وادیٔ کشمیر دوبارہ 1990ء کی دہائی کے دَور کی طرف تیزی سے بڑھتی نظر آرہی ہے جب بڑھتی عسکریت پسندی نے ساری ریاست کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کردیا تھا، ریاست کی معیشت تباہ ہوئی، عوام کا جینا محال ہوا، سیاحت بُری طرح متاثر ہوگئی تھی۔ کچھ اُسی طرح کے حالات بننے شروع ہوئے جب سے سرحدی ریاست میں پی ڈی پی۔ بی جے پی کا ’عجیب‘ اتحاد برسراقتدار آیا۔ عہدیداروں کے مطابق رواں سال وسط اپریل تک وادی کشمیر کے کم از کم 45 نوجوانوں نے عسکریت پسندی کا دامن تھام لیا، جن میں ایک ایم بی اے اور ایک پی ایچ ڈی اسکالر شامل ہیں۔ اس تعداد میں یکایک اضافے نے سکیورٹی انتظامیہ کو حیرانی میں ڈال رکھا ہے۔ اس ریاست میں سکیورٹی نظم و نسق کی اعلیٰ قیادت کے مطابق جنوبی کشمیر میں شوپیان اور کلگام عسکریت پسندی کے بڑے مرکز کے طور پر اُبھر آئے ہیں کیونکہ 45 نوجوانوں کے منجملہ 12 اور 9 ترتیب وار شوپیان اور کلگام سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنوبی کشمیر کے دیگر علاقے جہاں سے نوجوانوں نے عسکریت پسندی کی راہ اختیار کی ہے، اننت ناگ (7)، پلوامہ (4) اور اونتی پورہ (3) ہیں۔ اس کے علاوہ غیرمصدقہ اطلاعات جن کی تصدیق کا عمل جاری ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پلوامہ سے مزید تین نوجوانوں نے عسکری گروپوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
اسی طرح شمالی کشمیر میں ہندواڑہ سے ایک نوجوان، کپواڑہ سے دو، باندی پورہ اور سوپور سے ایک ایک، اور سرینگر سے ایک نوجوان ماضی قریب میں غائب ہوگئے اور شبہ ہے کہ وہ بھی عسکری تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں 26 سالہ جنید اشرف سہرائے (کشمیر یونیورسٹی کا ایم بی اے ڈگری کا حامل) ولد محمد اشرف سہرائے شامل ہے۔ محمد اشرف نے حال ہی میں سید علی شاہ گیلانی کے جانشین کے طور پر صدرنشین تحریک حریت کا جائزہ حاصل کیا ہے۔ تحریک حریت علحدگی پسند گروپوں کی موافق پاکستان اجتماعی تنظیم ہے۔ اس فہرست میں 26 سالہ پی ایچ ڈی اسکالر منان بشیر وانی متوطن کپواڑہ بھی شامل ہے۔ منان بشیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں زیرتعلیم تھا۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی مقامی عسکریت پسند کی ہر تجہیز و تکفین عسکری گروپوں کی صفوں میں کم از کم دو کے اضافے کا موجب بنتی ہے۔ وادی کشمیر میں رواں سال 55 عسکریت پسندوں کی ہلاکت دیکھنے میں آئی، جس میں 27 مقامی نوجوان شامل ہیں۔ ایک سینئر فوجی عہدہ دار جو انسداد عسکریت پسندی آپریشنس سے وابستہ ہیں، انھوں نے کہا کہ یہ کبھی ختم نہ ہونے والا معاملہ بن چکا ہے۔ ہم اس معاملے میں خود کو ملوث کرتے ہوئے جوابی کارروائی کے ذریعہ ان کا خاتمہ یا انھیں خودسپرد ہونے پر مجبور کرتے ہیں اور اگلے ہی دن سوشل میڈیا ہمیں ایک اور عسکریت پسند جنم لینے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ یہ موذی سلسلہ ٹوٹنے کی ضرورت ہے۔
جنوبی کشمیر کے برسراقتدار پارٹی سے وابستہ سیاستدانوں نے بتایا جاتا ہے کہ اپنے آبائی مکانات چھوڑ دیئے اور خود کو سرینگر یا جموں میں بہت مضبوط سکیورٹی والی قیامگاہوں کو منتقل کرلیا ہے۔ اس سلسلہ میں موجودہ صورتحال کے بارے میں اُن کے تبصرہ یا آراء کیلئے وہ دستیاب نہیں ہورہے ہیں کیونکہ وہ عسکریت پسندی سے متعلق کوئی بھی بحث میں پڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ایک سینئر سیاستدان نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال کبھی نہیں ہوئی تھی کہ اصل دھارے والے سیاستدانوں کیلئے زندگی اس حد تک تنگ ہوگئی ہے یہ خوفزدہ کردینے والے حالات ہیں۔
سکیورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ شوپیان اور اننت ناگ میں 13 مقامی دہشت گردوں کو ہلاک کردینے کے بعد اپریل میں مختلف عسکری گروپوں میں شامل ہونے والے مقامی نوجوانوں کی تعداد میں کھلے طور پر اضافہ ہوا ہے۔ پولیس نے کئی والدین سے رجوع ہوکر ان سے درخواست کی کہ اپنے بچوں کو خودسپردگی کیلئے کہیں، جن کیلئے نارمل زندگی کا یقین دلایا جاتا ہے۔ ایک پولیس عہدہ دار کا کہنا ہے کہ معاملہ بدستور جوں کا توں ہے کیونکہ والدین بے چارگی کا اظہار کررہے ہیں۔
بہرحال حکام اور حکومتوں کو معاملہ کی جڑ تک پہنچ کر کوئی نہ کوئی حل ضرور ڈھونڈ نکالنا ہوگا کیونکہ اس معاملے کو یونہی نہیں چھوڑا جاسکتا، مقامی عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں سسٹم کے تئیں مایوسی مزید بڑھ جائے گی اور ایسی صورت میں سماج صرف تباہ ہوتا جائے گا۔ کشمیری نوجوانوں کو دو طرفہ پریشانی کا سامنا ہے۔ اول، علحدگی پسند گروپ اُنھیں ذہن سازی کے ذریعے کٹرپسندی کی طرف بھگا لے جاتے ہیں، اور دوم، حکومتیں اس سلگتے موضوع پر بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہیں چاہے وہ ریاستی پی ڈی پی۔ بی جے پی حکومت ہو یا مرکز کی بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت۔ وہ کشمیریوں کو اصل دھارے میں شامل کرنے سے قاصر نظر آرہی ہیں۔
(پی ٹی آئی کا تبصرہ)