ظفر آغا
دنیا بھر میں مسلمانوں کے معاملات کچھ ایسے نہیں جن سے کسی شخص کو راحت ملے ۔ جدھر دیکھئے مسلمان بدحالی اور بے بسی کاشکار ہیں ۔ کہنے کو یہ حالت اس لئے ہوئی کہ امریکہ اور یہودی لابی نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک سازش رچی ہوئی ہے ،لیکن کوئی اگر یہ سوال کرے کہ پشاور میں جن مسلمانوں نے جہاد کے نام پر معصوم اسکولی بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا کیا وہ مسلمان بھی امریکہ اور یہودیوں کے بھیجے ہوئے تھے ؟۔ تو ہم مسلمانو ںکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کسی بھی قوم کا عروج و زوال خود اس قوم کا اندرونی و آپسی معاملہ ہوتا ہے ۔ کسی قوم کے خلاف کوئی سازش تب ہی کامیاب ہوپاتی ہے جب اس قوم کا یہ احساس ختم ہوجائے کہ اس کے لئے کیا اچھا اور کیا برا ہے ۔ مسلمانوں کا عالم یہ ہے کہ اب انھیں یہ احساس نہیں ہے کہ ان کے حق میں کیا اچھا ہے اور کیا نہیں ہے ، تب ہی تو یہ عالم ہے کہ جہاد کے نام پر مسلمان خود مسلمان کا خون بہارہا ہے اور پھر بھی اس کو ہوش نہیں آتا کہ وہ اپنے حق میں سوچے۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں اگر کہیں کوئی امید کی کرن نظر آجائے تو یقیناً دل خوشی سے جھوم اٹھے گا ۔ چنانچہ راقم الحروف کے ساتھ پچھلے ہفتے کچھ یوں ہی ہوا ۔ میں ایک پروگرام کے سلسلہ میں کیرالا گیا ہوا تھا جہاں کیرالا کی ایک مسلم تنظیم نے ایک تعلیمی کانفرنس کے سلسلے میں مجھے مدعو کیا تھا ۔ اس تنظیم نے تعلیمی میدان میں ساٹھ برس پورے کئے ہیں اور اب وہ ڈگری کالج سے لے کر کئی اسکول بھی چلا رہے ہیں ۔ اور ان تمام تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ انہوں نے ابھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب ایک پورے تعلیمی ویلیج کا قیام کریں گے جو کئی ایکڑ پر پھیلا ہوگا ۔ اس جگہ پر وہ طرح طرح کے جدید تعلیمی ادارے قائم کریں گے ۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی بدترین صورت حال کے درمیان اس قسم کی کوئی بھی اسکیم دیکھ کر دل تو خوش ہوگا ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ کیرالا میں اس قسم کی ایک ہی تنظیم نہیں بلکہ درجنوں تنظیمیں ہیں جو کیرالا کے مسلمانوں کے لئے تعلیمی میدان میں سرگرم ہیں اور یہی سبب ہے کہ کیرالا کا مسلمان دوسرے علاقوں کے باقی مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے ۔ کیرالا میں نہ تو فساد کا ذکر ہے اور نہ ہی وہاں مسلمان محتاج ہیں ، بلکہ تقریباً پچھلے دس برس سے کیرالا کی حکومت صرف وہاں کی مسلم لیگ کی حمایت سے چل رہی ہے بلکہ وہاں پانچ مسلم وزراء ہیں جو بہت اہم وزارتوں پر فائز ہیں اور جس کے سبب کیرالا کے مسلمان اقتدار میں باقاعدہ حصہ دار ہیں ۔
یہ صورتحال پورے ہندوستان میں کہیں اور مسلمانوں کی نہیں ہے ۔ محض ایک کیرالا ہے پورے ہندوستان میں ، جہاں مسلمان ترقی بھی کررہا ہے اور اقتدار میں بھی شریک ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں درجنوں مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے لئے یونیورسٹی سے لے کر طرح طرح کے کالج اور اسکول قائم کررہی ہیں ۔ جہاں سے مسلم طلبہ پڑھ لکھ کر نکل رہے ہیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کررہے ہیں ۔ اس کے برخلاف جدھر نگاہ ڈالئے مسلمان گہری نیند میں ہیں ۔ ہر طرف یہ رونا تو ہے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ، لیکن کہیں کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی ہے ۔ اگر کہیں کوئی بحث کا موضوع ہوتا بھی ہے تو وہ یہ کہ مسلمان اپنے دین سے ہٹ گئے ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کی یہ صورتحال ہے ۔ ارے بھائی ! جہاں اسلام کے نام پر حکومتیں چل رہی ہیں وہاں کے مسلمانوں کا کیا حال ہے ۔ ذرا پاکستان پر نگاہ ڈالئے جو ملک اسلام کے نام پر چل رہا ہے وہاں کے مسلمانوں کا کیا حال ہے ؟ ۔ یہ وہی پاکستان ہے جہاں مرحوم ضیاء الحق نے نظام مصطفی قائم کیا اور چوروں کے ہاتھ قلم کئے اور مجرموں کو کوڑے لگائے ۔ اسی پاکستان میں اب مذہب کے نام پر دہشت کا راج ہے ۔ جہاد کے نام پر وہ دیوانگی ہے کہ مسلمان خود مسلمان معصوم بچوں کو گولی کا نشانہ بنارہے ہیں ۔ پاکستان میں آج ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جہاں سے پڑھ کر لوگ فخر کریں ۔ ان کے یہاں صحت کے نظام کا یہ عالم ہے کہ پاکستانی اچھے علاج کے لئے اب ہندوستان آرہے ہیں ۔ الغرض دین کے نام پر چلنے والا پاکستان کسی کام کا نہیں ہے ۔
