کیا ہندوستان اور پاکستان محدود جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

غضنفر علی خان
دونوں پڑوسی اور نیوکلیئر طاقت کے حامل جنوبی ایشیاء کے ممالک ہندوستان اور پاکستان کشمیر کے سرحدی علاقوں میں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ شروعات پاکستان نے کی تھی ۔ مجبوراً ہندوستان کو جوابی کارروائی کرنی پڑی۔اس مرتبہ یہ فرق ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں درجنوں خلاف ورزیاں پاکستان کے رینجرس نے کیں ۔ ہندوستان کی بارڈر سیکوریٹی فورسیس نے روک تھام کیلئے کارروائی کی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔ لائن آف کنٹرول پر یا اس کے آس پاس واقع ہندوستانی دیہاتوں کا تو حال برا ہے۔ کئی خانماں برباد بے سر و سامان خاندانوں نے اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات ہجرت کرنا پسند کیا۔ ایک ایسے ہی بے سر و سامان خاندان کے فرد نے کہا کہ ’’ہمارا تو سب کچھ لٹ چکا ہے، پاکستان کی فائرنگ اور شل باری نے ہمارے کھیت ، ہمارے مکانات سب کچھ تباہ وتاراج کردیا ہے، اب ہمارے پاس کچھ نہیں بچا، اگر کچھ بچا ہے تو وہ ہماری جان ہے، اسی کی حفاظت کیلئے ہم اپنا گاؤں چھوڑ کر آئے ہیں‘‘۔ ہاں جان تو بہرحال پیاری ہوتی ہے ۔ سرحدی مواضعات کی حالت پاکستانی فوجی کارروائی کی وجہ سے اتنی ابتر ہوگئی ہے ، صرف جان ہی بچائی جاسکتی ہے ۔اس عظیم انسانی سانحہ کے وقت بھی جم کر سیاست کی جارہی ہے۔ حکمراں بی جے پی کو اپوزیشن کانگریس بار بار یاد دلا رہی ہے کہ ’’کیوں وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کو منہ توڑ جواب نہیں دے رہے ہیں‘‘ ۔ یہ اعتراض درست بھی ہے کہ کیونکہ 2014 ء کے انتخابات میں نریندر مودی اور ساری بی جے پی پارٹی لیڈروں نے پاکستان کو سبق سکھانے اور کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے کے دعوے کئے تھے ۔ لائن آف کنٹرول پر سیویلین کا خون خرابہ ہورہا ہے اور ملک بھر میں کانگریس اور این ڈی اے ایک دوسرے پر بیان بازی میں سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں ۔ یہ لائن آف کنٹرول پر جاری پا کستانی جارحیت سے فریقین کی مجرمانہ غفلت کا ثبوت ہے ۔

اس جرم میں دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں اور حد درجہ شخصی حملوں پر اتر آئے ہیں ۔ نریندر مودی کے سینے کی چوڑائی ناپی جارہی ہے تو کہیں کانگریسی لیڈر راہول گاندھی کے بیرونی دوروں کا طنزیہ انداز میں ذکر کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس نازک وقت میں دونوں کو متحد ہوکر لائن آف کنٹرول پر پیدا شدہ صورتحال کو ختم کرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے تھی ۔ رفتہ رفتہ یہ جھڑپیں عین ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان محدود جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہیں ۔ غلطی کس کی ہے یہ بات بعد میں بھی طئے کی جاسکتی ہے ، پہلے تو پاکستان کو پیچھے ڈھکیلنا ہے۔ ملک کے اندر کی سیاسی رقابت کبھی بھی سرحدوں پر حملہ کے وقت ظاہر نہیں ہونی چاہئے لیکن ہماری قومی سیاست اس حد تک اخلاقی قدروں سے تہی دامن ہوگئی ہے کہ سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو ہوئی بات ہندوستان کی داخلی سیاست کی۔ دوسری طرف پاکستان کی اندرونی سیاست اس سے بھی گئی گزری ہے۔ ہندوستان کی جوابی کارروائیوں سے پریشان ہوکر پاکستان نے ازکار رفتہ اقوام متحدہ کا راگ الاپنا شروع کردیا لیکن عالمی ادارہ اور پا کستان کے بظاہر ہمدرد امریکہ نے واضح کردیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو اپنے مسائل باہمی بات چیت کے ذریعہ حل کرنے چاہئیں ۔ یعنی اس وقت لائن آف کنٹرول پر جنگ کا جو ماحول ہے اس میں یہ دونوں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے اس لڑائی کے بارے میں اقوام متحدہ سے رجوع ہونے کی جو کوشش کی ہے وہ خود لڑائی کے محاذ پر اس کی پسپائی کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں بھی انتہا پسند اور ناعاقبت اندیش سیاست داں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے کشمیر کے بارے میں کہا ہے کہ سارے کشمیر کو حاصل کر کے ہی وہ دم لیں گے،

