کیسے رکے گا ’لوجہاد‘۔

لوجہاد او رگاؤ رشکا جیسے من گھڑت اور نام نہاد معاملات کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں درجنوں بے قصور افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے اور اس کے خلاف ملک کے قومی ضمیر کے چیخ پڑنے کے بعد بھی قتل وخون کے اس سلسلے کو روکنے کے لئے ٹھوس کوشش نہیں کی جارہی ہے۔روز روشن کی طرح عیاں ثبوتوں کی موجودگی کے باوجود کہیں کسی کے خلاف کاروائی نہیں کی جارہی ہے جبکہ اس سے نمٹنے کے لئے قوانین کی کمی بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قدرسنگین معاملات کو آخر اتنا ہلکے میں کیوں لیاجارہا ہے کہ قیاتلوں کی ٹولیوں کے حوصلے کپیں سے پست نہیں ہوہارہے ہیں اور وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ خونخوار تر ہوتے جارہے ہیں۔ قصور واروں کو کیفرکردار تک پنچانا تو دور کی بات ‘ الٹے ان عناصر کو زہر اگلنے کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ان زہر افشانیوں کی وجہہ سے ہی آج سرزمین ہندوتان سے اس طرح خون ٹپک رہا ہے کہ کبھی کوئی بے ہنگم بھیڑ دادری میں اخلاق کے گھر میں گھس کر اس کا قتل کردیتی ہے تو کبھی راجستھان میں پہلو خان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیاجاتا ہے تو کبھی راجستھان میں ہی مغربی بنگا کے افرازالاسلام کوسفاکیوں کی بھیٹ چڑھادیاجاتا ہے۔وزیراعظم نریند رمودی نے چند ماہ قبل گاؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی پر ایک دوبارہ آنکھیں لال پیلی ضرور کیں لیکن گاؤ رکشوں کے سرپر سوار خون نہیں اترا۔مرکز نے ریاستوں کے بطور خاص ہدایت کی تھی کہ اس طرح کے واقعات کو وہ اپنی اولین ذمہ داری کے طور پرروکیں‘ لیکن اقدام بھی کوئی اثر نہیں دکھا سکا۔ اثر ہوبھی کیسے ؟ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف لوگوں کے ذہنوں کو اتنی بری طرح آلودہ بنادیاگیا ہے کہ لوجہاد اور گاؤ رکشہ کے ساتھ ساتھ اب ٹرینوں کے سفر میں مدرسہ مسجد کے لوگوں کو موت کے گھات اتارا جارہا ہے ۔

صرف ڈانٹنے ڈپٹنے ‘ برا بھلا کہنے یا ریاستوں کو ہدایت کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔اگر ایسا ہوسکتا تو خون ناحق کا سلسلہ کب کا رک چکا ہوتا۔ جو قوانین پہلے سے موجود ہیں‘ بس انہی پر عمل درآمد کردیجئے ۔یہ سلسلہ رکے بھی تو آخر کیسے رکے جب خود قانون ساز اداروں کے ارکان قانون توڑنے پر ورغلانے کی باتیں کرتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں اور ذمہ داران کی جانب سے ماحول میں زہر گھولنے کی ان گنت مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کم ازکم دومثالیں تو بلکل سامنے کی ہیں۔اس ڈسمبر کے آخری ہفتے میں کلکتہ میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار نے اپنی تنظیم کے پروگرام میں مبینہ طور پر کہاکہ ’’ جولوگ ’ لوجہاد‘ میں ملوث پائیں جائیں گے ان کا یہی انجام ہوگا‘‘۔موصوف راجستھان میں افرازالاسلام کے قتل کے سلسلے میں بول رہے تھے۔

اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ قتل پر افسوس مذمت کرنے کے بجائے اس طرح کی باتیں کی جائیں گے تو یہ سلسلہ بھلا کہاں سے رکے گا۔اندریش کمار نے لگے ہاتھوں دور کی کوڑی لاتے ہوئے ایک اہم بات بتائی کہ لوجہاد راصل اس کے لئے ہوتا کہ کانگریس اور دوسری پارٹیاں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی مذہبی خوشامد میں لگی رہتی ہیں۔

انہو ں نے کہاکہ آج کونسی ریاست لوجہاد کے واقعات سے خالی ہے؟۔کیایہ کیرالا میں نہیں ہورہا ہے؟بنگال میں نہیں ہورہا ہے؟آڑیسہ میں نہیں ہورہا ہے؟ہرجگہ ایک ہی جیسی صورتحال ہے۔بنیادی مسئلہ دھرم او رذات کے نام پر بنیادپرستی کو ہوا دینا ہے۔

جہاں تک تشدد کی بات ہے تو اس پر قابو پانا ہر ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ انہوں نے تبدیلی مذہب پر بھی بات کی او رکہاکہ یہ ایسی چیز ہے کہ اس کی وجہہ سے خو دبخودنفرت پیدا ہوتی ہے او راسی نفرت کی کوکھ سے تشدد جنم لیتا ہے ۔ تبدیلی مذہب کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جب تبدیلی مذہب کا واقعہ ہوگاہی نہیں تو منافرت ‘ اشتعال اور تشدد کہا ں سے پیدا ہوں گے۔

ڈسمبر23کو راجستھان میں ایک پرتشدد بھیڑ کے ذریعہ مشتبہ گائے اسمگلر ذاکر خان کوپیٹ پیٹ کر مارڈالنے کی کوشش پر حکمراں جماعت بی جے پی کے ایم ایل اے گیان ویوآہوجہ نے مبینہ طور پر کہاکہ ’ ’میر تو سیدھا سادھا کہناہے گاؤ تسکری او گاؤ کشی کروگے تو یونہی مروگے‘‘۔

یہ وہی آہوجہ جی ہیں جو اپنے متنازع بیانات کی وجہہ سے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اس آدمی کو لوگوں نے بلکل مارا پیٹا نہیں بلکہ اس پر تو ٹرک پلٹ گیاتھا جس کے نیچے دب کر وہ زخمی ہوگیا ۔ آج اگر گاؤ رکشہ کے نام پر قتل وخون کے سب سے زیادہ واقعات راجستھان میں ہی ہورہے ہیں تو اس کی وجہہ کیاہوسکتی ہے اس ھر کسی تبصرہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ آگے چاہئے جو بھی لیکن ہمارا تو یہی مطالبہ ہے کہ صرف راجستھان ہی نہیں بلکہ پورے ملک او رساری دنیامیں خون ناحق کا سلسلہ فوراً سے پیشتر رکنا چاہئے۔