ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے جہاں بی جے پی کا یہ دعوی ہے کہ آئندہ حکومت وہی تشکیل دے گی ۔ خیر ، بی جے پی اگر ایسا کوئی دعوی کرتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ۔ لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد پارٹی کے حوصلے بلند ہیں اور ان ہی بلند حوصلوں کا نتیجہ ہے کہ مرکز میں بی جے پی نے اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دی ہے ۔ اس کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات نے ایک بار پھر بی جے پی کو سرخرو ہونے کا موقع دیا ۔ مہاراشٹرا میں یوں تو شیوسینا صدر ادھو ٹھاکرے نے دعوی کیا تھا کہ ریاست کے آئندہ وزیراعلی وہ ہی ہوں گے مگر ان کا دعوی بلّی کے خواب میں چھیچھڑے کے مماثل ثابت ہوا ۔ مہاراشٹرا میں اگر شیوسینا کو اپنے بل بوتے پر حکومت سازی کا موقع نہیں ملا تو اسکی واحد وجہ آنجہانی بال ٹھاکرے کی غیر موجودگی ہے ۔ اگر بال ٹھاکرے زندہ ہوتے تو شیوسینا کوحکومت سازی کاموقع مل سکتا تھا کیونکہ بال ٹھاکرے کی موجودگی یقینی طور سے ادھو ٹھاکرے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ۔ رہی بات راج ٹھاکرے کی تو ان کی اہمیت نہ بال ٹھاکرے کے زمانہ میں تھی اور نہ اب ہے ،جس کا اندازہ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے ۔ جموں و کشمیر میں چونکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کرائے جانے میں زیادہ دلچسپی لی تھی ،اس لئے ریاستی حکومت کو بھی بادل ناخواستہ انتخابات منعقد کرائے جانے کے لئے آمادگی کا اظہار کرنا پڑا تھا ۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ جموں و کشمیر میں آئے سیلاب سے سینکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ کروڑہا روپئے کی املاک تباہ ہوگئیں ۔ ان تباہ کاریوں سے سنبھلنے کے لئے اور ریاست کے حالات کو معمول پر لانے کے لئے حکومت کو کئی ماہ درکار تھے ۔ یہاں تک کہ وزیراعلی عمر عبداللہ نے بھی یہ کہہ دیا تھا کہ ریاست میں انتخابات منعقد کروانے کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں ۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے بہرحال ہر ریاست کو اتفاق کرنا پڑتا ہے ۔ رہی بات بی جے پی کی تو شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ پارٹی جموں و کشمیر میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلانے بے قرار ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا کشمیر جاکر فوجی جوانوں کے ساتھ دیوالی منانا خود اس بات کی علامت ہے کہ موصوف اپنے دورہ پر بھی سیاست ہی کررہے ہیں کیونکہ انھیں پتہ تھا کہ اگر کوئی ایسی ریاست ہے جہاں اسمبلی انتخابات عنقریب منعقد کئے جانے والے ہیں ، تو وہ ریاست جموں و کشمیر ہے اور ان کے حالیہ دورے کے بعد عوام ان کے حق میں رائے دہی کرسکتے ہیں ۔ سجاد لون تو وزیراعظم نریندر مودی کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔ انھوں نے دہلی جا کربھی ان سے ملاقات کی اور کہا کہ انہوں نے نریندر مودی جیسا انسان دوست اور سادگی پسند قائد آج تک نہیں دیکھا ۔ جموں و کشمیر میں مسلمان امیدواروں کو بی جے پی نے انتخابی میدان میں اتارا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہیں اور اسی بوکھلاہٹ میں ان پارٹیوں کے قائدین اوٹ پٹانگ بیانات بھی دے رہے ہیں ۔ جموں و کشمیر کو صرف مسلمانوں کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ،بلکہ ایک حساس دل رکھنے والے انسان کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ان کشمیری پنڈتوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے جو آج دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ سیلاب سے متاثرین میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب اور طبقہ کے لوگ شامل ہیں ۔ جن کی بازآبادکاری نہ صرف ریاستی حکومت بلکہ مرکزی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں ہوئی کسی عزیز کی موت سے رنجیدہ ہے تو اسے معمول پر آنے کے لئے کچھ نہ کچھ وقت درکار ہوتا ہے ،تاہم اس کے رنج و غم سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے اسے یہ کہہ دیا جائے کہ وہ ہمیشہ کھلکھلا کر ہنستا رہے اور رنج و الم کی تصویر نہ بنے تو اسے کچھ دیر کے لئے تعجب ضرور ہوگا ۔ اس کی دوسری مثال اس خاتون کی طرح ہے جس کے شوہر کا انتقال ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، تاہم اسے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ عدت کی تکمیل سے قبل ہی نکاح ثانی کرلے ۔ بس یہی کچھ سیلاب سے متاثرین کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان کی روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور انھیں رائے دہی کے لئے پولنگ بوتھس آنے کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ شاید ایسی صورتحال کے لئے ہی مرے پر سو دُرّے والی مثل استعمال کی جاتی ہے ۔ مرکزی حکومت کا فرض تھا کہ وہ پہلے جموں و کشمیر کے متاثرین کی بازآبادکاری کا کام مکمل طور پر انجام دیتی ۔ جب عوام کو ذہنی ، جسمانی اور معاشی یکسوئی حاصل ہوجاتی تو وہ رائے دہی کی جانب بھی راغب ہوجاتے ۔ اول و آخر الیکشن تو بہرحال ہونا ہی تھا ۔ کیا اس میں تاخیر کرنے سے جمہوریت کی بقا خطرے میں پڑجاتی ؟ انسانی نقطہ نظر سے سوچنے کی بات ہے ،کیونکہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ اگر جموں و کشمیر کے پہلے مرحلہ میں رائے دہی کے لئے عوام کی قطاریں نظر آرہی ہیں تو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ خود وہاں نہیں آئے بلکہ انھیں لایا گیا ہے ۔ بی جے پی نے ادعا کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں برسراقتدار آنے پر ریاست کی ترقی پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی ،جو آئے دن ہونے والی ہڑتالوں کی وجہ سے ٹھپ پڑگئی ہے ۔ سخت گیر اور اعتدال پسند دونوں حریت کانفرنس بی جے پی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ ترقی کا دعوی جو بھی پارٹی کرے ، اس کی حمایت کرنا ضروری ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ راقم الحروف بی جے پی جیسے فرقہ پرست جماعت کا مداح ہے ۔ لیکن جب پے در پے کامیابیاں اس پارٹی کا مقدر بن چکی ہیں تو ہر ایک کو اپنی سوچ میں تبدیلی لاتے ہوئے اسے آزمائش کا ایک اور موقع فراہم کرنا ہوگا ۔ اب تک تو وزیراعظم نریندر مودی کی کارکردگی کو قابل ستائش تصور نہیں کیا جاسکتا ،لیکن ان کے دعوے آنے والے دو سال میں بھی صحیح ثابت ہوئے تو جموں و کشمیر جیسی پسماندہ ریاست کو بھی ترقی کے مدارج طے کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ وزیراعلی عمر عبداللہ عرصہ دراز سے افواج کو خصوصی اختیارات AFSPA کی برخاستگی کا مطالبہ بھی کرتے آرہے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ریاست سے اس کا خاتمہ کردیا جائے کیونکہ اگر عام طور پر ملک کا ہر قائد یہی کہتا ہے کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی اب پہلے جیسی نہیں رہی اور تشدد برپا کرنے والے قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں تو پھر AFSPA کو برقرار رکھا جانا کیا معنی رکھتا ہے ؟۔
ریاست جموں و کشمیر ملک کی ایک اہم ریاست ہے اور غالباً واحد ریاست ہے جہاں صرف سیاحت کے شعبہ سے حکومت کے خزانے کو خاطر خواہ فنڈس حاصل ہوتے ہیں ۔ آخر میں یہی کہنا پڑتا ہے کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو جموں و کشمیر کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جانا چاہئے ۔سیاحوں کے ہجوم یہاں ڈل میں شکارے کی سیر کرتے نظر آنے چاہئے ۔ گلمرگ میں اسکائنگ کا ایک بار پھر بول بالا ہو ۔ ہڑتالوں کا سلسلہ بالکل ختم ہوجائے ۔ تعلیمی نظام میں بہتری پیدا ہو اور نوجوان دوشیزاؤں کی عصمت ریزیوں کے واقعات بھی قصہ پارینہ ہوجائیں ۔ ملک کے نقشہ میں بھی ریاست جموں و کشمیر کو سربلندی حاصل ہے اور یہی سربلندی یہاں زندگی کے ہر شعبے میں پیدا ہوجائے تو یقینی طور پر کشمیر ایک بار پھر جنتِ ارضی کے روپ میں ہمارے سامنے ہوگا ۔
wajid_siasat@yahoo.in