بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ میرا قیاس ہے کہ سیاست کرکٹ نہیں ہے اور جب میں نے مبہم انداز میں ان سے شک و شبہ کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگے کہ ’’آپ فکر نہ کریں سوال میرے کب وزیراعظم بننے کا نہیں ہے بلکہ پاکستان کی نسل نوع کی آبیاری ہے اور جب وہ تیار ہوکر مجھ سے کہیں گے تو میں ان کی قیادت کے لیے تیار رہوں گا۔‘‘
نئے پاکستان کے حصول کے لیے ان کا ہنگامی سفر کئی سمجھوتوں سے پرتھا لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی جنگجویانہ بلند حوصلگی کو خیرباد نہیں کیا۔ مثال کے طور پر پاکستان طالبان میں وہ ’’طالبان خان‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان پر تنقید کی گئی لیکن انہوںنے اس کا کبھی بھی کوئی لحاظ نہیں کیا۔ مذہبی انتہاپسندوں کی جانب انہوںنے اپنا ہاتھ ایک پیدائشی مسلمان ہونے کی حیثیت سے مخالف مغرب اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے بڑھایا جو نہ صرف سیاسی ضرورت تھی بلکہ اپنی آواز کو بھی انہوں نے وسعت دے دی۔ ان کی شخصی زندگی اور ان کے سیاسی عزائم دونوں میں ایک واضح فاصلہ نظر آتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک شاندار قسم کے محل نما مکان رہتے ہوئے ایک عام آدمی کی روز مرہ زندگی کی کشاکش سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا ایک عجیب سی فطرت کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسا کہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو قف کرتے ہوئے دو کینسر ہاسپٹلز کا قیام اور ایک یونیورسٹی جہاں پر شائد ہی کوئی صحت اور تعلیم کی جانب توجہ دیتا ہو۔ عمران خان شائد Jekyll اور Hyde کی شخصیت کے آئینہ دار رہے جہاں پر عام عوام ان کو ہیرو کے ساتھ ساتھ ایک مقبول عام کرشماتی قائد کی طرح تسلیم کرتے ہیں۔ کرکٹ فیلڈ پر وہ ایک خوفناک بولر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے خاص طور پر ہندوستانی شروعاتی بلے بازوں کے لیے وہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی کھیل کے ایک شوخ اور چنچل لڑکے کی طرح اپنی نپی تلی خوبصورت بائولنگ کے لیے شہرت رکھتے تھے جس کی بنا ہر ایک دفعہ سنیل گواسکر کو مشورہ دیا گیا تھا کہ عمران کی بائولنگ کے وقت ان کے بائونسر نے بچنے کے لیے ہلمٹ ضرور پہنا کریں۔
عمران خان کی ہمہ پہلو شخصیت کو نمایاں کرنے کے لیے کچھ گوشوں نے ان کو یا تو منافق یا پھر موقع پرست کہہ کر خطابات دیئے گئے۔ ان کی انفرادی غلطیوں پر تنقید کے باوجود ان کا ارادہ غیر متزلزل رہا اور بالآخر انہوں نے پاکستان کی غیر مقبول سیاسی اشراف کا تختہ الٹ دیا۔ کجریوال نے بھی اپنے دھرنوں کی بدولت انتشار کی سیاست کا خاتمہ کردیا اور پیچھے ہٹنے سے باز رہے۔ چنانچہ آج عمران خاں پر بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ وہاں کی فوجی قیادت کے پسندیدہ قائد ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران جیسے شخص کو خارجی عناصر کب تک اپنے زیر اثر رکھ سکتے ہیں جبکہ وہ جب تک وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے ہیں ان کو ٹیم کھلاڑی خوف سے ’’کپتان خان‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
پاکستان جیسے مختلف جہتی ملک اور پرتشدد سوسائٹی جہاں پر مذہب، دہشت گردی اور فوجی وردی کا خوف کرکٹ ڈریسنگ روم کی قیادت کی طرح آسان نہیں ہے۔
نوٹ : 2015ء میں عمران آج تک میڈیا میٹنگ کے سلسلہ میں ہندوستان آئے تھے۔ اس وقت ان کے اور وزیراعظم مودی کے درمیان ایک میٹنگ مقرر کی گئی تھی۔ میٹنگ کے اختتام کے بعد عمران خان نے کہا تھا کہ ’’یہ واقعی ایک مثبت انداز فکر کی شخصیت ہے اور ان کے ساتھ ہوئی بات چیت بہت ہی اچھی رہی۔‘‘ مستقبل میں دوبارہ مودی۔ عمران بات چیت ہوگی۔ میرے لیے حیرت انگیزی سے کم نہیں۔
rajdeepsardesai52@gmail.com