غضنفر علی خان
ملک کے سیاسی اُفق پر آج کل وزیر اعظم نریندر مودی کی راہول گاندھی سے مقابلہ آرائی ہورہی ہے یہ بحث اتنی طویل ہے کہ اس کو رقم کرنے کے لئے کتاب بھی لگ جاتی ہے۔ مسئلہ شخصیتوں کا نہیں بلکہ دو قومی سیاسی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کے نظریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ نہرو۔ گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی اور آر ایس ایس کے متضاد نظریات سے ہے۔ مودی ایسے مکتب خیال کے ماننے والوں میں سے ہیں جو ہندوستان میں ایک فرقہ کی حکومت کی شکیل کے خواب دیکھ رہا ہے جبکہ راہول گاندھی وسیع تر مفادات اور پارلیمانی جمہوریت کی تشکیل کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ نہرو ۔ گاندھی خاندان سے سارا ہندوستان واقف ہے یہی خاندان نے ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم کی بنیاد رکھی تھی اور ان ہی بنیادوں پر ملک چل رہا ہے، جہاں نفرت اور تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس ملک کے دستور اور قوانین کو جس پر بی جے پی کو چلنا ہوگا وہ ان نظریات کو ختم کرنے اور سیکولر ہندوستان کو ’’ ہندو راشٹر‘‘ میں بدلنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کے نظریات، مسلم دشمنی اور مذہبی اساس پر ایک ہی عقیدہ کے حامل افراد کو اقتدار دلانے کے لئے پوری کوشش کررہی ہے، بی جے پی اپنے اس ایجنڈے کو بڑی چابک دستی اور ہوشیاری سے نافذ کررہی ہے۔ دوسری طرف راہول گاندھی ہیں جو ملک کی مذہبی اساس پر تقسیم کے ناپاک عمل کو روکنے کی کوشش میں ہیں۔ اس وقت یہ دونوں لیڈر ہی کے نام ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے دو متضاد نظریات میں جاری کشمکش کو میڈیا بھی بڑی اہمیت دے رہا ہے۔ جہاں تک عوامی مقبولیت کا مسئلہ ہے بے شک نریندر مودی‘ راہول گاندھی سے بہت آگے ہیں۔ ماضی کے عظیم ورثہ سے کانگریس پارٹی اقتدار کے لئے ہونے والی اس جنگ میں برابر کی شریک ہے، بلکہ زیادہ صحیح بات تو یہ ہے کہ سکولر فکر اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے کانگریس پارٹی کے علاوہ اور پارٹیاں بھی اس جنگ میں حصہ لے رہی ہیں، بلکہ روشن خیال اور سیکولر ازم پر پختہ ایقان رکھنے والے لیڈر اور عوام نے آر ایس ایس کے نظریات صف آرائی بھی کرلی ہے۔
تما م اپوزیشن پارٹیاں جو کسی مخصوص فکر کے نفاذ کی مخالف ہیں یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ سیکولرازم کے سخت مخالف افراد ابھی تک کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے ہیں۔ کانگریس سبھی پارٹیاں اپنا ایک محاذ یا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ لیکن ہر ایسی پارٹی میں قومی سطح پر کوئی لیڈر دکھائی نہیں دیتا۔ ان ہی دنوں میں راہول گاندھی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سے راہول گاندھی نے اس محاذ ( عوامی مقبولیت ) پر اپنے قدم جمالیئے ہیں۔ کانگریس اور آر ایس ایس کے علاوہ دوسری پارٹیاں بھی ایسی کسی لیڈر شپ کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہیں۔ راہول گاندھی اور مودی کا مقابلہ کیا جائے تو فی الحال یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آج کی سیاسی بساط پر صرف دو ہی ناموں کا ذکر ہورہا ہے، دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں کو عیاں کرنے کی کوشش میں چند اہم اُصولوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔
کرناٹک میں اسمبلی انتخابات میں یہی دونوں پارٹیاں ہر اچھی یا ہر بری باتوں کو اُجاگر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جدوجہد کررہی ہیں۔ مودی کی مقبولیت میں بھی کمی ہوگئی اور اس کمی کا راست فائدہ راہول گاندھی کو مل رہا ہے جو مودی سے زیادہ مطمئن دیکھے جارہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی تمام کوششوں کے باوجود ’’ ہنوز دیر دور‘‘ کی کیفیت ہے۔ اگر یہ محاذ بنتا ہے تو دو صورتیں ہی رہیں گی کہ آیانریندر مودی وزیر اعظم کا عہدہ محفوظ رکھنے کی کوشش میں ہیں لیکن اس مقابلہ میں بلاشبہ راہول گاندھی اور ان کی کانگریس پارٹی اقتدار اور وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے اپنی پوری طاقت لگارہے ہیں جس کی وجہ کرناٹک کے نتائج کو اہمیت دی جارہی ہے۔ صورتحال نئی نہیں ہے کچھ ایسی ہی کوشش چند ماہ قبل گجرات میں بھی دیکھی گئی تھی جس میں راہول گاندھی کی قیادت میں قابل لحاظ ترقی دیکھی گئی تھی۔ یہ بات اور ہے کہ راہول گاندھی کانگریس پارٹی کو اقتدار تو نہیں دلاسکے تھے لیکن اپنے اور اپنی پارٹی کو نیا قد دینے میں کامیاب رہے تھے۔
گجرات کے اسمبلی چناؤ میں راہول گاندھی کی شخصیت کو وہ درجہ دیا ہے اور اب وہ پہلے سے زیادہ بالغ النظر والے لیڈر بن گئے ہیں، کوئی اور ان سے زیادہ قدوقامت کا لیڈر اپوزیشن میں دکھائی نہیں دیتا۔ شخصی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کی سطح پر راہول گاندھی اب ثابت کرچکے ہیں کہ کانگریس پارٹی نے ہی سیکولر نظریات اور فرقہ پرستی کے درمیان مقابلہ آرائی کو ایک نئی جہت دی ہے وہ ملک کے بڑے لیڈروں میں شامل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کوششوں سے یہ فرق پیدا کردیا ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں ایک سیکولر محاذ بنانے میں کامیاب ہوجائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ تاثر بھی دیں کہ سیکولر محاذ کے لیڈر راہول گاندھی ہی ہوں گے تو ان طاقتوں کو کامیابی مل سکتی ہے۔ اس سچ سے خود کانگریس پارٹی بھی انکار نہیں کرسکتی ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی کا سورج 2019 سیاست سے ہوسکتا ہے۔لیکن دونوں بڑی سخت قسم کی شرطیں ہیں۔ تمام پارٹیوں کا ایک پلیٹ فارم بنانے کا تجربہ ملک کی سیاست میں نئی بات نہیں ہے۔ 1970-71 کے دوران بھی تمام اپوزیشن پارٹیوں کو آنجہانی جے پرکاش نارائن کی قیادت میںمتحد ہونے کاکامیاب تجربہ ہوا تھا ۔ اگر اب اس مرتبہ بھی وہی جذبہ کارفرما ہو تو کوئی بات ہوسکتی ہے۔صرف یہ سوچنا چاہیئے کہ سیاسی پارٹیوں کی کامیابی ان کے اتحاد میں ہی ہے لیکن اس مرتبہ ان پارٹیوں کے پاس کوئی جے پرکاش نارائن نہیں ہے۔ اس خلاء کو کیسے پُر کیا جائے، سیکولر پارٹیوں کو یہ سوچنا پڑیگا۔ اگر یہ صورتحال پیدا ہوجائے اور اپوزیشن جماعتیں ایک سیکولر پلیٹ فارم پر آجائیں تو نریندر مودی اور بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھا جاسکتا ہے اور راہول گاندھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ ایسا ہونے کیلئے ہر سیکولر پارٹی کو اپنی تشکیل کے بعد ہی یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ وزارت عظمیٰ کیلئے راہول گاندھی مستحق لیڈر ہیں۔