برکھا دت
کاؤ ویجلینٹ (گاؤ رکھشک) دائیں بازو کے ہجومی قاتلین کے لئے کسی مسلم کو قتل کرنا نہایت ہی آسان کام ہوگیا ہے جس کے لئے وہ ’’گائے کے احترام‘‘ کے نام پر ملک اور قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان جذبات کا ٹیلی ویژن پر کچھ دن قبل ’’پرائم ٹائم‘‘ میں اظہار کیا گیا تھا۔ جبکہ میڈیا میں ہم نے اسے ’’ویجلینٹ ازم‘‘ کا نام دیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ان کا قتل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ مباحث میں ’’گائے کا گوشت کھانے‘‘ پر بحث کی گئی جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں لاکھوں ہندوستانی گائے کی پوجا کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے) حقیقت یہ ہے کہ افواہ اور دیگر عوامل کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہلاک کیا جارہا ہے اور وہ بھی ایسے سادہ لوح مسلمانوں کو جو مویشیوں اور بکریوں کی تجارت پر گزر بسر کرتے ہیں یا پھر وہ ڈیری صنعت اور چمڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ چند دن قبل 28 سالہ اکبر خان کو مغربی ریاست الور (راجستھان) میں ہلاک کردیا گیا تھا اور ہلاک کرنے والے ظالموں نے اُس پر گائے کا اسمگلر ہونے کا الزام لگایا تھا۔
اُس کی ہلاکت نے ہندوستان کو صحیح معنوں میں ہندوستان کی ریاستوں کو ’’گاؤ رکھشکوں کے ہجومی حملوں‘‘ کا گڑھ بنادیا۔
لرزہ خیز تفصیلات میں جو پولیس کے بارے میں افشاء ہوئی ہیں جو زخمی اکبر خان جو خون میں لُت پُت تھا ، اُسے ہاسپٹل لے جانے کے لئے 3 گھنٹے لگے اس لئے کہ انھیں (پولیس) ’’چائے کا وقفہ‘‘ لینا تھا۔ اس سے بھی پہلے (بہادر) پولیس کو گائے کو شیلٹر پر پہنچانا تھا۔ جب کہ اس کے زخموں سے تواتر کے ساتھ خون بہہ رہا تھا۔
عینی شاہدین کی گواہی کے بموجب نہ صرف مذکورہ بالا مظالم کیا کم تھے کہ پولیس نے لہو لہان اکبر خان کو بے انتہا مارا پیٹا۔ بہرحال پولیس کاہلی، تساہل اور مجرمانہ غفلت اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے چشم پوشی نے راجستھان پولیس کے اکبر خان کے خون سے آلودہ ہیں۔
لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ پولیس کی مجرمانہ اور پیشہ وارانہ بددیانتی کی وجہ سے ہورہا ہے تو آپ کا خیال بالکل غلط ہے۔ بلکہ اس سارے معاملہ میں قانون ساز اور قانون داں اصل مجرمین ہیں جو برسر اقتدار بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ان ظالم گاؤ رکھشکوں کے دفاع میں آگے آتے ہیں۔ جیسا کہ گیان دیوا اہوجہ جو مقامی بی جے پی لیجسلیچر ہے، حلقہ اسمبلی الور سے تعلق ہے، اُس نے اکبر خان کی موت پر ردعمل دیتے ہوئے اس کے ہم مزاج گاؤ رکھشکوں کی تائید کی۔
اکبر خان کے ایک خاص دوست اسلم نے پولیس سے کہاکہ اکبر پر حملہ کرنے والوں میں سے ایک ’’اہوجا‘‘ نے شیخی بگھاری کہ اُس کو کوئی ’’چھو‘‘ بھی نہیں سکتا کہ اس کی پشت پر مقامی لیجسلیچر کا ہاتھ ہے (سرپرستی میں ہے۔)اُس وقت سے ظالم اہوجہ نے اکبر خان کی موت کی ذمہ داری پولیس پر تھوپ دی۔ وہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے کاموں میں ملوث رہا ہے۔
گزشتہ سال ’’پہلو خان‘‘ جو الور کا ڈیری کسان تھا، اُسے بھی ہجومی قاتلین نے گائے کی اسمگلنگ کے جھوٹے اور دروغ گوئی پر مبنی الزام میں موت کی آغوش میں پہنچادیا۔ اُس وقت بھی ،اہوجا نے ان ہجومی قاتلین کی حمایت کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ ان جیسے یعنی پہلو خان جیسے بقول اہجوہ کے گناہ گاروں کا یہی انجام ہونا چاہئے۔ اُس نے وقت دیگر کو بھی یہی دھمکی دی کہ پہلو خان جیسا ہی ان کا حشر کیا جائے گا۔
اہوجا کو چھوڑیئے، اُسے ایک ’’فربج قائد‘‘ کی حیثیت سے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ہم یہاں بات کریں گے اندریش کمار کی جو سینئر آر ایس ایس سرگرم کارکن ہے جو بی جے پی کی اصل دھارا سے تعلق رکھتا ہے۔ اُس نے اکبر خان کی ہلاکت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کو خود اپنی حفاظت کرنی چاہئے۔ جس کا حل اُس نے پیش کیاکہ ’’مسلمان گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیں، ہجومی قتل‘‘ خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ ابھی اس کے الفاظ کی بازگشت ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے فوراً اس کی تائید کی، جو نریندر مودی، وزیراعظم کے کابینی رفیق ہیں۔
