کیا کانگریس صرف مسلمانوںکی پارٹی ہے ؟

غضنفر علی خان
کیا آزادی کی جنگ میں صرف ہندوؤں نے حصہ لیا تھا ؟ مسلمانوں نے کوئی رول ادا نہیں کیا تھا ؟ جو پارٹی اس قسم کی باتیں کرتی ہیں وہ جنگ آزادی کی اسپرٹ ہی کو نہیں سمجھ سکی ۔ ہماری آزادی کی جدوجہد میں اس ملک کی تمام تر تاریخ سے تک واقف نہیں تھے ۔ آج بلا ضرورت یہ دعویٰ کیا جارہا ہے جس طرح سے آزادی کی تحریک ہم تمام ہندوستانی نے شانہ بہ شانہ یہ جنگ جیتی تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ ساری ہندوستانی قوم نے گاندھی جی کی قیادت میں یہ جنگ لڑی تھی ۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تمام ہندوستانیوں نے انگریزوں کو شکست دی تھی اور (انگریز) ہماری متحدہ آزادی کی لہر اور اس میں بڑھتی ہوئی طاقت تمام طبقات کی جدوجہد نے ملک کو آزاد کرایا تھا ۔ متحد اور مستحکم تحریک کے آگے برطانیہ کی طاقت کا معقول جواب دیا تھا ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر جنگ کی تھی ۔ اس دور میں جبکہ آزادی کی لڑائی ہورہی تھی کسی ہندو ، کسی مسلمان یا اور کوئی طبقہ نے دعویٰ نہیں کیا تھا یہ نعمت ہمارے اتحاد ، ہماری کشمکش کا ایسا نمونہ تھا جس نے ساری دنیا کی آنکھیں کھول دی تھی لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ آزادی کی جدوجہد میں اس ملک کے مسلمانوں نے ہر قسم کی قربانی دی تھی ۔ البتہ یہ بات ہر کسی کو یاد رکھنی چاہئے کہ تحریک آزادی میں آج کی بی جے پی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ۔ اب برسوں بعد یہ سوچنا یا اپنے منہ مٹھو بننے والی بی جے پی یا کسی مخصوص گروہ نے اکیلے ہی آزادی کی نعمت سے ہمیں یہ قابل فخر آزادی دلائی تھی ۔ اس وقت سارے ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی نے سر پر کفن باندھ لیا تھا اور یہ ثابت کردیا تھا کہ آزادی کی لڑائی میں کسی ہندوستانی کا حصہ رہا ہے ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی ہندو، کسی مسلمان ہی نے ہمیں آزادی دلائی تھی ۔ یہ ہماری قوم پرستی اور وطن دوستی کا ثبوت ہے ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کانگریس پا رٹی نے اس تحریک میں زیادہ حصہ لیا ۔ اس وقت کوئی پارٹی تھی تو صرف کانگریس پارٹی کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ گاندھی جی اور ان سے اتفاق رکھنے والوں نے اس تحریک کو منظم انداز میں آگے بڑھایا تھا لیکن صرف اس کارنامے کیلئے پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا آزاد ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے، اس میں شک نہیں کہ کئی ہندو اور کئی مسلمان شہید ہوئے تھے اوران شہیدوں کے خون سے ہی آزادی کی تحریک چلی ۔ انہوں نے ہی اس چنگاری کو ہوا دی تھی ۔ اس تحریک نے ساری قوم کو ایک ہی دھاگے میں پرونے کا سہرا کانگریس کے سر جاتا ہے ، جس طرح یہ ایک قومی تحریک بن گئی تھی ، اس میں ہندو توا کے حامیوں نے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی نہیں دی تھی ۔ کانگریس پارٹی کو وسیع تر بنانے اور اس کو ہندوؤں ، مسلمانوں کو ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا احساس اس کانگریس پارٹی نے دیا تھا اور کوئی دوسری پارٹی نہیں تھی یا اس قابل نہیں تھی کہ مسلمان اس کو ووٹ دیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہئے کہ سارے ہندوستان پر کانگریس پار ٹی کا اثر تھا ۔ ملک کی تقسیم کے بعد ان کے آگے اس ایک پارٹی کو بہتر سمجھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ اب اگر بی جے پی یہ کہتی ہے کہ کانگریس مسلمانوںکی پارٹی ہے ، قطعی طور پر لغور اور بے معنی بات ہے۔ آج بھی جبکہ بی جے پی اقتدار میں ہے ہندوستانی قوم کو دوبارہ انتشار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ جس طرح کانگریس کا یہ کہنا غلط ہے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے ۔ کانگریس پر مسلمانوں کا اتنا ہی اثر ہے (جو بے شک موجودہ حکومت کبھی بھول نہیں سکتی) کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی ہے جس کی تائید عام طور پر مسلمان کرتے ہیں۔ بدبختی کی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد کوئی ایسی متبادل جماعت مسلمانوں کو نہیں ملی جو سیکولر اور جمہوریت پر ایقان رکھے ۔ کانگریس کم از کم سیکولرازم کا علم تھامے ہوئے ہے۔ حالانکہ خود کانگریس پا رٹی بھی اس غلط فہمی کا شکار بنی رہی کہ ہندوستانی مسلمان صرف کانگریس ہی کو ووٹ دیں گے ۔ آزادی کی تحریک میں جس طرح سے مولانا آزاد ، حکیم اجمل خان اور اس قبیل کے دیگر مسلمان لیڈروں نے بھی آزادی کے بعد مسلمانوں میں کوئی قیادت نہیں ابھری اور بی جے پی کا زور چلنا شروع کیا ۔ ہندوستان میں کوئی سیکولر جماعت بنانے اور سارے ہندوستان میں اس کا وجود برقرار رکھنے کی طاقت نہیں ہے اور آج بھی مسلمان کسی اپنی پارٹی کی غیاب کی وجہ سے زیادہ تر کانگریس ہی کو ووٹ دیتے ہیں۔ بی جے پی اسی مسلم ووٹ بینک کو اپنانے کی کوشش شروع کردی۔ کانگریس مسلمانوں کی خالصتاً تائید اپنی مجبوری کی وجہ سے کرتی ہے ، کانگریس کو یہ ہمت ہے کہ مسلم ووٹ اس کی بقاء کیلئے ضروری ہے، اس لئے وہ خود کو مسلمانوں کی پارٹی کہلانے کی اہل سمجھنے لگی ہے ۔ حالانکہ سیکولرازم پر بھی اب مسلمانوں کا اثر وہ اعتمادنہیں رہا ۔ آزادی کے بعداپنے قول و فعل میں گہرے فرق کی وجہ سے مسلم ووٹ بینک بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