کیا مودی مسلمانوں کی اہمیت کے قائل ہوگئے

ظفر آغا
اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمان وزیر اعظم نریندر مودی سے خائف ہیں اور اس بات سے بھی قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس خوف کے جائز اسباب بھی ہیں، کیونکہ مودی جی کا گجرات دور مسلمانوں کو راس نہیں آیا۔ اس بات سے دنیا واقف ہے کہ گجرات کے بارے میں بی جے پی کا یہ کہنا ہے کہ وہاں 2002ء کے فسادات کے بعد کوئی فساد نہیں ہوا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گجراتی مسلمانوں نے جس قدر ترقی کی، اتنی ترقی دیگر ریاستوں کے مسلمانوں نے نہیں کی۔

یہ دعویٰ صحیح بھی ہوسکتا ہے کہ گجراتی مسلمان دیگر ریاستوں کے مقابل زیادہ ترقی یافتہ ہیں، لیکن کسی قوم کی ترقی کا پیمانہ محض دولت ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی قوم مستقل خوف کے سائے میں جی رہی ہے تو اس قوم کے لئے اس کی دولت اور ترقی دونوں ہی بے معنی ہیں۔ چنانچہ جب نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعظم ملک کا کاروبار سنبھالا تو سارے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ وہ اب اس ملک میں کتنے محفوظ ہیں؟ اور یہ خوف آج تک ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں سمایا ہوا ہے، جسے بے جا خوف نہیں کہا جاسکتا۔لیکن پچھلے چند دنوں میں مودی حکومت کی جانب سے جو اشارے ملے ہیں، وہ یقیناً اطمینان بخش ہیں۔ مسلمانوں میں حکومت سے متعلق اطمینان اور بھروسہ پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی کہا کہ ’’اب وہ تمام ہندوستانیوں کے وزیر اعظم ہیں اور وہ سب کے ساتھ انصاف کریں گے‘‘۔ یہ وزیر اعظم کی جانب سے پہلا اشارہ تھا، جو انھوں نے مسلمانوں کا نام لئے بغیر دیا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام بیان تھا،

اس لئے وزیر اعظم کے اس بیان سے حکومت وقت کی پالیسی کی سمت نہیں طے کی جاسکتی، اس لئے مودی جی کے پہلے بیان سے مسلمانوں کی دلجوئی نہیں ہوسکی۔ لیکن اس بیان کے بعد پالیسی کی سطح پر جو دوسرا اشارہ حکومت کی جانب سے آیا، وہ کسی اور نے نہیں، بلکہ خود صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی نے دیا۔ سب واقف ہیں کہ صدر مملکت سال میں ایک بار پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ممبران کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہیں اور یہ موقع حکومت وقت کے بجٹ سے پہلے ہوتا ہے۔ صدر مملکت اپنے اس خطبہ میں حکومت وقت کی سال بھر کی پالیسیوں کی سمت طے کرتے ہیں۔ چنانچہ صدر جمہوریہ کی یہ تقریر بہت اہمیت رکھتی ہے، جب کہ یہ خطبہ حکومت وقت کے پہلے بجٹ کے وقت دیا جائے۔ ابھی مودی حکومت کو اقتدار میں آئے چند ہفتے گزرے ہیں، جس کے بعد صدر جمہوریہ نے پارلیمنٹ میں اپنا رسمی خطبہ پڑھا، جس پر سارے ہندوستان کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ اس خطبہ میں صدر مملکت کی جانب سے پہلی بار مودی حکومت کی پالیسیوں کی سمت کا تعین کیا گیا۔ اقلیتی امور پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال تھا کہ اس خطبہ میں صدر مملکت کی جانب سے اقلیتوں کے لئے کوئی اہم بیان نہیں دیا جائے گا،

کیونکہ یہ بات عیاں ہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت نے بی جے پی کے خلاف ووٹ دیا ہے، لیکن اس کے باوجود صدر مملکت نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا خاص طورپر ذکر کیا، جو اس طرح تھا:’’یہ بدقسمتی ہے کہ آزادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی اقلیتی طبقہ غربت سے بدحال ہے اور سرکاری اسکیموں کے فائدے اقلیتوں تک نہیں پہنچتے۔ میری حکومت ہندوستان کی ترقی میں تمام اقلیتوں کو برابر کا حصہ دار بنانے کے لئے پابند ہے۔ حکومت اقلیتوں کو تکنیکی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ذرائع کو خاص طورپر کارگر بنائے گی اور قومی مدرسہ میں جدید کاری کے پروگرام کو شروع کرے گی‘‘۔ اسی کے ساتھ صدر جمہوریہ نے اپنی تقریر کے شروع میں یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ ’’حکومت تمام ہندوستانیوں کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملاکر کام کرے گی‘‘ یعنی مودی حکومت کی طرف سے پالیسی سطح پر صدر مملکت نے یہ اعلان کیا کہ مرکزی حکومت مذہب کی بنیاد پر یا حالیہ انتخابات میں مسلمانوں کی ووٹنگ کی نبیاد پر مسلمانوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گی، بلکہ حکومت وقت اقلیتوں کی ترقی کے لئے کام کرے گی۔ یعنی مودی حکومت نے اپنی کم از کم پالیسی کا صدر مملکت کے ذریعہ یہ اعلان کردیا ہے کہ حکومت وقت آئین کے سیکولر اصولوں پر قائم رہے گی۔ یقیناً یہ بیان انتہائی تشفی بخش تھا، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کو تقویت ملنی چاہئے۔