چنانچہ یہ دلیل کہ مسلمان اپنے مذہب سے دور ہوگیا ہے اس وجہ سے پسماندگی کا شکار ہے ، یہ غلط ہے ۔ مسلمانوں کو اس فکر سے الگ ہو کر اپنے مسائل کا حل دور جدید کے تقاضوں کے پس منظر میں تلاش کرنا ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اب ہمارے لئے مدارس اور دینی علماء کی قیادت ناکافی ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں سے پیدا ہونے والی قیادت کی طرز فکر مدرسوں تک محدود ہے جو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہی نہیں ہے ۔ اس لئے کسی بھی مسئلہ پر یہ قیادت ایک جذباتی ردعمل کے ساتھ مسلمانوں میں جوش و ولولہ تو پیدا کردیتی ہے ، لیکن مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہے ، بلکہ اکثر جذباتی ردعمل مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ، یعنی مسلمانوں کی روایتی قیادت اب نہ صرف ناکام ہے بلکہ نقصان دہ ہوتی جارہی ہے ۔
پچھلی دو دہائیوں میں مسلمانوں میں ایک اور طرز فکر پیدا ہوا ہے ۔ وہ طرز فکر یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں انکی اپنی سیاسی جماعت ہوگی تو مسلمان ترقی کریں گے ۔ کچھ ریاستوں مثلاً تلنگانہ میں اس قسم کے تجربے بھی ہورہے ہیں مگر اکثر جگہوں پر اس تجربہ سے مسلمانوں کونقصان ہی پہونچا ہے مثلاً حال ہی میں تلنگانہ ریاست کے تجربہ کو جب مہاراشٹرا میں استعمال کیا گیا تو وہاں دو مسلم ایم ایل اے تو اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن کم از کم پندرہ بیس اسمبلی حلقوں میں جذباتی مسلم کیمپئن کے سبب بی جے پی کو فائدہ ہوا ۔ اب اسی تجربہ کو مغربی بنگال ، اترپردیش اور بہار جیسی کثیر مسلم آبادی والی ریاستوں میں دہرانے کی تیاری ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہندو ردعمل ہوگا اور ہر جگہ اس تجربے سے صرف بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا ۔ یعنی خالص مسلم پارٹی کا تجربہ بھی مسلمانوں کے لئے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہے ۔ اس لئے ایسی قیادت سے بھی ہوشیار رہنے کی سخت ضرورت ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میں آخر مسلمان کریںتو کیا کریں ؟ کسی بھی ملک میں اقلیت کا مسئلہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے ۔ اسکا حل سہل نہیں ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں بھی مسلم اقلیت کا مسئلہ آج سے نہیں بلکہ جنگ آزادی کے وقت سے انتہائی پیچیدہ رہا ہے ۔ جنگ آزادی کے وقت بھی مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے اپنی الگ پارٹی بنا کرجو تجربہ کیا اس نے ملک کا بٹوارہ کیا ۔ ہندوستانی مسلمان اس کے بعد کہیں کا نہیں رہا ۔اسی طرح اب جو مسلم پارٹی کا خواب ہے وہ اگر تیزی سے پورا کرنے کی کوشش ہوئی تو پھر مسلمان کہیں کا نہیں رہے گا ۔ یعنی ہندوستان کی موجودہ سماجی صورت حال کے پیش نظر مسلمانوں کے لئے اولین مرحلے میں سیاسی طور پر بااختیار بنانا ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے اس کو پہلے اپنے سماجی حالات پر دھیان دینا ہوگا یعنی مسلمانوں کو سب سے پہلے ایک سماجی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ جدید طرز فکر رکھتی ہو ۔ یہ قیادت مسلمانوں میں محض تعلیمی بیداری ہی نہیں بلکہ جدید طرز فکر پیدا کرنے کی اہل ہونی چاہئے ۔
جدید فکر سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں ایسی فکر پیدا کرے جس سے وہ دور جدید کے تمام میدانوں میں ترقی کرسکیں ۔ یعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ تجارت ، ہنر ، سیاست اور اپنے دیگر مسائل کے بارے میں خود بہتر فیصلہ کرسکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی قیادت کو مختلف شعبہ زندگی میں مسلمانوں کے لئے جدید ادارہ سازی کرنی ہوگی ۔ مثلاً اکیسویں صدی میں بھی پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا اپنا ایک بینک تک نہیں ہے ۔ کیا ایسی قوم اس دور میں تجارت کے میدان میں ترقی کرسکتی ہے ۔ ہم بینک اکاونٹ تو کھولتے ہیں لیکن بینک کھولنے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ آخر یہ کون سی فکر ہے ۔ یعنی ہم کو اس فکر سے باہر نکلنا ہوگا جو مذہب کے نام پر مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں بے جا رکاوٹیں پیدا کرتی ہے ۔ اگر ہم ایسی جدید فکر پیدا کریں تو کیرالا کے مسلمانوں کی طرح جگہ جگہ مسلم ’’تعلیمی ویلیج‘‘ بناسکیں گے ۔ یہاں سے نکل کر مسلمان ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا ۔ اس لئے کیرالا سے سبق لے کر مسلمانوں کو ہر ریاست میں اپنی ترقی کی راہیں تلاش کرنی ہوں گی تب ہی ہمارے خلاف کوئی سازش ناکام ہوسکتی ہے ۔