غضنفر علی خان
ہندوستان اور پاکستان صرف دو پڑوسی ممالک ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ دونوں ممالک ہمارے دور کی دو یعنی جغرافیائی اور تاریخی حقیقت ہیں ان کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہ جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخی اور جغرافیائی سچائیاں ہونے کے باوجود تقسیم ہند کے عظیم سانحہ کے بعد دونوں ممالک میں دوستی اور مفاہمت آج تک پیدا نہ ہوسکی۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دونوں میں اس بدبختانہ کشیدہ تعلقات کی کوئی وجوہات بھی ہیں یا پھر ہندوستان اپنی تقسیم اور پاکستانی کشمکش کے بعد بننے کے باوصف محض خیالی خوف و دہشت کے ماحول سے خود کو آزاد نہ کرسکے۔ آج کا مورخ آئندہ شاید چند برسوں میں ان سوالات کا جواب دے سکے۔ آپسی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش دونوں کی جانب سے ہوتی ہے اور آخری دم تک جاری رہنی چاہئے۔ دونوں ممالک میں داخلی طور پر بھی مفاہمت بڑھانے کی سعی بھی جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سابقہ مفاہمت کے تمام دعوئوں کے باوجود کہیں نہ کہیں کوئی ایک آنچ کی کسر باقی رہ جاتی ہے اور پھر بعد میں یہ شدید ہوجاتی ہے۔ دنیا کے کسی دو پڑوسیوں کے درمیان اتنی جھڑپیں، تصادم اور کشیدگی کی معمولی اسباب کے باوجود ایسے حالات نہیں ہیں۔ دونوں باہمی دوستی کے کوشاں ہیں کیوں کہ دونوں ممالک بھی یہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ یا صلح تصادم دونوں کے لیے سوائے تباہی و بربادی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ انتہاپسند لوگ بھی اکثر نہیں ہمیشہ ہی مفاہمت کی کوشش میں رخنہ ڈالتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی کمزوری یہ ہے کہ وہاں فوج اور سیول حکومت میں کوئی محفوظ فاصلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں جتنی مرتبہ منتخب حکومتیں جو بڑی مشکل سے بنی تھیں وہ سب کی سب فوج نے ختم کردی۔ فوج اور جمہوری حکومتیں پاکستان میں پھول نہ بن سکیں، ان ادھ کھلی کلیوں کو فوج کے آہنی ہاتھوں کو ختم کردیا گیا اور پاکستان کے جو جمہوریت پسند عناصر تھے بے بسی کے ساتھ جمہوری حکومت کے اس کمزوری پر صرف ایک آہِ سردلے کر خاموش ہوتے رہے۔ فوج کی بالادستی ہر وقت ہر حکومت کے دور میں ہوتی رہی۔ جنرل ایوب خان دس سال پاکستان کے حکمران بنے رہے آخر کار ان کا بھی زوال آیا اور عوام کی ان کے تئیں نفرت کی آگ بھرک گئی لیکن فوج کو اقتدار کی عادت ہوگئی۔ ایوب خان جنرل ضیاء الحق اور آخر میں جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کے خونِ ناحق کو اور گہرا کردیا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کبھی قائم نہ ہوسکی۔ جمہوریت پسند ہمیشہ اس نظام کو اقتدار پر لانے کے لیے کشمکش کرتے رہے۔
70 سال کی مختصر تاریخ میں تقریباً 35 سال کا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ پاکستان فوجی حکمرانوں کی تحویل میں رہا۔ یہ ایک ایسا چکر رہا کہ پاکستان اس کے گردش سے خود کو دور نہ کرسکا۔ بحرحال پاکستان میں جمہوریت اور فوجی حکومت یہاں ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آرا بھی رہے لیکن فوج کی بالادستی قائم رہی۔ یہی سلسلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری ہے۔ پچھلے مہینے پاکستان میں تازہ ترین انتخابات ہوئے جن میں وہاں کی سب ہی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ انتخابات پرامن بھی رہے اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے سابقہ کرکٹ کھلاڑی عمران خان کی پارٹی ابھر کر آئی۔ اب وہ حکومت بنائیں گے ابھی تک ہندوستان میں ان کے بارے میں کوئی مستحکم رائے قائم نہیں ہوئی حالانکہ پاکستان میں ہونے والی ہر سیاسی و معاشی اور سماجی تبدیلی پر ہمارا ملک گہری نظر رکھتا ہے۔ عمران خان چونکہ سیاسی میدان کے نسبتاً نئے لیڈر ہیں اور جدید ذہن بھی رکھتے ہیں ان کے سیاسی نظریات ان کی پالیسی اور ہندوستان سے بہتر تعلقات کی خواہش بھی بجا ہے لیکن اس بات کی گیارنٹی عمران خان نہ کوئی اور دے سکتا ہے کہ وہ اپنی اس تمنا کو پورا کرسکیں گے یا نہیں۔ کیوں کہ فوج آج بھی پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل کرسکتی ہے۔ پاکستان کی سابقہ جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کی ساری تاریخ میں کبھی بھی کسی پاکستان حکومت کی بے داخلی کی معقول وجوہ نہیں تھے۔ آج بھی عمران خان کے سرپر فوج کی تلوار لٹکی ہوئی ہے کیوں کہ ایسا کہنے کی کئی وجوہات ہیں۔ اگر فی الوقت نہیں بھی ہے تو بھی کوئی یہ گیارنٹی نہیں دے سکتا ہے کہ فوج کی مداخلت کے خوف سے جمہوریت اور جمہوری حکومت عمران خان کی حکومت محفوظ رہے گی۔ عمران خان کی دشواری یہ ہے (اور یہی سابقہ تمام حکمرانی کی دشواری بھی رہی) کہ فوج بڑی خاموشی کے ساتھ راتوں رات کایا پلٹ کرسکتی ہے۔ اس میں عمران خان بھلا کیا کرسکتے ہیں؟ وہ بھی خاموشی کے ساتھ فوجی حکومت کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے۔ ابھی یہ کہنا دشوار ہے کہ فی الواقعی ایسا ہی ہوگا۔ مجموعی حیثیت سے اعداد و شمار تو ان کے حق میں ہیں اور وہ حکومت بنائیں گے لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا وہ فوج کو یہ کھلے طور پر کہہ سکیں گے کہ فوج اپنے بیارکس میں واپس جائے اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرے۔ عمران خان جب بھی اپنے تیور بدلیں گے فوج کی مداخلت اور زور زبردستی کے ساتھ مداخلت ہوسکتی ہے جیسے کوئی پاکستانی لیڈر نہیں روک سکے گا۔ عمران خان عین ممکن ہے کہ خطرے سے واقف ہوں گے اور فوج بھی انتخابی عمل کے دوران ان پر خاص مہربان بھی رہی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خود عمران کی پارٹی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ دوسری دو سیاسی پارٹیوں اور ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان جانے والے مہاجرین کی پارٹی کے تعاون سے بنے گی۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے ہندوستان پاکستان سے مختلف ہے لیکن ہندوستان کی بات مختلف ان معنوں میں ہے کہ ابتدا ہی سے ہندوستان میں فوج کو اس کا صحیح مقام بتادیا گیا تھا اور پاکستان فوج برسوں حکومت پر حاوی رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کتنی دیر تک عمران حکومت فوج کی مداخلت سے بچ سکے گی۔ پاکستانی حکومتیں جب بھی ہندوستان سے دوستی اور مفاہمت کی کوشش کرتی ہے پاکستانی فوج کسی نہ کسی بہانے سے اپنی بے جا مداخلت کے لیے جواز پیدا کرلیتی ہے۔ اس لیے یہ خیال کہ عمران خان ہند۔پاک تعلقات کو بہتر بنائیں گے اور اس میں کامیاب ہوجائیں گے ابھی قبل از وقت ہوگا۔ پاکستان کی ہر سیاسی حکومت کی ہر اس کوشش کو فوج نے ہی ناکام بنایا جو پاکستان کے سابقہ وزرائے اعظم نے کی تھی۔ چونکہ عمران خان پہلی مرتبہ پاکستان کے حکمراں بنے ہیں اس لیے ان سے یہ موہوم امید کرتے رہنا ہندوستان کی اعلی حکمت عملی کا ثبوت ہوگا۔