لیکن اس سے بھی اہم اشارہ مسلمانوں کے تعلق سے جو دیا گیا، وہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کا پارلیمنٹ میں باقاعدہ بیان تھا۔ جب صدر مملکت پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے خطبہ پر تمام پارٹیوں کی جانب سے دو روز تک بحث ہوتی ہے اور پھر اس بحث کے بعد وزیر اعظم تمام اپوزیشن جماعتوں کے ذریعہ اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ وزیر اعظم کی یہ تقریر بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جو نہایت غور سے سنی جاتی ہے۔ پھر نریندر مودی کا بحیثیت وزیر اعظم پارلیمنٹ میں یہ پہلا خطاب تھا، اس لئے اس پر بھی سب کی نگاہیں جمی ہوئی تھیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے ملک کے تمام افراد اور اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کی اپیل کی۔ وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریر میں اقلیتوں کی فلاح و بہبود کا خاص طورپر ذکر کیا۔ایک بات غور طلب یہ ہے کہ مودی سے قبل تمام وزرائے اعظم اپنی تقریر میں محض لفظ اقلیت استعمال کرتے تھے، جس کا مقصد عموماً مسلمان ہوتے تھے، لیکن نریندر مودی پہلے وزیر اعظم ہیں، جنھوں نے کھل کر لفظ ’’مسلمان‘‘ کے ساتھ خطاب کیا۔

انھوں نے اپنی پارلیمانی تقریر میں کہا کہ ’’جب میں چھوٹا تھا تو دیکھتا تھا کہ ایک مسلمان بھائی سائیکل ریپیرنگ کرتا تھا اور آج بھی اس کی تیسری نسل کا بیٹا بھی وہی کام انجام دے رہا ہے، لہذا ہمیں تبدیلی لانی ہوگی۔ کیونکہ جسم کا اگر ایک حصہ معذور ہو تو جسم صحت مند نہیں ہوسکتا۔ سماج کا کوئی ایک حصہ کمزور رہا تو سماج مضبوط نہیں ہوسکتا، اسی بنیادی جذبہ سے کام کرنا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی اقلیتی فرقہ غریبی سے متاثر ہے اور حکومت کی اسکیموں کا فائدہ اقلیتوں تک نہیں پہنچ پاتا، لہذا حکومت تمام اقلیتوں کو برابر کا شریک رکھنے کے لئے کاربند ہے‘‘۔نریندر مودی غالباً پہلے وزیر اعظم ہیں، جنھوں نے پارلیمنٹ کے اندر مسلمانوں کو ’’مسلمان‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ مسلمان تین نسل قبل ترقی کی دوڑ میں جتنے پیچھے تھے، آج بھی وہ وہیں ہیں، یعنی پہلے بھی وہ سائیکل بنانے کا کام کر رہے تھے اور آج ان کی تیسری نسل بھی وہی کام کر رہی ہے۔صدر مملکت اور وزیر اعظم کی جانب سے آنے والے یہ دونوں بیانات یقیناً اطمینان بخش ہیں۔ گو صدر محترم اور وزیر اعظم دونوں حضرات نے اپنی تقریر میں کہیں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا، لیکن جس طرح دونوں نے ملک کی پوری آبادی اور تمام ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کی بات کی ہے

اور خاص طورپر اقلیتوں اور مسلم اقلیت کی ترقی کا جو وعدہ کیا ہے، وہ اس بات کا اعلان ہے کہ مودی حکومت پالیسی کی سطح پر آئین کے سیکولر اصولوں کی پابند رہے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر سے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ان کو ذاتی طورپر مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا احساس ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا، جو ایک حقیقت ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں مسلمانوں کی ترقی کا یقین دلایا ہے، وہ کافی اطمینان بخش ہے اور صدر و وزیر اعظم کی تقاریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان مودی حکومت کے نشانے پر نہیں ہیں۔لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں کے دلوں میں اب بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ان شبہات کو تقویت فی الحال یوں بھی حاصل ہوئی کہ پونہ کے ایک بے قصور مسلم نوجوان کو ہندو انتہا پسندوں نے قتل کیا اور اس کے بعد سنگھ کے کچھ افراد نے انتہا پسند بیانات بھی دیئے، لہذا وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی حکومت کی جانب سے ان انتہا پسند عناصر کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ بقول وزیر اعظم ’’اگر جسم کا ایک حصہ کمزور ہو جائے تو سارے جسم کو نقصان ہو سکتا ہے‘‘۔ یعنی مسلمانوں کی ترقی میں ملک کی ترقی مضمر ہے، لہذا اس بات کو مدنظر رکھ کر حکومت اور مسلمان دونوں کو کام کرنا چاہئے۔