غضنفر علی خاں
ایک ہنگامہ بپا تھا۔ کیرالا کی ایک ہندو لڑکی نے ’’اسلام‘‘ قبول کرکے مسلم نوجوان ’’شفین جہاں‘‘ سے شادی کرلی۔ ہندوتوا کے حامیوں کے تن بدن میں گویا آگ لگ گئی۔ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے لیکن 25 سالہ یہ لڑکی جس کا اسلامی نام ’’ہادیہ‘‘ رکھا گیا، ثابت قدم رہی۔ 27 نومبر 2017ء کو ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں مقدمہ کی سماعت ہوئی۔ یہ ایک سہ رکنی بینچ تھی جس کی صدارت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مشرا کررہے تھے۔ تینوں ججوں نے تقریباً آدھا گھنٹہ ہادیہ سے سوالات کئے۔ ہادیہ نے کہا کہ ’’اس نے اسلام کسی جبر و اِکراہ کے بغیر اپنی مرضی سے قبول کیا ہے، اس کو قبول اسلام کے لئے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ اس سلسلے میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ ہادیہ نے یہ بھی معزز ججوں سے کہا کہ میں آزاد اور خود مختار زندگی ایک اچھے شہری کی حیثیت سے گذارنا چاہتی ہوں اور اپنے مذہبی عقیدہ پر قائم رہنا چاہتی ہوں۔ یہ تو ہوئی سپریم کورٹ کی بات، اس سے پہلے ہادیہ کے والد نے شفین جہاں نامی مسلم لڑکے سے اس کی شادی کو زبردست کرائی جانے والی شادی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کیرالا ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا اور کیرالا ہائیکورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ چونکہ ہادیہ کی شادی میں جبر اور اسلام قبول کرنے کے لئے ترغیبات کا عنصر ہے۔ اس لئے ہادیہ کو اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنے دیا جانا چاہئے چنانچہ ہادیہ کو ان کے والد کے گھر پر ہی رہنے کا حکم صادر کیا۔ فرقہ پرست بغلیں بجانے لگے لیکن ہادیہ نے اپنے شوہر کے ساتھ اور اپنے عقیدہ پر قائم رہنے کے لئے سخت موقف اختیار کیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ میں مقدمہ ہوا۔ ہادیہ کا یہ کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اس کو گزشتہ 11 ماہ سے اپنے والد کے گھر میں رکھا گیا جہاں اس کو کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ ایک لحاظ سے قید ِ تنہائی‘‘ (Solitary Confinement) کی شکار بنائی گئی۔ اس کی شادی کی مخالفت کرنے والوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ ہادیہ قانون اور دستور کی نظر میں عاقل و بالغ ہے، اس کو اپنی زندگی کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے اور دستور کی دفعہ 26 کے مطابق ملک کے کسی بھی شہری کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ مخالفین ایک آواز ہوکر ’’لو جہاد‘‘ کی بات کرنے لگے۔ سارے ملک کے میڈیا میں اس شادی کو "Love Jihad” کہا گیا اور بعض گوشوں نے تو یہ بھی الزام عائد کیا کہ ہادیہ کے شوہر شفین جہاں ایک دہشت پسند ہے اور اس کا تعلق بین الاقوامی دہشت پسند تنظیم ’’آئی ایس آئی ایس‘‘ سے ہے جنہوں نے عرب دنیا کے ملک شام میں بے پناہ خون خرابہ کیا ہے اور کررہے ہیں۔ ساری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ ’’داعش‘‘ شام میں خون خرابہ کرکے ’’اسلامی خلافت‘‘ قائم کرچکی ہے۔ یہ بنیاد پرست، رجعت پسند، دہشت پسند عناصر ہیں جس کی موجودگی اقطاع عالم کے امن پسند ممالک کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ بات ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ شام، لیبیا اور کچھ دیگر ممالک میں داعش نے وہ سب کچھ کیا جو امن پسند ’’دین اسلام‘‘ کی رسوائی کا باعث بنا۔ ان عناصر سے کسی اعتدال پسند مسلمان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی ہر ذی شعور مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، سخت لعنت و ملامت کرتا ہے۔ ہادیہ کے طرفداروں نے شفین جہاں پر ایسی طاقتوں سے تعلق رکھنے اور ان کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے معصوم ہندو لڑکیوں سے عشق کا ناٹک کرکے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) نے بھی اس شادی کے بارے میں اس قسم کے شبہات کا اظہار کیا اور ان کی ایسی تمام سرگرمیوں کو ملک کی صیانت یا سکیورٹی کے لئے خطرہ قرار دیا۔ یہ بات سپریم کورٹ میں بھی کہی گئی۔ سپریم کورٹ نے اپنے متوازن اور نپے تلے فیصلہ میں ہادیہ اور شفین جہاں کی شادی کے تنازعہ کے بارے میں سماعت جنوری 2018ء کے تیسرے ہفتے میں مقرر کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ تمام الزامات، شکوک و شبہات کا اب آئندہ برس جنوری میں ہی میں عدالت جائزہ لے گی لیکن عدالت کے اس قابل صد آفرین فیصلہ سے ہادیہ کے تمام بنیادی حقوق بحال ہوئے، اس کیلئے وہ اب آزاد ہے۔ عدالت کے قطعی اور حتمی فیصلہ پر اب سب کے لبوں پر مہر لگ گئی ہے۔ ہادیہ نے عدالت سے خواہش کی تھی کہ اس کو تعلیم جاری رکھنے اور بھرپور تحفظ کے ساتھ آزادانہ اپنی زندگی گذارنے کی عدالت نے اجازت دی ہے۔ معزز عدالت نے اس کے ان حقوق کو تسلیم کیا۔ ٹاملناڈو کے مقام ’’سیلم‘‘ میں جہاں ہادیہ زیرتعلیم تھی۔ وہ ہومیوپیتھی میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کررہی تھی۔ تعلیم تقریباً ختم ہوچکی تھی اور صرف انٹرن شپ کرنا باقی تھی۔ کیرالا ہائیکورٹ کے سابقہ فیصلہ کے بعد اس کو اپنے والد کے گھر میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن عدالت نے ہادیہ کو تمام بنیادی حقوق دلواتے ہوئے سیلم کے میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں مقیم رہنے اور وہاں کے ہاسٹل میں قیام کرنے کی ہدایت کی۔ تملناڈو حکومت سے سپریم کورٹ نے ہادیہ کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے اور اس کی آبائی ریاست کیرالا کی ریاستی حکومت کو ہادیہ کے تعلیمی اخراجات کی پابجائی کرنے کی واضح ہدایت دی ہے۔ ہادیہ نے سپریم کورٹ سے جب یہ کہا کہ تعلیمی اخراجات اس کے شوہر شفین جہاں برداشت کریں گے تو سپریم کورٹ نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس کے شوہر نے بھی سپریم کورٹ میں اپنی بیوی کی والدہ کے گھر پر غیرقانونی حراست کی اساس پر حبس بیجا (Habeas Corpus) میں رکھنے کے خلاف درخواست نہیں کی ہے جس کو عدالت نے قبول کرلیا ہے۔ شادی کے مسئلہ پر تو بحث ہوتی رہے گی اور اس پہلو پر بھی بحث ضرور ہوگی کہ کیا ہادیہ کو اسلام قبول کرنے اور مسلم نوجوان سے شادی کرنے کے سلسلے میں اس پر ہپناٹیزم کیا گیا تھا کیونکہ ہادیہ کی موجودگی ذہنی حالت کو مخالف وکیل نے غیرمستحکم قرار دیتے ہوئے عدالت سے یہ بھی کہا تھا کہ ہادیہ کے ذہن کو مسخر کرلیا گیا، اس کا نفسیاتی اغوا کیا گیا ہے۔ اس کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ان سارے نظریات کو مسترد کردیا اور ہادیہ کی اس انسانی اپیل کو بھی اپنے فیصلہ کی بنیاد بنایا کہ ہر ہندوستانی شہری کو بلالحاظ مذہب و ملت تمام شہری حقوق حاصل ہیں اور اس کیس میں بھی ایک عاقل و بالغ لڑکی کو ان حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ’’لو جہاد‘‘ جیسی لایعنی اصطلاح کو اب ختم ہوجانا چاہئے۔ اور اس کی آڑ لے کر بین المذہبی (Inter Faith) شادیوں پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہئے۔ بنیادی حقوق سے کسی کو بھی محروم کرنا بجائے خود ایک سنگین جرم ہے۔