وزیراعظم مودی کے دوسرے کابینی رفیق جیئنت سنہا جو امدیار نیٹ ورک کے سابق ہیڈ برائے ہند نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر ان ملزمین کو پھول مالا پہناکر تہنیت پیش کی جس کی تصویر کشی کی گئی جو سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلیں۔
جنھیں عدالت نے الزام ثابت ہونے پر سزائے عمر قید سنائی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک مسلمان کو محض گائے اسمگلر ہونے کے شبہ میں مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔ انھیں محض ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر مودی ان قائدین کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کرتے؟ یا کم ازکم ان (معاون ملزمین) قائدین کا نام لے کر ان کو تنبیہ کیوں نہیں کرتے؟
یہ ضرور ہے کہ مودی نے ایک سے زائد بار گاؤ رکھشکوں کو (بظاہر) تشدد پر ان کی مذمت کی۔ اب یہ سمجھنا ہے کہ آیا ان کی مذمت انتہائی نرم انداز کی ہے یا ان کے کارکن ان کی دھمکی یا مذمت کو ہلکا سمجھ رہے ہیں۔ وزیراعظم مودی ایک طاقتور سیاسی شخصیت ہیں جو حکومت اور اپنی پارٹی پر آہنی شکنجہ کسے رکھتے ہیں، تو پھر ہم یہ کیسے یقین کرلیں کہ وزیراعظم مودی کے پیغام کو کوئی کیسے نظرانداز کرنے کی ہمت کرسکتا ہے۔
آخر کیوں مودی ان گاؤ رکھشا کے نام پر قتل کرنے والوں پر حکومت کرنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں یہاں تک کہ خود ان کی پارٹی میں ان گاؤ رکھشک دہشت گردوں کے حمایتی اور محافظین ہیں جب تک وزیراعظم مودی ان پر اپنا قانونی آہنی شکنجہ صحیح معنوں میں نہیں کسیں گے، اُس وقت تک بی جے پی قائدین ان ہجومی قاتلین کے ہاتھوں ہندوستانی مسلمانوں کی ہلاکت روک نہیں سکیں گے اور یہ اُس وقت تک جاری رہے گا۔
اس سلسلہ میں جو اعداد و شمار آئے ہیں وہ وزیراعظم مودی کو عالمی سطح پر شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہیں جنھوں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو عالمی سطح پر روشناس کروایا ہے۔ گزشتہ سال کی تجزیاتی رپورٹ میں ریسرچ گروپ انڈیا اسپنڈ نے پیش کیاکہ 2010 ء تا 2017 ء تک میں گائے سے متعلق دہشت گردی کے 97 واقعات ہوئے ہیں جبکہ 2014 ء میں مودی کی حکومت برسر اقتدار آئی تھی۔
اور ان سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ یہ دہشت گردی بی جے پی کی اپنی ریاستی حکومتوں میں انجام پذیر ہوئے جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔ ٹھیک ہے کہ تمام ہندوستانی مسلمان گائے کا گوشت نہیں کھاتے۔ اسے علاقائی اور تہذیبی تناظر میں جانچا جانا چاہئے۔
کئی سروے میں یہ پایا گیا کہ 12.5 ملین ہندو اُن 80 ملین ہندوستانیوں میں شامل ہیں جو گائے یا بھینس کا گوشت کھاتے ہیں۔
جبکہ مودی حکومت شمال مشرقی علاقوں و ریاستوں میں گائے کے گوشت کھانے پر کوئی اعتراض نہیں کرتی جیسے گوا، جہاں گائے کے گوشت کے مختلف لذت دار ڈشس کے مزے لئے جاتے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا گائے ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے؟‘‘
سال 2015 ء میں محمد اخلاق جو ایک ہندوستان کے باوقار ادارہ ایرفورس عہدیدار کے والد تھے، اُسے اترپردیش میں قتل کردیا گیا۔ جہاں ہندوستان میں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اور سیاسی طور پر نہایت اہم سمجھی جاتی ہے۔ صرف افواہوں کی بنیاد پر کہ اُس کے گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ اُسے مار مار کر قتل کردیا گیا اور بی جے پی کے سیاست دانوں نے ان قاتلوں کی پرزور حمایت کی۔ اسی طرح سال 2016 ء میں مذکورہ ملزمین میں سے ایک ملزم کی موت پر جو صحت میں پیچیدگیاں آنے سے ہوئی تھیں اس کے کفن باکس کو ترنگے میں لپیٹا گیا۔
بی جے پی بزعم خود اپنے آپ کو برانڈ نیشنلزم کا نمائندہ کہتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس کی پارٹی کے ایک کارکن کو جس پر قتل کا الزام تھا اُس کے کفن باکس کو ترنگے میں لپیٹنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ یہ سراسر مخالف قوم حرکت ہے اور اس قاتل ملزم کی حمایت کرنے والے زعفرانی لباس میں ملبوس چیف منسٹر یوپی، یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں۔کیا اسے آنے والے انتخابات (2019)کی تیاری کا بڑا منصوبہ سمجھا جائے کہ مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے الیکشن میں کامیابی حاصل کی جائے۔
اب اگر مودی حقیقت میں دستور ہند کو صحیح معنوں میں مقدس کتاب سمجھتے ہیں تو انھیں ان ظالم دہشت گرد گاؤ رکھشکوں کو قانونی شکنجہ کستے ہوئے انھیں روکنا ہوگا جو ان کے ملک میں رہنے والے دیگر شہریوں سے نفرت کرتے ہیں۔
(دی واشنگٹن پوسٹ)