کیسے شفاف لباسوں میں نظر آتے ہیں

رشیدالدین

مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت کے قیام میں کلیدی رول ادا کرنے والی ریاست آندھراپردیش میں آخرکار صدر راج نافذ کردیا گیا۔ عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے اعلامیہ سے عین قبل یو پی اے حکومت کو آخری کابینی اجلاس میں رائے دہندوں کو راغب کرنے سے متعلق کئی فیصلے کئے گئے۔ اس طرح یو پی اے نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ حکومت بھلے ہی کسی جماعت کی ہو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ لمحہ آخر تک ووٹرس کو لبھانے کی کوشش کی جائے۔ 5 سال کسی طرح گزر جائیں لیکن انتخابات سے عین قبل رائے دہندوں کی بے ساختہ یاد آجاتی ہے۔ مرکزی کابینہ نے سرکاری ملازمین کے گرانی الاؤنس کو 90 فیصد سے بڑھاکر صد فیصد کرنے کا فیصلہ کیا جس سے 50 لاکھ ملازمین اور 30 لاکھ وظیفہ یاب افراد کو فائدہ ہوگا۔ گزشتہ سال ستمبر میں ہی گرانی الاؤنس کو 10 فیصد سے بڑھاکر 90 فیصد کیا گیا تھا۔

مرکز نے پراویڈنٹ فنڈ کے تحت وظیفہ یاب افراد کو اقل ترین وظیفہ 1000 روپئے کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس سے 28 لاکھ وظیفہ یاب مستفید ہوں گی۔ ضمانت روزگار اسکیم کے تحت کام کے دنوں کی تعداد کو 100 بڑھاکر 150 کردیا گیا ۔ یہ تمام فیصلے ظاہر ہے کہ انتخابی مہم کا حصہ ہیں کیونکہ حکومت انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد اس طرح کا کوئی اعلان نہیں کرسکتی۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے ساتھ ہی ضابطہ اخلاق نافذ ہوجاتا ہے۔ مرکزی حکومت نے آندھراپردیش میں صدر راج کے نفاذ سے متعلق جو فیصلہ کیا اسے مجبوری ہی کہا جائے گا کیونکہ حکومت کی تشکیل میں ناکامی کے بعد صدر راج کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ صدر راج اور وہ بھی عام انتخابات سے قبل یقیناً اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی پڑیں گے۔ آندھراپردیش جو کانگریس کے ایک مضبوط قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا ، اس قلعہ کو کسی دشمن نے نہیں بلکہ خود کانگریس نے اپنے ہاتھوں سے مسمار کیا ہے ۔ آندھراپردیش نے کانگریس پارٹی کو 32 ارکان پارلیمنٹ کا تحفہ پیش کر کے مرکز میں اس کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔

ان ارکان کی بدولت ہی کانگریس نے اپنی قیادت میں حکومت تشکیل دی۔ یہ الگ بات ہے کہ تشکیل حکومت میں اس قدر بڑی حصہ داری کے باوجود آندھراپردیش کی ناقدری کی گئی اور حکومت میں آندھراپردیش کو اس قدر نمائندگی نہیں دی گئی جس کی وہ حقدار تھی۔ قومی سیاست میں آندھراپردیش کی حصہ داری کو اس اعتبار سے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ رائے دہندوں کی تعداد کے لحاظ سے اس کا شمار ملک کی 5 بڑی ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن سیاسی مفادات کے تحت کئے گئے فیصلوں کے سبب خود کانگریس کو صدر راج کے نفاذ کے ذریعہ نہ صرف ریاست بلکہ ملک کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ جو پارٹی ایک مضبوط ریاست میں خود اپنے قائدین پر کنٹرول نہ کرے، وہ کس طرح ملک کو کنٹرول کر پائے گی۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے وعدہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں پارٹی دونوں علاقوں میں خود اپنے قائدین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف منسٹر کی حیثیت سے کرن کمار ریڈی کے استعفے کے بعد 10 دن میں کانگریس متبادل حکومت کے قیام میں ناکام ہوگئی ۔ ایک طرف پارٹی میں بغاوت اور دوسری طرف قائدین کی دیگر پارٹیوں کی طرف دوڑ کو دیکھتے ہوئے مرکز کے پاس صدر راج کے سواء کوئی متبادل نہیں تھا ۔

