نہیں ! تو پھر خارجی امداد لینے سے انکارکیوں ؟
ششی تھرور
کیرالا کے تباہ کن سیلاب کے باعث جان و مال کی تباہی سے دوچار ریاست کے ضمن میں ایک بحث کا سلسلہ چل پڑا ہے ، وہ یہ کہ کیا ہم کو خارجی امداد قبول کرنی چاہئے یا نہیں ۔ وسط جولائی میں جب کیرالا میں سیلاب کی صورتحال بالکل ابتدائی نوعیت کی تھی تو ریاست نے مرکزی حکومت سے 831.10 کروڑ روپئے کی سپلائی امداد کی مانگ کی تھی لیکن مرکز نے صرف 80 کروڑ ہی منظور کیا ۔ 30 جولائی 2018 ء کو میں نے لوک سبھا میں حکومت سے درخواست کی تھی کہ اضافی فنڈس مہیا کرے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔
انسدادآفات سماوی ایکٹ کی بحالی : وسط اگست میں جب سیلاب کی صورتحال بہت ہی سنگین ہوگئی تو ریاست نے نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فنڈ سے فوری طور پر 1,220 کروڑ روپئے جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اگست 13 کو مرکز نے اس مقصد کیلئے صرف سو کروڑ روپئے جاری کئے جبکہ ریاستی وزیرمالیہ نے واضح طور پر کہا تھا کہ ریاست کو فوری طور پر تین سو کروڑ ریلیف فنڈس جاری کی جائیں۔
اگست 18 کو وزیراعظم نے کیرالا کا فضائی سروے کیا تھا اور مزید پانچ سو کروڑ روپئے مدد کا وعدہ کیا تھا جو ریاستی حکومت کے مطالبہ کی نصف رقم بھی نہیں تھی حالانکہ اس وقت تعمیر نو کی طویل مدت کا بھی اندازہ نہیں کیا گیا تھا ۔ متحدہ عرب امارات نے 700 کروڑ روپئے کی امداد کی پیشکش کی تھی اور مودی نے اپنے ٹوئیٹر پر شیخ محمدبن راشد المختوم کا شکریہ ادا کیا تھا لیکن حکومت نے میڈیا کے ذریعہ یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ اس پیشکش کو رد کرتے ہیں۔ (مرکزی حکومت نے اس معاملہ پر کوئی بھی رسمی بیان تو نہیں دیا) لیکن بی جے پی ترجمان نے یو پی اے حکومت کے اس اعلان کا حوالہ دیا کہ سونامی امداد کے معاملہ میں حکومت کوئی بھی بیرونی امداد قبول نہ کرنے کا فیصلہ لیا تھا ۔ آفات سماوی روک تھام مینجمنٹ ایکٹ 2005 ء کی دفعہ گیارہ کے تحت ہندوستان میں ایسے حالات پر ایک قومی پالیسی کی منصوبہ بندی فریم ورک کو قطعیت دی جانے کی وکالت کی تھی ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ پلان 2016 ء کی دفعہ 9.2 میں صاف طور پر صراحت کردی گئی تھی کہ ’’جہاں تک پالیسی کامعاملہ ہے کسی بھی ناگہانی صورتحال کے پیش نظر حکومت ہند خارجی امداد کی وصولی کی اپیل نہیں کرسکتی لیکن اگر کسی بیرونی ملک کی حکومت رضاکارانہ طور پر امداد کی پیشکش کرتی ہے جس کا تعلق مکمل طور پر متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور جذبہ خیر سگالی کا اظہار ہو تو حکومت ایسی امداد قبول کرسکتی ہے۔
مودی حکومت کا موقف : خارجی امداد کو مسترد کردو : چونکہ متحدہ عرب امارات کی پیشکش حکومت ہند کی درخواست کے تابع نہ تھی لحاظ حکومت کی پالیسی کے تحت اس رقم کو قبول کرسکتی تھی ۔ اسی طرح سے قطر کی وزارت خارجہ نے 19 اگست کو 5 ملین ڈالر کی ریلیف مدد کی پیشکش کی تھی اور مالدیپ نے بھی 35 لاکھ روپئے کی پیشکش کی تھی اور ان امدادی پیشکشوں کا بھی وہی حشر ہوگا جو متحدہ عرب امارات کا ہوا تھا ۔ درحقیقت ہندوستان کی تمام خارجی مشن کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں کہ وہ کسی بھی بیرونی امداد کی پیشکش کو قبول نہ کریں۔ تھائی لینڈ بھی امداد دینے میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن 22 اگست کو تھائی لینڈ کے سفیر نے اپنے ٹوئیٹ میں تحریر کیا کہ ’’حکومت ہند غیر رسمی طور پر افسوس کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ کیرالا سیلاب پر کسی بھی قسم کی بیرونی امداد کو قبول نہیں کیا جائے گا اور ہماری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں اور بھارتی عوام کے ساتھ ۔
حالانکہ جو جواز دیا جارہا ہے وہ جائز نہیں ہے ، سابقہ کیسس میں مرکزی حکومت خود اپنے بل بوتے پر متا ثرین کی دل کھول کر مدد کرنے کے قابل ہوا کرتی تھی لیکن رقمی معاملتوں میں الجھی مودی حکومت ریاستی حکومت کے نہ تو سابقہ اور نہ ہی موجودہ ریلیف درخواستوں کو قبول کی ہے ، ایسی صورت میں بالکل ناممکن سی بات ہے کہ مرکز کیرالا کی تباہ حال انفراسٹرکچرجس کا تخمینہ بیس ہزار کروڑ روپئے کیا گیا ہے، کو از سر نو تعمیرکرے۔ جو کچھ بھی ہو ہمارے لئے 2016 ء کا ہی فریم ورک موجود ہے جس کی بدولت حکومت بیرونی امداد کی پیشکش کو بھی قبول کرسکتی ہے نہ کہ 2013 اور 2014 ء کا فریم ورک ۔ مودی حکومت کی اپنی پالیسی کے مطابق دوستانہ ممالک کی رضاکارانہ امدادی پیشکش کو قبول نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، یہاں تک امریکی حکومت نے 2005 ء کے کیٹرینہ طوفان پر بیرونی امداد پیشکش کو قبول کرلیا تھا ۔
کیا نئی دہلی کے پاس کیرالا امداد کیلئے دو آفر فنڈس موجود ہیں ؟ اگر نئی دہلی محسوس کرتی ہے کہ اس کے پاس کیرالا کے ہوئے نقصانات میں دس لاکھ افراد بے گھر ، 39 تباہ شدہ بریجس ، اسی ہزار کیلو میٹر کی تباہ شدہ سڑکیں اور پچاس ہزار سے زائد مکانات یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا پھر مکمل بہہ گئے ہیں ، کی پابجائی کیلئے مناسب فنڈس موجود ہیں اور جب موجود ہیں تو کیرالا عوام یہ دریافت کرنے پر حق بجانب ہے کہ اس فنڈس کو ریاست کیلئے کیوں مختص نہیں کیا جاتا۔ 2001 ء میں جس وقت ریاست گجرات میں بھوج زلزلہ سے تباہی و بربادی مچی تھی تو حکومت ہند نے بیرونی امداد کی پیشکش کو قبول کیا تھا ۔ اس وقت اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیز جیسے UNDP ، WHO ، UNICEF ، ILO نے مشترکہ طور پر 702 ، 670 ، 42 ڈالرس امداد پیش کی تھی اور اقوام متحدہ کی کوآرڈنیشن آف ہیومانیٹرین افیرس نے 150,000 ڈالرس کی پیشکش صرف زلزلہ کے ایک دن بعد ہی کی تھی ۔
میں بھوج زلزلہ پر بین الاقوامی امداد کے خلاف نہیں ہوں ۔ جب ہندوستان اقوام متحدہ کی ان تمام ایجنسیز کا ممبر ہے تو امداد قبول کر نے میں کیا قباحت ہے ۔ بین الاقوامی تعاون کے بنیادی اصولوں کے مطابق کسی بھی آفات سماوی کی صورت میں ’’سب کیلئے ایک اور ایک کیلئے سب ‘‘ پالیسی اختیار کی گئی ہے۔ نیپال میں تباہ کن زلزلہ کے بعد ہندوستان نے اپنے پڑوسی ملک کو رضاکارانہ امداد پیش کی تھی ۔ پاکستان ، ایران ، بنگلہ دیش اور مائنمار میں بھی طوفان و سیلاب کے متاثرین کیلئے ہندوستان نے امداد مہیا کی تھی تو پھر ہماری مشکلات اور مصائب میں دوسرے ممالک کا دست تعاون کیوں دراز نہیں ہوگا ؟