ان کی طرح کی بات سابق صدر پا کستان جنرل مشرف نے بھی کی ہے کہ ’’کشمیر ہمارا قومی مسئلہ ہے ، یہ ہماری رگوں میں موجود ہے‘‘ اس قسم کے جذباتی بیان دینے کے اسباب دونوں کے پاس موجود ہیں۔ بلاول بھٹو تو اتنے کم عمر ہیں کہ ابھی سیاست میں قدم رکھنے کے لئے ان کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ہیں، وہ پاکستانی سیاست میں اپنا اور اپنی پارٹی کا مقام بنانے کیلئے کشمیر کے تعلق سے اس قسم کا احمقانہ بیان دے رہے ہیں ۔ پاکستانی سیاست کے پٹے پٹائے مہرے جنرل مشرف کئی مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں، ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ بھی چل رہا ہے ، ان حالات میں کچھ اپنی ساکھ بچانے اور سیاسی سطح پر ہمدردی حاصل کرنے کیلئے وہ بھی کشمیر کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ اچھا یہ ہوا کہ ہندوستان نے دونوں کے بیانات پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس کو غیر اہم قرار دیا۔ پاکستان میںبھی وہی ہورہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے حریف ان کی چمڑی ادھیڑنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے، سرحدی صورتحال کے بارے میں نواز شریف پر بھی دباؤ ہے کہ وہ ہندوستان کے خلاف سخت موقف اختیار کریں ۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ اپنے ملک میں پا کستانی فوج کے آگے بے بس ہیں ۔ دونوں ممالک کی داخلی صورتحال نے وزراء اعظم کو بڑی حد تک بے اثر کر کے رکھ دیا ہے ۔ پاکستان کا یہ الزام کہ ہندوستان اس کے اپنے سرحدی دیہاتوں کے شہریوں پر حملے کر رہا ہے ، یکلخت جھوٹ ہے، کیونکہ ہندوستان نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی شروعات نہیں کی تھی بلکہ پاکستان کی مسلسل چھیڑ چھاڑ کے بعد ہندوستان کی پہلے بارڈر سیکوریٹی فورسیس اور بعد میں فوج نے قدم اٹھایا ۔ ایک لحاظ سے ہندوستان مدافعتی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اشتعال کے باوجود ہندوستان خاموش تو نہیں رہ سکتا تھا ۔ اب یہ پاکستانی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فوج کو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے باز رکھے ۔ ہندوستان نے نہ تو اس کی ابتداء کی تھی اور نہ وہ موجودہ حالات کا ذمہ دار ہے ۔ پاکستانی میڈیا پر فوج نے دباؤ ڈالا ہے کہ وہ خبروں کی ترسیل میں احتیاط سے کام لے۔ یہ ایک طرح کی سنسرشپ ہے اور سنسر شپ اس وقت کی جاتی ہے جب حکومت کو اپنی کسی غلطی کی پردہ داری کرنی ہوتی ہے ۔ برخلاف اس کے ہندوستانی میڈیا بالکل آزاد ہے۔ سینسر شپ لگاکر پاکستان نے یہ یکطرفہ اعتراف کرلیا ہے کہ اس سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ پا کستان کے سابق وزیر خارجہ محمود قریشی نے اپنی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگی صورتحال کو جس میں ہر روز پاکستانی شہری ہلاک ہورہے ہیں، ختم کرنے کیلئے کوئی ڈپلومیٹک چیانلس استعمال نہیں کر رہی ہے ۔ حالانکہ ان کا یہ خیال غلط ہے، اقوام متحدہ اور امریکہ سے پاکستان پہلے ہی رجوع ہوچکا ہے اور وہاں سے ٹکا سا جواب بھی اسے مل چکا ہے۔ ڈپلومیسی ہی اگر پاکستان کو کرنی ہے تو پھر ہندوستان سے راست بات چیت سے زیادہ اور کیا بات مفید ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی جن چنگاریوں سے وہ کھیل رہا ہے وہ کوئی باقاعدہ لڑائی کی صورت اختیار نہ کرلے ۔ پاکستان کا یہ دعویٰ کہ اس کے سرحدی دیہاتوں میں بھی شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں ، اگر درست بھی سمجھا جائے تو پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہئے تھا کہ اس کی خلاف ورزیوں کا ہندوستان بھی معقول جواب دے سکتا ہے ۔ ان پاکستانی شہریوں کی ہلاکتوں کا افسوس کرتے ہوئے پاکستان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے حملوں سے درجنوں ہندوستانی دیہی سرحدی علاقوں کے شہری بھی مارے گئے ہیں جن میں ایک 70 سالہ ضعیف خاتون بھی شامل ہے ۔ سینکڑوں معصوم اور بے گناہ افراد زخمی بھی ہوئے ۔ ہر دو جانب جانی نقصانات ہورہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ شروعات کس نے کی ، شروعات پاکستان کی جانب سے ہوئی تھی اور آج بھی چھیڑخانی کا سلسلہ جاری ہے ۔اگر ہندوستان مجبور ہوکر اپنی فوجی حکمت عملی بدل دے تو ان حالات میں محدود جنگ تک بات پہنچ سکتی ہے، جس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوگی ۔ بہتر یہی ہوگا کہ دونوں ممالک کی فوجی اور سیاسی قیادت بات چیت کرے تاکہ یہ سلسلہ ختم ہو اور نہ صرف لائن آف کنٹرول پر بلکہ پوری طرح دونوں ممالک کے درمیان صلح صفائی ہو اور امن و شانتی کا ماحول پیدا ہو ۔