آندھراپردیش میں یہ دوسرا موقع ہے، جب صدر راج نافذ کیا گیا۔ 11 جنوری 1973 ء سے 10 ڈسمبر 1973 ء تک ’’جئے آندھرا‘‘ تحریک کے دوران صدر راج نافذ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل آندھرا ریاست میں 1953-54 کے درمیان بھی عوام کو صدر راج سے گزرنا پڑا۔ لوک سبھا میں تلنگانہ بل کی منظوری کے دوسرے دن اور راجیہ سبھا میں منظوری سے ایک دن قبل یعنی 19 فروری کو کرن کمار ریڈی نے استعفیٰ پیش کردیا اور گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے جو ریاست کی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہیں، دوسرے ہی دن صدر راج کے نفاذ کی سفارش کردی لیکن چیف منسٹر عہدہ کے دعویداروں نے دہلی تک دوڑ لگائی اور ہائی کمان کو تشکیل حکومت کی صلاح دی لیکن اس وقت تک کانگریس درکار عددی طاقت سے محروم ہوچکی تھی۔ اسے کانگریس قیادت کی کمزوری نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ اتنی بڑی ریاست میں انتخابات صدر راج میں ہوں گے۔ یہ دراصل کانگریس کی تحکمانہ انداز فکر اور ڈکٹیٹر شپ طرز کارکردگی کا نتیجہ تھا کہ ریاست کی تقسیم کی کوششوں کے دوران شدید بحران کے باوجود صدر کانگریس اور نائب صدر کانگریس نے ریاست کا رخ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ اب جبکہ پارلیمنٹ میں بل منطور ہوچکا ہے، کانگریس قیادت دورہ کی تیاری کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دورہ انتخابی مہم کا حصہ ہوگا۔

کانگریس، سیاسی مقصد براری کیلئے ریاست کی تقسیم کا بل کسی طرح پارلیمنٹ میں منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی لیکن دونوں علاقوں میں اسے خاطر خواہ فائدہ ملنے کی امید نہیں ہے۔ کانگریس کو یقین تھا کہ بل کی منظوری کے ساتھ ہی ٹی آر ایس ضم ہوجائے گی لیکن چندر شیکھر راؤ کے تیور بھی بدلے بدلے دکھائی دے رہے ہیں۔ انتخابات تک یہ اختلافات کیا صورت اختیار کریں گے،کہا نہیں جاسکتا۔ تلنگانہ میں کانگریس کا یہ حال ہے تو سیما آندھرا میں اور بھی بری حالت ہے۔ تلگو دیشم کی مقبولیت میں اضافہ ، وائی ایس آر کانگریس کے حق میں لہر اور کرن کمار ریڈی کی جانب سے نئی پارٹی کے قیام کی تیاریوں کے بیچ کانگریس کیلئے شاید ہی سیما آندھرا میں داخلہ کا کوئی راستہ مل پائے گا۔ ایک ماہ کے عرصہ میں دو ریاستوں میں صدر راج کے نفاذ کے لئے کانگریس ذمہ دار ہے۔ ایک نئی دہلی اور دوسرا آندھراپردیش۔ آندھراپردیش میں منتخب حکومت کے بغیر انتخابات کا سامنا کانگریس کیلئے خسارہ کا سودا ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ تو کانگریس ہی کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔

عام انتخابات سے عین قبل پھر ایک بار تیسرے محاذ کے قیام کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ہر چناؤ سے قبل بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر بعض علاقائی جماعتیں اس طرح کا محاذ قائم کرتی ہیں اور نتائج کے بعد اپنے اپنے سیاسی اغراض کیلئے دوسرے محاذ سے ہاتھ ملا لیتی ہیں اور محاذ بکھر جاتا ہے ۔ اس طرح کے محاذوں کے قیام اور ان کے پس پردہ مقاصد کو دیکھتے ہوئے عوام کا ان وقتی محاذوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ہر چناؤ سے قبل کسی نہ کسی عنوان سے محاذ تشکیل پاتے ہیں۔ محاذ کا نام تو نیا ہوتا ہے لیکن اس میں شامل وہی پرانے چہرے ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین چناؤ سے قبل ہی غیر کانگریس اور غیر بی جے پی محاذ کی تشکیل کا خیال کیونکر آتا ہے جبکہ پانچ برس تک یہ پارٹیاں اپنی اپنی ایجنڈہ کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ 2014 انتخابات سے قبل 11 پارٹیوں نے غیر کانگریس ، غیر بی جے پی محاذ کے قیام کا فیصلہ کیا لیکن محاذ کے اعلان کے وقت بیجو جنتا دل اور آسام گن پریشد غیر حاضر تھے۔ اس طرح پارٹیوں کی تعداد گھٹ کر 9 ہوگئی ۔ محاذ میں جو پارٹیاں شامل ہیں ، ان میں سماج وادی ، جنتا دل یونائٹیڈ ، آل انڈیا انا ڈی ایم کے ، سی پی ایم ، سی پی آئی ، جنتا دل سیکولر، جھارکھنڈ وکاس مورچہ ، فارورڈ بلاک اور آر ایس پی شامل ہیں۔ ترنمول کانگریس اور تلگو دیشم جیسی اہم علاقائی جماعتیں اس محاذ میں شامل نہیں۔

