کینڈا میں اقلیتوں کے خلاف ماحول بنانے کی تیاری 

حجاب مذہبی علامت ہے لیکن صلیب نہیں‘ فرانسو الیگو کا یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے جب صوبائی حکومت سرکاری ملازمتوں کے مذہبی لباس مثلا ‘ مسلمان خواتین کے حجاب اور یہودیوں کی مخصوص ٹوپی پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیارکررہی ہے۔

ٹورنٹو۔ کینڈا کے صوبے کوبیک کے نو منتخب پر یمیئر کو یہ کہنے پر تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے کہ صوبائی پارلیمان میں نصب صلیب مذہبی علامت نہیں ہے۔

فرانسو الیگو کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب صوبائی حکومت سرکاری ملازموں کے مذہبی لباس مثلا مسلم خواتین کا حجاب او ریہودیوں کی مخصوص ٹوپی پر پابندی لگانے کا منصوبہ تیار کررہی ہے۔

اس پر بڑے پیمانے سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے او رناقدین کا کہنا ہے کہ اس کانشانہ اقلیتیں بنیں گی

۔سال2009میںآنے والی رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ اس صلیب کو پارلیمان کی عمارت سے ہٹادینا چاہئے کو وہاں1932سے نصب ہے۔ تاہم کوبیک حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کیاہے۔سال2014میں پارٹی کو بیکوانامی جماعت نے ایک بل کی تجویز دی تھی جس میں تمام سرکاری ملازموں کو لباس پر نمایاں مذہبی اعلامات ظاہر کرنسے روکا جائے۔

بہت سارے لوگوں نے اسے اسلام او ریہودی دشمنی قراردیا تھا تاہم حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ملک میں سکیولرزم کو فروع اور چرچ او رریاست کو الگ کرنا ہے۔

گذشتہ ہفتے اقتدار میںآنے کے بعد لیگو کی حکومت نے تمام مذہبی اعلانات پر پابندی لگانے کے عزم کا اعادہ کیاہے ‘ کہاکہ اگر کوئی سرکاری استاد ایسا کرنے سے انکار کریں تو اسے نوکری سے نکال دیاجائے گا۔تاہم صلیب کو مذہبی علامت نے سمجھنے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے ۔

کینڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو جن کا تعلق کوبیک ہی سے ہے نے کہاکہ حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ خواتین سے کہے کہ کس قسم کا لباس پہنیں۔ دریں اثنا اساتذہ اور دووسرے سرکاری ملازموں نے کہاکہ وہ اس مجوزہ پابندی کی مزاحمت کریں گے۔

فرحین احمد ایسی ہی ایک مقامی ہیں جو حجاب پہنتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آکر دیکھو کہ میری کلاس میں کیاہورہا ہے اور ہم کیا سیکھا رہے ہیں او رکیا پڑھا رہے ہیں۔کیاوہ غیر جانبدار ہے یا نہیں‘ بجائے یہ دیکھنے کے کہ میں نے سر پر کااوڑھ رکپا ہے ۔

وہاں پہلے بھی حجاب اور یہودیوں کی مخصوص ٹوپی پر پابندی لگانے کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