کیا مندر کی تعمیر اور ملک کی ترقی بیک وقت ممکن ہے ؟

کلدیپ نیر
بابری مسجد کے انہدام (1992) کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کو آزادی کے بعد پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ واقعتاً اقلیت میں ہیں ۔ مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم نے ان کے مستقبل پر بہتر اثر نہیں ڈالا ۔ لیکن جواہر لال نہرو کی لبرل دور حکمرانی اور دستور ہند ، جس نے سب کو مساوات اور برابری کا درجہ دیا ، ورنہ ماحول کہیں زیادہ دھماکو ہوسکتا تھا ۔ اور اس ملک کی مزید کئی تقسیم عمل میں آسکتی تھی ۔ کیونکہ مذہب کی بنیاد پر جو مہاجرت عمل میں آئی ، اس نے دلوں تک کو الگ کرکے رکھ دیا ۔ ایک ملین افراد اس وقت مار ڈالے گئے ۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا یہ اعلان کہ ملک میں رام مندر کی تعمیر 2019 تک عمل میں آجائے گی ، اس اعلان نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے ،کیونکہ مسلمانوں نے جو نقصان برداشت کیا ہے ، ابھی اس سے ہی نہیں خود کو چھٹکارا دلا پائے ہیں وہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں ، کیونکہ انھیں غار کے آخری حصے تک کہیں بھی روشنی کا نام و نشان نظر نہیں آتا ہے۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب وہاں ایک چھوٹا سا مندر تعمیر کیا گیا تو اس کے بعد کم ازکم یہ باب بالکل بند ہوچکا تھا ، لیکن اس باب کے بند ہونے کے بعد بھی مسلمانوں کو اطمینان کی سانس لینے کا موقع نہیں ملا ۔ انھیں اب اس معاملے میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں رہی ہے ، لیکن بی جے پی جو راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کی زیر رہنمائی کام کرتی ہے ، اب وہ 1992 جیسا ہی ماحول پھر پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت کے ذریعہ زبانی طور پر جمہوریت کا نعرہ لگانے سے سب سے زیادہ فائدہ ہندوتوا عناصر ہی کو ہوا ہے ۔وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوتوا عناصر کے ایجنڈوں کو کم کرنے کی کسی حد تک کوشش ضرور کی ہے ، لیکن ان کی پارٹی ان کے احکامات اور ان کی ہدایات پر عمل آوری نہیں کررہی ہے ۔ کیونکہ اس کا مقصد سماج کو بانٹ کر ماحول کو فرقہ وارانہ بنانا ہے اور وہ اس کام میں پوری طرح لگی ہوئی ہے ۔ اس وقت کوئی بھی باہری آدمی مداخلت نہیں کرسکتا تھا ۔ جب وقت کے اترپردیش کے وزیراعلی کلیان سنگھ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پابندی کرتے ،جس میں اس نے اسٹیٹس کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا ، لیکن کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل نہیں کی ۔ سیکولر سوسائٹی کو ’’ہندوتوانے‘‘ کی مہم ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے ۔ مذہب کی بنیاد پر کبھی بھی کسی ملک کو متحد نہیں کیا جاسکتا ہے ،جس کی مثال بنگلہ دیش کی ہے ، جو پاکستان سے علحدہ ہوگیا ۔ اس کی علحدگی مذہب کی بنیاد پر ہی ہوئی ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک برسوں سے اس لئے رہا ہے ،کیونکہ یہاں مختلف مذاہب ، تہذیب و ثقافت کے ماننے والوں کو کبھی بھی کوئی خطرہ نہیں رہا ہے ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ یہاں پر ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد ہے ، لیکن اقلیت خصوصاً مسلمانوں نے کبھی بھی خود کو خطرے میں محسوس نہیں کیا ہے بجز ان شرپسند عناصر کی دھمکیوں کے ، جو انھیں ہر وقت ڈراتے دھمکاتے رہتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کے لوگوں کو بائیں بازو کی جماعتوں کی وجہ سے کافی فائدہ حاصل ہوا ہے ، لیکن کمیونسٹ پارٹی کے مغربی بنگال میں 25 سالہ دور اقتدار کے باوجود اسے اس کی آئیڈیالوجی کے باعث شکست کا سامنا کرنا پڑا ، کیونکہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہی ۔ 25 سالہ دور اقتدار میں بھی وہاں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی شرح محض 2.5 فیصد ہی رہی ۔ اگر آر ایس ایس واقعی ہندوتوا میں یقین رکھتی ہے ، تو اسے چاہئے کہ وہ دلتوں کے حقوق کے لئے بھی لڑائی لڑے ، جو دوسرے مذاہب کو قبول کئے جانے کے خطرات سے دوچار ہیں ۔ جنھیں جبراً دوسرے مذہب میں داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جنھیں بھید بھاؤ اور چھوا چھوت کا سامنا ہے ۔ جنھیں سماج آج بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور جنھیں آج بھی ترقی کے مواقع سے محروم کئے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔

لیکن ہندوتوا جماعتیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے تئیں اپنے منفی نظریات سے نفرت کا ماحول پیدا کررہی ہیں ۔ وہ دلت جو اپنے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اپنارہے ہیں ، انھیں وہاں بھی اسی طرح بھید بھاؤ اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ آر ایس ایس سربراہ ہندوؤں کے تئیں کافی حساس نظریہ رکھتے ہیں ۔ وہ ہندوؤں کے بارے میں کافی فکرمند ہیں اور خاص طور پر ہندوتوا کو فروغ دینے میں سرگرم عمل ہیں ، لیکن انھیں دلتوں کو جلائے جانے پر کسی قسم کا افسوس نہیں ،کیونکہ ان کی توجہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے بکروں پر ہمیشہ رہتی ہے ۔ اب جبکہ مودی اس ملک کے سربراہ بن چکے ہیں ، تو انھیں چاہئے کہ وہ دلتوں کے حقوق کی پاسداری کے لئے اہم اقدامات کریں اور وہ اونچی ذات والوں سے یہ بات کہیں کہ اب وہ دلتوں کے ساتھ بھید بھاؤ کرنا بندکریں ۔ ان کے ساتھ امتیاز برتنا اب چھوڑدیں ۔

میں نے مودی یا ان کے پیروکاروں کی جانب سے اس طرح کی کوئی تنقید کرتے ہوئے نہیں سنا جس میں وہ کہتے سنے گئے ہوں گے کہ وہ ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں جہاں بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اگر دلتوں کے جلائے جانے کے واقعات کو کم از کم دوردرشن پر ہی دکھایا جاتا تو لوگوں کو اندازہ ہوتا کہ آج بھی دلتوں کے ساتھ کس طرح کا ظلم روا رکھا جارہا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت خود ہی اس مسئلے میں کوئی دلچسپی لینا نہیں چاہتی ہے اور نہ ہی وہ دلتوں کوکوئی اہمیت دینا چاہتی ہے ۔ وہ دلتوں کے مسائل اٹھانا نہیں چاہتی بلکہ وہ تویہ چاہتی ہے کہ دلت یوں ہی ستائے جاتے رہیں اور اونچی ذات والوں کی چاندی بنی رہے ۔ وہ اونچی ذات والوں کی خدمت میں لگے رہیں ۔ ان پر اونچی ذات والوں کا تسلط برقرار رہے ۔ لیکن جس طرح کے حالات ملک میں پیدا ہوچکے ہیں اور جس طرح دلتوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہاں غیر تحریری قانون کام کررہا ہے جس کے ذریعے اس طرح کی کہانیاں وجود میں آرہی ہیں اور جن کو منظر عام پر نہیں لایا جارہا ہے ۔ کیا یہ پریس کی آزادی کے مغائر نہیں ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جس طرح ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور جس طرح دلتوں کو ستایا جارہا ہے ، جس طرح مسلمانوں کے ساتھ سلوک روا رکھا جارہا ہے ، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ مودی حکومت صرف ایک خاص طبقے اور ایک خاص نظریئے کی حامل جماعت کی حکومت بن گئی ہے ، جو ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے خطرہ کا باعث ہے ۔