لالو پرساد یادو نے کانگریس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا جبکہ رام ولاس پاسوان دوبارہ این ڈی اے میں شامل ہوچکے ہیں۔ تیسرے محاذ میں سوائے کمیونسٹ جماعتوں کے اکثر جماعتیں ایسی ہیں جن کے لئے محاذ میں شامل ہونا مجبوری ہے۔ اگر وہ نہ آئیں تو ان کی ریاست کی دوسری علاقائی جماعت محاذ میں شامل ہوجائے گی۔ محاذ کے قیام کے وقت تو سیکولرازم کے تحفظ اور فرقہ پرستوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن نتائج کے ساتھ ہی اقتدار میں حصہ داری کیلئے کانگریس اور بی جے پی کے ساتھ شامل نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے محاذ کی تشکیل سے قبل تمام جماعتوں کو تحریری طور پر عہد کرنا ہوگا کہ وہ کسی بھی صورت میں فرقہ پرست طاقتوں کی تائید نہیں کریں گے۔ تیسرے محاذ کے اہم حصہ دار سماج وادی ، جنتادل یونائٹیڈ اور انا ڈی ایم کے، بی جے پی کے سابق حلیف ہیں۔ بیجو جنتا دل بھی این ڈی اے کا حصہ رہ چکی ہے ۔ترنمول کانگریس جو کبھی این ڈی اے میں شامل تھی ، آج فیڈرل فرنٹ کی کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہے۔

حالانکہ اس طرح کے کسی فرنٹ کا کوئی وجود نہیں۔سابق میں نیشنل فرنٹ اور یونائٹیڈ فرنٹ کو عوام نے اقتدار عطا کیا تھا لیکن وزارت عظمی کے دعویداروں کی کثرت نے ان محاذوں کو بکھیر دیا۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ انتخابات کے بعد یہ محاذ متحد رہے گا کیونکہ اس محاذ میں شریک کئی قائدین وزارت عظمی کے دعویدار ہیں۔ بی جے پی کا متبادل فراہم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو حال تک بھی بی جے پی کے ساتھ ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہے۔ جہاں تک بائیں بازو جماعتوں کا سوال ہے ، قومی سیاست میں ان کا وہ مقام اور اثر نہیں رہا جو کہ جیوتی باسو ، ہرکشن سنگھ سرجیت اور سومناتھ چٹرجی جیسے قائدین کے دور میں تھا۔ مغربی بنگال اور کیرالا میں اقتدار سے محرومی کے بعد بائیں بازو جماعتوں کا قد علاقائی جماعتوں کے مساوی دکھائی دے رہا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں محاذ تشکیل تو دے سکتی ہیں لیکن اسے برقرار رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مبصرین نے تیسرے محاذ کو کانگریس کی ’’بی ٹیم‘‘ قرار دیا ہے ۔ یہ بات طئے ہے کہ ہندوستانی قومی سیاست میں مخلوط حکومتوں کا دور آگے بھی جاری رہے گا۔ لہذا 2014 ء کے چناؤ کے بعد تشکیل حکومت میں علاقائی جماعتوں کے پاس توازن قوت ہوگا اور وہ بادشاہ گر کے موقف میں ہوں گے۔ پارٹیوں اور قائدین کے بدلتے رنگ پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
کیسے شفاف لباسوں میں نظر آتے ہیں
کون مانے گا یہ سب وہی کل والے ہیں