کیا مسلمانوں کے پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ظفر آغا
تاریخی حقیقت یہی ہے کہ پچھلے دو ڈھائی سو برسوں میں مسلمان ہر سیاسی جنگ ہارے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ 1757ء میں پلاسی کے میدان میں جب نواب سراج الدولہ، لارڈ کلائیو کے ہاتھوں بنگال ہارے تو اس کے بعد سے اب تک مسلمان کو کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کبھی مسلمان مشرق میں بنگال ہارے تو کبھی دکن میں ٹیپو سلطان کو انگریزوں نے شہید کردیا۔ کبھی نواب واجد علی شاہ کو اودھ کا تاج انگریزوں کو سونپنا پڑا۔ پھر آخر میں ہندوستانی مسلمانوں کی شان و شوکت کی نشانی مغل شاہوں کی آبرو بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے غلام بنا کر لال قلعہ پر اپنا پرچم لہرادیا۔ اس طرح مغلیہ دور کا خاتمہ ہوا، جس میں مسلم شاہوں نے اس ملک کو ایک سپر پاور کا درجہ دیا تھا۔ مغلیہ دور کے دہلی، آگرہ، میسور، حیدر آباد اور لکھنؤ کا رتبہ آج کے لندن، واشنگٹن، ٹوکیو اور بیجنگ جیسے شہروں سے کم نہیں تھا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً سو برسوں کے اندر نہ صرف یہ شہر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے، بلکہ پورا ہندوستان ہی غلام ہوگیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کا جو زوال شروع ہوا تو آج تک کہیں عروج کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔

خیر یہ تو رہا شاہوں کے دور کے زوال کا حال، اب ذرا دور جدید جس کی شروعات جنگ آزادی سے ہوئی ہے، اس پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجئے!۔ گاندھی جی کی قیادت میں جنگ آزادی 1920ء کی دہائی میں عوامی سطح پر شروع ہوئی اور کانگریس پارٹی متحدہ ہندوستان کی آواز بن گئی۔ یہ وہ دور تھا، جب کانگریس میں اور کانگریس کے باہر فکری سطح پر یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ آزادی کے بعد اس ملک کا کیا نقشہ ہو گا؟۔ ایک فکر کانگریس کی تھی، جو دور جدید کے سیاسی نظریات سے متاثر ہوکر سیکولرزم کا پرچم بلند کئے ہوئے تھی، جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو آزادی کے بعد برابری کادرجہ دیئے جانے کا خیال تھا، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہندوؤں میں ایک گروہ جس کی قیادت اس وقت ہندو مہا سبھا کر رہی تھی، اس کی فکر یہ تھی کہ آزادی کے بعد ملک کی باگ ڈور اس ملک کی اکثریت یعنی ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے۔ اس فکر کی سنگ بنیاد مشہور ناول ’’آنند مٹھ‘‘ (جس میں وندے ماترم کا ذکر ہے) میں نظرآتی ہے۔ الغرض ہندو مہا سبھا کا اثر مدن موہن مالویہ جیسے کانگریسی لیڈروں کے ایک گروہ پر بھی تھا۔ آہستہ آہستہ اس نظریہ نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا روپ دھار لیا۔ آر ایس ایس، مسلمانوں کا انگریز سے بڑا دشمن تھا اور آج بھی ہے۔ آر ایس ایس کا نظریہ محض یہ نہیں تھا کہ آزادی کے بعد ملک کا نظام ہندوؤں کے ہاتھوں میں آنا چاہئے، بلکہ سنگھ کا یہ اعلان تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور ہندوؤں کو غلام بنایا، اسی طرح آزادی کے بعد سنگھ، مسلمانوں کو غلام بناکر دوسرے درجے کا شہری سمجھے گا اور آزاد ہندوستان ایک ہندو راشٹریہ ہوگا۔

ظاہر ہے کہ اس پس منظر میں آزادی سے قبل مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہونی لازمی تھی۔ اس کا جواب مسلمان نے مسلم لیگ بناکر محمد علی جناح کی قیادت میں یہ دیا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کو ان کا حق ملنا چاہئے اور آخر میں جناح صاحب نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ ہم کو بٹوارا کرکے پاکستان دیا جائے۔ پس اس طرح جناح صاحب نے بر صغیر کے مسلمانوں بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی کمر توڑدی۔ پاکستان ایک مسلم ملک بنا، جس کا 1972ء میں بٹوارا ہوگیا اور اس طرح بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ آج یہ عالم ہے کہ پاکستانیوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کب کسی بم دھماکہ میں مار دییئے جائیں۔ الغرض پاکستان بنا کر جناح صاحب ہندوستانی مسلمانوں کے ایک حصہ کو امریکیوں کی غلامی اور جہادیوں کے سائے میں چھوڑ گئے۔ بنگلہ دیش مسلم انتہا پسندوں اور سیکولر مزاج سیاست دانوں کے درمیان خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اب رہے ہندوستانی مسلمان تو بٹوارے کے بعد وہ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر ہند کی سب سے بڑی مسلم آبادی بٹوارے کے بعد بھی ہندوستان میں رہی۔ اب جب ہندوستانی مسلمانوں نے آزاد ہندوستان میں اپنا حق مانگا تو سنگھ کی قیادت میں ہندو فرقہ پرستوں نے مسلمانوں سے یہ سوال کیا: ’’کیسا حق؟ کس چیز کی برابری؟ تم نے تو بٹوارا کرکے اپنا حصہ پاکستان کی شکل میں لے لیا۔ اب حصہ چاہئے تو پاکستان جاؤ‘‘۔ چنانچہ جب کہیں فسادات ہوئے تو دنگائیوں نے یہ نعرہ لگا یا ’’اے پاکستانیو، پاکستان جاؤ‘‘۔ الغرض جناح صاحب ہندوستانی مسلمانوں کو بے دست و پا چھوڑ گئے۔ اس کے بعد فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور دوسری جانب بے یار و مددگار مسلمان تھے، جن کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں۔ بھاگ بھاگ کر وہ کانگریس کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کرتے، لیکن وہاں بھی مدن موہن مالویہ اور سردار پٹیل جیسے لوگ مسلمانوں کے نام پر کچھ دینے کے لئے راضی نہیں تھے۔ الغرض اس کسمپرسی میں 1947ء سے لے کر 1990ء کی دہائی کا شروعاتی دور گزرا، جس میں مسلمانوں کی معاشی حالت آہستہ آہستہ دلتوں سے بھی بد تر ہوگئی۔

