نفیسہ خان
وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے بصد عقیدت میرے سامنے کھڑا تھا اور میں اپنے ذہن پر بار دے کر سوچنے کی کوشش کررہی تھی کہ یہ شخص کون ہے؟ میرے چہرے کے تاثرات شاید اس سے مخفی نہ تھے ، میرے تذبذب کو بھانپ کر وہ بے چین ہوگیا ۔ اپنے سینے پر ہاتھ مار مار کر وہ اپنی شناخت بتانے کی کوشش کرنے لگا ۔ ’’اماں گارو ۔ نے نو آل رائٹ نی ۔ نینو اماں گارو آل رائٹ ۔ آل رائٹ‘‘ ۔ تیس سال کا طویل عرصہ ایک کانچ کی دیوار کی طرح چھن سے ٹوٹ گیا اور ایک بارہ تیرہ سال کا غریب مسکین مظلوم دلت لڑکا یادوں کے غبارے سے باہر نکل آیا ، ناگرجنا ساگر ڈیم کی تعمیر کے دوران اس جیسے سینکڑوں لڑکے تپتی دھوپ میں ڈیم کی اونچائی تک پہونچنے کے لئے بانس و بمبو سے بنائی گئیں بے شمار اونچی سیڑھیوں پر پانی کے گھڑے لیکر ہانپتے مزدوروں کو پانی پلایا کرتے تھے اور ’’واٹر بوائے‘‘ کہلاتے تھے ۔ یہی لڑکے آفیسروں کے گھروں پر آکر ایک لمبے سے بمبو میں سب کے توشے دان لٹکاکر دو طرف دو لڑکے پکڑے کھڈبگڑے راستوں پر بھاگتے ہوئے نظر آتے تھے ۔ کیونکہ ڈیم کا کام شباب پر تھا اور رات دن چلتا رہتا تھا ۔ آفیسرس اس قدر ایمانداری سے کام کرتے تھے کہ انہیں اکثر گھر آکر کھانا کھانے کی فرصت تک نہ ہوتی تھی ، ایسے ہی دو لڑکے آل رائٹ اور ناگیشور راؤ اپنی ڈیوٹی ختم کرکے ہمارے گھر آجایا کرتے تھے ، کیونکہ لیبر کالونی میں آٹھ گھروں کے درمیان ایک نل ہوا کرتا تھا ، پانی کا حصول ان کے لئے بہت مشکل تھا اور اتنے غریب تھے کہ صابن خریدنا بھی ان کیلئے مشکل تھا اس لئے ڈیوٹی سے اترتے ہی ہمارے گھر آجاتے ، جی بھر کر نہالیتے ، کپڑے دھولیتے کیونکہ اگر وہ صاف ستھرے نہ ہوتے تو لوگ اپنے توشہ دان ان کے حوالے نہ کرتے ، اسکی وجہ سے آفیسرس کے کھانے کے بعد بچا کھچا کھانا انہیں نہ ملتا ،جو اُن کے لئے نعمت سے کم نہ تھا ۔ یہ دونوں بچے میرے پاس بھی اسلئے آجاتے کہ پیٹ بھر اچھا کھانا ، تن بھر کپڑا اور اوڑھنے بچھانے کیلئے استعمال شدہ ہی سہی شطرنجی و بیڈشیٹ ضرور مل جاتی تھی ۔ ہمارے گھر کا جملہ کام ، بازار سے سودا سلف لانا ، پودوں کو پانی دینا ، ان کی ذمہ داری تھی ، خاکی نیکر و شرٹ میں سردی ، گرمی ، برسات ہر موسم ان پر سے گذر جاتا تھا ، اس زمانے میں چھوت چھات تھی ، عورتیں اپنے توشے دانوں کو انہیں ہاتھ لگانے نہ دیتیں بلکہ ان کے کندھوں پر ٹکے بمبو میں خود لٹکادیتیں جبکہ میں صاحب کا توشہ دان ان کے ہاتھ میں دے دیا کرتی تھی ، وہ شروع میں بار بار مجھے جتلاتے کہ وہ اچھوت ہیں ، شودر ہیں اور میں ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہتی کہ میں اس بھید بھاؤ کو نہیں مانتی ۔ شاید اسی لئے زیادہ تر ہمارے گھر ہی میں رہتے ، کبھی آپس میں لڑتے جھگڑتے تو کبھی ہمارے صاحب کے قدیم خادم جس کا نام ’’چھوٹو‘‘ تھا پر وہ تھے ساٹھ سال کے اور باورچی خانہ وہی سنبھالتے تھے ۔ یہ دونوں لڑکے اس سے چھیڑ خانی کرتے اور مار کھاتے تھے ۔ دونوں لڑکوں کے خاندان والوں نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا ۔ ناگیشور راؤ نے تو اپنا نام نہیں بدلا تھا کہ کہیں ناگ دیوتا اس سے ناراض نہ ہوجائیں اور اسے ڈس نہ لیں ۔ یوں بھی ساگر میں ہر گھر میں کثرت سے سانپ تب بھی نکلتے تھے ، اب بھی نکلتے ہیں ۔ لیکن فادر نے اس لڑکے کا نام جانے کیوں ’’آل رائٹ‘‘ رکھ دیا تھا پر کوئی اس نام کا مذاق اڑاتا خصوصاً بچے اور وہ کسی کونے میں چھپ کر رونے بیٹھ جاتا اور میں سمجھا بجھا کر کھانا کھلا کر اسے گھر بھیج دیا کرتی تھی ۔ برسوں وہ ہمارے پاس کام کرتے رہے اور پھر مزدوروں کی تخفیف شروع ہوئی تو یوں ساگر سے غائب ہوئے کہ تیس سال کا عرصہ گذر گیا اور جب وہ آیا تو اس کے حلیہ کودیکھ کر ایسا اندازہ ہوتا تھا کہ آندھرا کے کسی گاؤں کا کوئی کھاتا پیتا کاشتکار ہے ۔ سفید کھدر کی دھوتی ، لمبا سا بے داغ کرتا ، سیدھے کاندھے پر پڑا رنگین توال ، پیر میں چمڑے کا پالش سے جگمگاتی چپل ، تیل میں چپڑے بالوں کی سیدھی مانگ نکلی ہوئی تھی ، ہاتھ میں ایک بڑی منی تھیلی تھی اس نے آگے بڑھ کر قدمبوسی کی ، بالکل ایسے جیسے اکثر مندروں میں پیٹ کے بل اوندھے لیٹ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر آگے کی طرف بڑھادیتے ہیں ۔ میری آنکھیں چھلک آئیں آل رائٹ کے بھی آنسو رواں تھے ۔ اس نے تھیلی میرے قدموں میں رکھ دی کہ اس کے کھیتوں میں اگنے والی مونگ پھلی ، ہلدی اور کچھ ترکاریاں اس میں تھیں ، میں نے اسے بیٹھنے کیلئے کہا تو وہ فرش پر میرے قدموں میں بیٹھنا چاہتا تھا ، بڑی مشکل سے میں نے اسے کرسی پر بٹھایا ، اس نے اپنی سخت محنت کی داستان سنائی کہ کس طرح اس نے آندھرا کے چھوٹے سے دیہات سے گائے ، بیل ، بھینس کے چمڑوں کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا ۔ کھیڑے ، گاؤں ، قصبات سے چمڑے خرید کر بڑے شہروں کے بڑے بازاروں تک لیجا کر چمڑے بیچنا اس کا پیشہ ہے اور ان کا پورا خاندان اسی کاروبار میں بہت کچھ کمارہا ہے ۔ اس نے اپنی اس آمدنی سے دو ایکڑ زمین خریدلی ہے ۔ اس کی بیوی ، بچے سب مل کر کھیتی باڑی ، گائے ، بھینس ، بکریاں پالنے کا کام کرتے ہیں ۔ دودھ کے بیوپار سے الگ آمدنی ہوتی ہے ۔ میں نے اس دوسرے لڑکے ناگیشور کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تھلی میں سے ایک پیکٹ نکال کر دیا کہ ناگیشور نے میرے لئے بھیجا ہے ۔ میں نے پیکٹ کھول کر دیکھا تو اس میں سیاہ چمکدار جگنو کی طرح جھلملاتے دو کافی بڑے پتھر نکل آئے ۔ آل رائٹ نے بتایا کہ وہ کوئلے و لوہے کی کان میں کام کرتا ہے ۔ زمین میں دفن اس خزانے کے چند ٹکڑے اس نے بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ میں اس سے زیادہ اماں گارو کیلئے اور کیا بھیج سکتا ہوں ۔ یہی پتھر اماں گارو کو میری یاد دلاتے رہیں گے‘‘ ۔ سچ مچ میں نے خام لوہے کی یہ شکل کبھی دیکھی نہ تھی ۔ ان دو لڑکوں اور خصوصاً آل رائٹ کو ہمارے خاندان کا کوئی فرد خواہ بوڑھا ہو کہ جوان آج تک بھول نہیں پایا ہے ۔ ایک بار آل رائٹ کو ایک کتّے نے بری طرح بھنبھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ جسم پر کئی ٹانکے لگے تھے ۔ ہم نے حتی الامکان اس کا علاج کروایا ، اس کی تیمارداری کی تھی وہ کہتا ہے کہ زخم تو کبھی کے مندمل ہوگئے ، لیکن نشان آج تک باقی ہے جو آج بھی اسے ہم دونوں کی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتے ۔ ہمارے ساگر والوں کی وہ محبتیں ، وہ خلوص آفیسرس کا ہو یا غریب مزدوروں کا ، پڑوسیوں کا ہو کہ نوکروں کا آج تک قائم ہے ، نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ماضی کے اٹوٹ رشتے آج بھی اپنے بندھن توڑ نہیں پائے ہیں ۔ نہ مذہب آڑے آتا تھا ، نہ معاشی حیثیت کوئی معنی رکھتی تھی ، نہ بات چیت سے نہ اپنے رویے سے نہ اپنے عمل سے دوسروں کی دل شکنی کا تصور تھا اور آج زبان تلخ و ترش گوئی پر مائل ہے ، سیاسی لیڈروں کی تو بات ہی چھوڑیئے ، اشتعال انگیز تقاریر ان کا شیوہ ہے ۔ اور ہم ان سے التجا کرتے ہیں کہ ؎
اب زباں سے نہ آگ برساؤ
شہر پہلے ہی جل چکا ہے بہت
آپسی خلوص ، محبت قائم رہے تو کیونکر جب کہ عام رعایا بھی ایک دوسرے پر تیر چلانے سے باز نہیں آتی ۔ دوسروں کے جذبات ، احساسات کا خیال تک نہیں ، دوسروں کو تکلیف پہونچا کر جانے ہم اپنے جس جذبے کی تسکین کرتے ہیں ؎
لفظوں کے تیر تم نے ہواؤں میں چھوڑ کر
کس کو لگا ہے زخم کہاں ، دیکھتے رہے
اب تو مذہب کی بنیاد پر محلوں و کالونیوں کی تنظیم جدید ہورہی ہے ۔ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔ ایک اللہ کو ماننے والے کئی فرقوں و مسلکوں میں بٹ گئے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں ۔ قرآنی تعلیمات سے دور اپنی علحدہ مساجد ، اپنے الگ عیدگاہوں میں نمازوں کی ادائیگی عمل میں آرہی ہے ۔ کلمہ گو ہو کر بھی ہمارے مسلک ، عقیدے کو برتر ماننے والے آپسی فاصلے بڑھارہے ہیں ۔ انہیں پاٹنے یا سرے سے ختم کرنے کے ہم قائل نہیں تو پھر غیر مسلم آپ کے ہمنوا و ہمقدم کیسے ہوسکتے ہیں ۔ دلوں میں کدورت پالے بیٹھے ہیں ، ہم ہماری غلطیوں کی نشاندہی پر چراغ پا ہوجاتے ہیں ؎
تم جو ناخوش ہو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فرازؔ
لوگ رہتے ہیں اسی شہر دل آزار کے بیچ
پچھلے سال کی بات ہے بقرعید کی رات میرے بہت ہی قریبی رشتے دار کا اچانک انتقال ہوگیا ، جب ہم صبح شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں براہ چنچل گوڑہ جیل داخل ہوئے کہ ہمیں مرحوم کے مکان فلک نما پہنچنا تھا ۔ یہ فاصلہ طے کرنے کیلئے ہمیں بیشمار محلوں سے گذرنا پڑا اور ہم نے وہاں جو منظر دیکھا شاید وہاں کے مکین اسکے عادی ہوں ، لیکن ہمارے لئے بے انتہا حیران کن اور تکلیف دہ اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے قابل شرمندگی و ندامت تھا ۔ ہر سڑک ، ہر راستے ، ہر گلی میں بڑے جانوروں کی ہڈیوں بلکہ پورے ڈھانچوں کا انبار لگا ہوا تھا ۔ ان کے پیٹ کی آلائش اس پر بھنبھناتی مکھیاں ، آپس میں ایکدوسرے پر غراتے کتّے ، کہیں خنزیر منہ مارتے نظر آئے ۔ کئی گھروں کے دروازوں و پھاٹکوں سے تازہ خون کی دھاریں بہہ کر باہر سڑک تک آرہی تھیں ، اس غلاظت سے ہٹ کر سڑک کی دونوں جانب چمڑے خریدنے والے چمڑوں کے ڈھیر لگائے بیٹھے تھے اور کچھ غریب مرد و عورتیں گیاس کے چولھے لگائے سرے ، پائے بھون رہے تھے ۔ ساری فضا جلتے ہوئے بالوں و گوشت کی بدبو سے تعفن پھیلارہی تھی ، یوں بھی اچانک موت کے سانحے نے رات بھر بیدار و اشکبار رکھا تھا اور اب جو ہر محلے کا یہ حال دیکھا تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب آنسو بہائیں تو کس کے لئے ؟ زیر اقتدار حکومت پر ، محکمہ بلدیہ پر ، عہدیداروں پر ، خاک روبوں پر ، اہل محلہ پر ، یا خود اپنے آپ پر کہ ؎
نہ بولنے کی مناہی نہ کوئی دشواری
زباں سبھی کو میسر ہے اور سب چپ ہیں
جن جانوروں کی قربانی آپ پر واجب ہے کیا یہ بھی آپ پر لازم ہے کہ قربانی سے پہلے یا بعد میں اس کی نمائش بھی کی جائے ۔ ہم دوسروں کے احساسات کو سرے سے فراموش کردیتے ہیں ۔ ان کی دل آزاری کرتے ہیں ، جس طرح ہم اپنے ذاتی اخراجات پر ان جانوروں کو اپنی چوکھٹ پر لاتے ہیں ، کیا ویسے ہی ان کی ہڈیاں ان کی آلائش دور پھینکنے کا ہم انتظام نہیں کرسکتے ، کیا ان جانوروں کے باقیات اپنے محلوں میں سڑنے کیلئے اسی طرح چھوڑدیں کہ یہ محکمہ بلدیہ کی ذمہ داری ہے ۔ گندگی ، بدبو محلے میں پھیل رہی ہے ، بیماریوں کے شکار اہل محلہ ہورہے ہیں تو ہمارے بھی تو کچھ اصول ہیں ، اتنی بدبو ، اتنا تعفن ہم پھیلاتے ہیں اور مورد الزام دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔
اب حیدرآباد میں بیشتر لوگ خواہ کسی بھی مذہب ، عقیدے و مسلک کے کیوں نہ ہوں ، یہ طریقہ بلکہ وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں کہ ہر مذہبی جلوس ، تہوار ، عید ، شب برات کے بعد بچا ہوا کھانا ، پترولیاں ، use & throw، diposal گلاس ، رکابیاں پھول پتے ، جھنڈیوں کا انبار اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔ اب تو یہ چلن چل پڑا ہے کہ برائے ایصال ثواب یا بھگوان کی خوشنودی کیلئے سڑکوں پر ہی دیگیں چڑھا کر سڑکوں ہی پر تناول عام کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ خوشی ، غم و سیاسی جلسوں کیلئے راستے روک کر شامیانے لگادیئے جاتے ہیں ، اس طرح حیدرآباد کی بے ہنگم ٹریفک کو مزید ابتر کردیا جاتا ہے ۔
ہم کرشنا ندی اور ناگرجنا ساگر ڈیم کے وسیع و عریض ذخیرہ آب (Reservior) کے کنارے رہتے ہیں ، پانی پیتے ہیں ، یہی برتتے ہیں اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔ ہر بارہ سال میں ایک ندی کا ’’پشکرم‘‘ کے نام سے مذہبی عقائد پر منحصر دس دن کا پروگرام ہوتا ہے جس میں ہندو لوگ کرشنا ندی کے پانی میں ڈبکیاں لگا کر اشنان کرکے پوجا پاٹ کرنے کے بعد اپنے مرحومین کی نجات کے لئے پھل پھول ، ناریل اور پوجا کیلئے دوکار جملہ سامان اور خصوصاً ’’پنڈاکوڈو‘‘ (چاول دالوں سے بنائے گئے موسمبی کے سائز کے لڈو بنا کر برہمن پجاری کے ساتھ بیٹھ کر پوجا کرتے ہیں اور بصد عقیدت و احترام ، یہ سب پانی میں بہادیتے ہیں یا انتظار کرتے ہیں کہ کوّے اسے کھائیں جو ان کیلئے باعث نوید ہوتا ہے ۔ اس پشکرم کیلئے خواہ گوداوری ہو کرشنا ہو کہ کوئی اور ندی حکومت کروڑپا روپے صفائی ستھرائی ، سڑکوں کی عارضی مرمت اشنان گھاٹ بنانے میں صرف کرتی ہے ۔ گتّے داروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ، لیکن نہ تو عارضی باتھ روم کا انتظام ہوتا ہے نہ رفع حاجت کے لئے علحدہ مقام مقرر کیا جاتا ہے ، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ندی کے کنارے ہی لوگ نہ صرف پوجا پاٹ سے بلکہ تمام ضروریات سے بھی فارغ ہوتے رہتے ہیں ۔ ہمارے شومئی قسمت کہ پچھلے پشکرم میں یہاں کا فلٹر ہاؤس بھی غیر کارکرد تھا اب آپ ہی سوچئے دس دن تک ہزاروں لوگوں کے نہانے دھونے اور تمام چیزیں ذخیرہ آب میں بہانے سے وہی پانی پینے اور برتنے کیلئے ہمیں کس کراہیت ، کن کن مرحلوں و مشکلات سے گذرنا پڑا ہوگا لیکن بات عقائد و مذہبوں کی ہے تو کوئی بھی سچ اگلنے سے کتراتا ہے ۔ حکومت ، قانون ، پولیس ، اہل محلہ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ کہو تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے ، سچ پوچھئے تو ؎
یہ جلسے ایکتا کے عید و دیوالی ، ملن کے
سیاسی شعبدہ کاری نہیں تو اور کیا ہے
قوانین وطن کا روندنا پامال کردینا
وطن سے اپنی غداری نہیں تو اور کیا ہے
بڑے جانور کا گوشت مسلمانوں سے بڑھ کر معاشی طور پر پسماندہ دلت ، ہندو ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی کھاتے ہیں ۔ ہندوستان سے باہر بھیجا جاتا ہے ۔ اس میں کروڑوں کا فائدہ اٹھانے والے مگر مسلمان نہیں ۔ بڑی بڑی Tanning companies اور چمڑوں کی اشیاء بنانے والی کمپنیاں بھی مسلمانوں کی نہیں ، لیکن جہاں اس گوشت کی بات آتی ہے مسلمان بھڑکنے اور بیان بازی پر اتر آتے ہیں ۔ اپنی معاشی پسماندگی اور بدحالی کو داؤ پر لگا رہے ہیں ۔ پہلے ہی ہم مسلمانوں کے درمیان اتحاد نہیں ایک دوسرے کی کاٹ میں رہتے ہیں اور ہمارا حال یوں ہے کہ ؎
متحد ہوتے اگر دنیا ہمارے بس میں تھی
منشتر ہو کے تو ہم ٹوٹی ہوئی زنجیر ہیں
اور اس ٹوٹی ہوئی زنجیر کا ہر حلقہ اپنے پر نازاں فرحاں ہے بلکہ خنداں بھی ہے ۔ یہ نہیں کہ ہم دین وایمان پر قائم رہتے ہوئے اپنے عید و تہوار ، سادگی صفائی سے منائیں کہ ’’پاکی آدھا ایمان ہے‘‘ لیکن یہاں ہم گندگی پھیلارہے ہیں ، اپنی زبان ، اپنے افعال سے فضا کو مکدر کررہے ہیں ۔ ذہن بھی پاکیزہ خیالات کی آماجگاہ ہو کہ اس میں نفرت کے بیچ نہ بودیں ، دوسرے مذاہب کا وہ بھی احترام کریں اور ہم بھی مل جل کر رہیں ورنہ فسادات بھڑکنے میں کتنی دیر لگتی ہے ، جبکہ دشمن ہماری تاک میں ہیں ۔ بے قصور لوگ خوف کے سائے میں جیتے ہیں کہ ؎
نظر میں ہے جلتے مکانوں کا منظر
چمکتے ہیں جگنو تو دل کانپتا ہے
فسادات ہر ایک کیلئے نقصان دہ ہیں تو کیوں نا فضا و ماحول کو سازگار بنایا جائے جہاں سب مل جل کر رہیں ناکہ ؎
یہ فسادات یہ مذہب کے بھیانک جھگڑے
کیسا ماحول ہے ہم لوگ کہاں رہتے ہیں