کیا یہ سچ نہیں ؟

نسیمہ تراب الحسن
میں نے کئی کتابوں کی رسم اجراء میں مضامین اور افسانوں کے متعلق دانشوروں اور تبصرہ نگاروں کی تقاریر سنیں۔ ان میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم اور زیادتیوں کا حال سن کر لکھنے والوں کو یہ رائے دی گئی کہ خواتین کو اس گرداب سے باہر نکالنے کی کوشش کرنا چاہئے، اپنے میں خود اعتمادی پیدا کرنا چاہئے۔ پروفیسر شمیم علیم نے تو کتاب ہی لکھ دی ’’جاگ عورت جاگ ‘‘ ۔ میں سوچنے لگی کہ عورت تو جاگ گئی ۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس نے اپنی عقل و فراست سے کام کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ وہ مردوں سے سمجھ بوجھ میں کم نہیں۔ مگر مرد ہر طرح ان کا استحصال کیوں کررہے ہیں۔ گھر ہو یا باہر ان کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جاتا ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدائش کے بعد زندہ دفن کردیا جاتا تھا ، مال و متاع کی طرح خریدا اور فروخت کیا جاتا تھا ، لونڈی باندی کی طرح خدمت گذار سمجھا جاتا یا پھر شہوت کا ذریعہ ۔ اگر شادی کرلی جائے تو بھی ازدواجی زندگی میں کسی طرح رائے دینے کا حق نہ تھا ، یہاں تک کہ اپنے بچوں کی پرورش میں بھی ماں کچھ کہنے کی روادار نہ سمجھی جاتی بس ایک خاموش خدمت گذار کی طرح کام کرنا اس کا فرض تھا ، الغرض عورت کی حیثیت کچھ نہ تھی اس کا احترام بے معنی تھا۔ آج کی روشن خیال دنیا میں ان حالات میں زیادہ فرق نہیں ۔ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت مل جائے تو بھی ہزار طرح کی روک ٹوک اس کا دامن تھامے رہتی ہیں۔ شادی سے پہلے باپ بھائی اور شادی کے بعد سسر ، شوہر اس کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں ، ایسا کرو ، ایسا مت کرو کی زنجیر اس کے پاؤں میں پڑی رہتی ہے ۔ تعلیم اور اعلیٰ ڈگریاں جہیز کانعم البدل نہیں۔ وہی گھوڑے جوڑے کی رقم اور لین دین کی لعنت سر اٹھائے کھڑی رہتی ہے ۔ ملازمت کا وہی کہ کیا ضرورت ہے ؟ کا قصہ اور اگر اجازت مل جائے تو بھی اپنی محنت سے حاصل کیا ہوا پیسہ اپنی مرضی سے خرچ نہیں کرسکتی ۔ شوہر یا ساس کے آگے ہر ضرورت کے لئے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ دفتر میں عورت اعلیٰ آفیسر ہو ، اس کے سامنے اچھے اچھے لوگ دستہ بستہ کھڑے رہیں لیکن گھر کی ذمہ داریوں میں ذرا سی کوتاہی پر اسی کو نشانہ ملامت بنایا جاتا ہے چاہے وہ میاں کی قمیض کا ٹوٹا بٹن ہو ، کھانے کی میز پر سالن میں مرچ زیادہ ہو یا ضروررت کی کوئی چیز آنکھوں سے اوجھل ہوجائے ، لائیٹ یا نل کا بل وقت مقررہ پر نہ دیا جائے ۔

بچوں کی پڑھائی ، ان کے اسکول رپورٹ سبھی دیکھنا اور حسب ضرورت اس کا دھیان رکھنا ، عورت پر منحصر رہتا ہے ۔ جب میاں بیوی شریک حیات مانے جاتے ہیں تو دونوں کو ملکر گھریلو زندگی کے کام انجام دینا چاہئے اس سے ہٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بات بے بات طلاق دینا یا بغیر طلاق دیئے دوسری شادی کرلینا ایک معمولی بات ہوگئی ۔ طلاق بھی باقاعدہ نہیں ، نہ مہر ادا کیاجاتا ہے نہ نان نفقے کا سوال ۔ عورت بیچاری کیا کرے ؟ کہاں جائے ۔ میکے والے پریشان کہ دوسری بیٹیاں ہیں پہلی آکر بیٹھ جائے تو ہماری عزت کا سوال ہے ۔ سسر ال والے اپنی بہو کو لاوارث چھوڑدیتے ہیں ۔ لڑکی کی عزت کا کسی کو خیال نہیں ۔ چاہے وہ کنویں میں گرکر مرجائے ، چاہے دربدر کی ٹھوکریں کھائے، بھیک مانگے ، اس کو سہارا دینے والا کوئی نہیں۔ ایک شادی کا یہ حشر تو دوسری کیسے ہوسکتی ہے۔تعجب تو ان بے حس مردوں پر ہوتا ہے جو پھر دھوم دھام سے دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ وہ کیسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی ایسے بے حس لوگوں کے گھر بیاہ دیتے ہیں ۔