1990ء کی دہائی کی شروعات میں وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے پسماندہ طبقات کے لئے سرکاری ملازمتوں میں منڈل سفارشات نافذ کرکے کوٹہ مقرر کردیا، جس کے بعد ہندو سماج ہزاروں سال سے چلی آرہی ذات پات کی نا انصافی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا۔ پسماندہ طبقات اوردلت ریاستی اقتدار پر ملائم سنگھ، لالو پرساد، مایاوتی اور چندرا بابو نائیڈو جیسے لیڈروں کے پرچم تلے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ ہندوستانی نظام اور سماج سے اعلیٰ ذاتوں کا قبضہ نکلنا شروع ہو گیا۔ تاہم اس کے بعد سنگھ نے اڈوانی کو بی جے پی کا پرچم دے کر رتھ یاترا نکال دی۔ بس سارا ہندوستان ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کے نعروں سے گونچ اٹھا۔ پسماندہ، دلت اور اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے درمیان جو جنگ چھڑی تھی، وہ راتوں رات بابری مسجد۔ رام مندر کی صورت میں ہندو۔ مسلم شکل اختیار کرگئی، جس کا اثر یہ ہوا کہ وشوا ہندو پریشد اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے درمیان صف بندی شروع ہوگئی۔ ایک طرف مسلمانوں نے نعرۂ تکبیر کی صدا بلند کی اور دوسری جانب جے سری رام کے نعرے لگنے لگے۔ آخر6 دسمبر 1992ء کو جے سری رام کی گونج میں بابری مسجد شہید کردی گئی۔

جس طرح اگست 1947ء میں جناح صاحب ہندوستانی مسلمانوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر پاکستان چلے گئے تھے، اسی طرح 6 دسبمر کے بعد بابری مسجد کی حفاظت میں اپنی جان قربان کر نے کا وعدہ کرنے والے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ممبران بھی لاپتہ ہو گئے، جب کہ ہندوستانی مسلمان فرقہ پرستوں کے ہاتھوں تباہ اور ہلاک ہوتے رہے۔ اس طرح مسلمان صرف بابری مسجد ہی نہیں ہارے، بلکہ ایودھیا میں رام مندر کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ سنگھ نے اس ملک میں ہندو راشٹر کی باقاعدہ بنیاد بھی رکھ دی اور اب نریندر مودی اپنے گجرات ماڈل کے ساتھ ہندوستان کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔گجرات ماڈل کیا ہے اور کیسا ہے، ہم اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں۔ ہندوستان کس جانب گامزن ہے؟ اس کا خدو خال بی جے پی کے 2014ء کے مینی فیسٹو میں صاف جھلک رہا ہے۔ یعنی اب سنگھ کا ہندو راشٹر کا خواب پورا ہوا چاہتا ہے۔

دوسری جانب ہندوستانی مسلمان ہیں، جو اب تک ہر سیاسی جنگ ہا رے ہیں۔ 1857ء میں اقتدار کھویا، 1947ء میں بٹوارا کرکے معاشی غلامی کا شکار ہوئے اور 1990ء کی دہائی سے اب تک دوسرے درجے کے شہری کی حد تک پہنچ گئے۔ کیا ان تمام شکستوں کا ذمہ دار محض ہندو، سنگھ پریوار، اڈوانی اور مودی ہیں؟۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ماضی میں کونسا سنگھ یا کونسے مودی تھے، جو مسلمانوں کے خلاف سازش رچ رہے تھے؟۔ اس وقت خود ہماری صفوں میں میر جعفر و میر صادق موجود تھے، جو مسلمانوں کو ناکامی کی منزل تک پہنچا رہے تھے اور آج بھی وہی میر جعفر و میر صادق ہیں، جو مسلمانوں کو اس نوبت تک پہنچا رہے ہیں۔ آج کے میر جعفر میر صادق یہ خود ساختہ قائد ملت ہیں، جو مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں، لیکن یہ اپنے مقصد میں صرف اس لئے کامیاب ہیں کہ خود مسلمان کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ ہر سیاسی موڑ پر صحیح فیصلہ لینے سے قاصر ہیں۔ جب تک ہم مسلمان خود صحیح فیصلہ لینے کے اہل ثابت نہیں ہوں گے، اس وقت تک ہماری سیاسی ابتری کا یہی حال ہوگا اور ہماری صف میں موجود میر جعفر و میر صادق اسی طرح ہمیں نقصان پہنچاتے رہیں گے۔