دراصل ان سب باتوں کی بنیاد سماج میں مردوں کی بالا دستی ہے ۔ زندگی کے ہر قدم پر ان کا ہی راج ہے ۔ خاندان کا سرپرست مرد ، مذہبی رہنما مرد ، گھر کی دنیا ہو یا باہر کی وہی حاکم مطلق اور اس کے حکم کی پابجائی عورت کا فرض مانا جاتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت کے جاگنے کا قصہ کیا ہے وہ تو اپنی سمجھداری سے حالات سے سمجھوتہ کرتی رہتی ہے ۔ کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی خاندان کی عزت کو بچانے کیلئے کبھی سماجی بندھنوں کی خاطر وہ مشکلات کے تانے بانوں کے جال میں پھنسی زندگی بسر کرتی ہے ۔ اس پر پابندیاں عائد کرنے والے تو مرد ہی ہیں۔ جن کو نہ ماں ، نہ بیٹی ، نہ بہن کے جذبات ، احساسات کی پرواہ ہے۔ زندگی کے کسی فیصلے میں ان کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں اور پھر عصمت ریزی تو ان کا کھیل بن گیا ۔ 5 سال، 15 سال ، 45 سال اور اس سے بڑی عمر کی عورت کا شکار ان بے غیرت افراد کے لئے جائز رہتا ہے ۔

اپنی ہوس بجھاکر بھی مطمئن نہیں ہوتے ، قتل کردینا یا گلا گھونٹ دینا بھی ، ان کی بے رحمی کی نشاندہی کرتی ہے ۔ بھلا بتائیے کہ اس میں عورت کا کیا قصور ، وہ سڑک پر جارہی تھی ۔ آپ کہیں گے وہ گھر سے باہر کیوں نکلی ، کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ کالج سے واپس آرہی ہو ، دفتر سے گھر لوٹ رہی ہو ، اسپتال کی ڈیوٹی ختم کرکے آرہی ہو ، بوڑھے ماں باپ کو ضرورت کی چیزیں پہنچانے گئی ہو ، محنت مزدوری سے چھٹکارہ ملا ہو ۔ ہزار وجوہات درپیش رہتی ہیں ، یہ بھی کوئی بات ہے کہ وہ اکیلی کیوں نکلی ، اس بس میں کیوں سوار ہوئی جس میں کم لوگ تھے ۔ سنسان راستہ ، دوپہر ہو یا شام اس سے گذرنا ہر صورت دعوت گناہ دینے کے مماثل ہے۔ کیا یہ عورتوں کی سمجھ میں نہیں آتا پھر وہ اپنے ساتھ ایک رکھوالا کیوں نہیں رکھتیں یہ بات دوسری ہے کہ اس کی عزت کے دشمن زیادہ ہوں اس نگراں کار کو مارکر ایک طرف پھینک دیں پھر اجتماعی عصمت ریزی کرکے فاتح مردانگی بن جائیں اور جاگتی عورت کو سلادیں۔ ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان خاطیوں کو پکڑنا ، چشم دید گواہ کا تلاش کرنا کارے داردہے ۔ بہ فضل محال یہ درندے پکڑے گئے تو سزا دینا یا تو کچھ جرمانہ یا قید چند مہینوں کی ، یہ تو کوئی حل نہیں ۔

اسی لئے تو اس کا علاج ذہنیت بدلنا ہے۔ ان کے دل دماغ میں یہ بات نقش کرنا پڑے گی کہ جس طرح مرد کے احساسات ، جذبات ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی جن کو ٹھیس لگے تو دکھ ہوتا ہے ۔ عزت کسی کی بھی اتاری جاسکتی ہے ۔ اگر مرد کو چار لوگوںمیں ذلیل کیا جائے تو وہ شرم سے سرجھکائے اپنی توہین سے ادھ موا ہوجائے گا اور پھر عورتوں کی بے عزتی کی جسارت نہیں کرے گا ۔ غالباً ہر مذہب میں عورت کو مرد کے مقابل کمزور مانا جاتا ہے ، صنف نازک کہا جاتا ہے پھر کیوں ان پر زور و زیادتی سے کام لیا جاتا ہے ۔ ان کا احترام بھی اسی طرح کیا جانا چاہئے جیسے مرد ذات کا ۔ عورت کو جگانا مشکل مسئلہ نہیں وہ اپنے حالات سدھارنے کے لئے ، کسمپرسی کے بندھنوں سے چھٹکارہ پانے اور اپنی صلاحیتوں اپنی عقل کو کام میں لانے کی متمنی تھی، چنانچہ جیسے ہی موقع ملا انھوں نے قدم اٹھائے اور یہ ثابت کردیا کہ عورت ناقص العقل نہیں ، کم ہمت نہیں ، گھر اور باہر کی دوہری ذمہ داری بھی وہ خندہ پیشانی سے نبھاسکتی ہے لیکن مردوں کی ذہنیت بدلنا دشوار مسئلہ ہے کیوں کہ بچپن سے مرد حاکم کے روپ میں راج کرتا ہے اور عورت اس کی تابعدار کا عہدہ سنبھالے رہتی ہے ۔ مرد کو کسی طرح کی قید و بند سے باہر آنے کا سوال ہی نہیں ، زندگی کے ہر قدم پر اس کو اپنی مرضی ، اپنی خوشی پورا کرتے رہنے کی عادت ہوگئی ہے اور یہی من مانی بعض افراد کو درندگی کی منزل پر پہنچادیتی ہے ۔ جہاں انسانیت کی قدر و قیمت دم توڑ دیتی ہے ، شرافت و اخلاقی قدریں اپنی اہمیت کھودیتی ہیں ۔ اس کا ضمیر مرجاتا ہے ، دوسروں کا احترام ، لحاظ پاس سے وہ بے بہرہ ہوکر ہر تکلیف دہ کام کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔ جس کی مثالیں ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں ۔ چنانچہ سماج میں برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ہم کو مرد کی ذہنیت بدلنا ہوگی ۔