کیا جیلوں میں محروس نوجوان محفوظ ہیں ؟ ( آلیر فرضی انکاؤنٹر کے پس منظر میں سوالات )

ایس ایم بلال
ہم کس ماحول میں زندگی گذار رہے ہیں ؟ ۔ کیا اب وردی پہن کر جنگل کا قانون رائج کیا جاسکتا ہے ؟ ۔ کیا اب مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد پولیس کی تحویل میں اور جیلوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں ؟ ۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر شخص کی زبان پر ہیں ۔ یہ سوال بلا وجہ بھی پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ تلنگانہ پولیس نے عملًا انتقامی کارروائی کرتے ہوئے پانچ زیر دریافت مسلم نوجوانوں کو ورنگل سے حیدرآباد عدالت منتقل کرتے ہوئے جس طرح سے آلیر کے قریب فرضی انکاؤنٹر میں موت کی نیند سلادیا ہے اس کے بعد یہ سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ آیا اب مقدمات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کو عدالت کے فیصلے سے قبل بھی پولیس موت کی نیند سلا سکتی ہے ؟ ۔نہ صرف ریاست تلنگانہ میں بلکہ سارے ملک میں ہزاروں افراد مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مقدمات مختلف مراحل میں ہیں اور کئی مقدمات ایسے بھی ہیں جہاں فیصلے عنقریب ہونے والے ہیں اور ان فیصلوں میں ملزمین کے بچ جانے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ کیا ایسے میں پولیس محض نوجوانوں کی براء ت کے امکانات کے پیش نظر انہیں موت کی نیند سلاسکتی ہے ؟ ۔ آلیر میں کی گئی کارروائی کو انکاؤنٹر کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ ماورائے قانون ہلاکت Extra Judicial Killing ہے ۔

ضلع نلگنڈہ کے آلیر میں پانچ مسلم نوجوانوں کو مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کئے جانے کے واقعہ نے عدالتی تحویل کے تحت جیلوں میں محروس سینکڑوں نوجوانوں کی سلامتی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ محض پولیس حراست سے فرار ہونے کے الزام میں بیک وقت پانچ ملزمین کو موت کے گھاٹ اتار دینا دستور ہند کے مغائر ہے۔ آلیر انکاؤنٹر نے ملک بھر کے عوام میں بے چینی پیدا کردی ہے ۔ اور اس قسم کی مثال سے عام شہریان ہی کو نہیں بلکہ سماج کے اہم شخصیتوں کو راستہ سے ہٹانے کا آسان طریقہ نکالا ہے۔ عدالتی تحویل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے احکامات کے تحت ملزمین کو جیل میں محروس رکھا جاتا ہے اور محروسین جیلوں میں انتہائی محفوظ ہونا چاہئے لیکن سابق میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں جیل کے احاطہ میں ہی پولیس عہدیداروں نے اپنا اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ملزمین کی تفتیش کی تھی۔ 18 مئی سال 2007 ء میں پیش آئے مکہ مسجد بم دھماکہ کیس کے ضمن میں درج کئے گئے مقدمات میں سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا جس میں مہاراشٹرا جالنہ کے شعیب جاگیردار اور بوئن پلی کے محمد عمران بھی شامل ہیں۔ بم دھماکہ کیس کی تحقیقات کیلئے قائم کئے گئے

خصوصی تحقیقاتی سیل (ایس آئی سی) نے شعیب جاگیردار اور عمران سے جیل میں ہی تفتیش کی تھی جو جیل کے قوانین اور قیدیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ آئے دن کئی نوجوانوں کو پولیس جیل سے عدالت میں پیش کرنے یا انہیں علاج کیلئے دواخانہ منتقل کرتی ہے اور اس دوران ان کی سلامتی کا ذمہ پولیس اسکارٹ پارٹی پر ہوتا ہے۔ ملزمین کو پولیس ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑکر انہیں عدالت میں پیش کرتی ہے لیکن راستہ میں اسکارٹ پارٹی کی جانب سے ڈھائے جانے والے ظلم کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حالیہ فرضی انکاؤنٹر میں موت کی نیند سلائے گئے وقار احمد اور اس کے چار ساتھیوں کی یہ تازہ مثال ہے کہ نوجوان نے ہی خود کئی مرتبہ عدالت کو تحریری حلفنامہ داخل کرتے ہوئے اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے اور دوسری جیل کو منتقل کرنے کی گزارش کی تھی جبکہ وقار احمد کے والد نے بھی اپنے لڑکے کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے عدلیہ کو واقف کروایا تھا لیکن پولیس نے عدلیہ کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے اور اپنی پالیسی کے تحت پانچ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

نوجوانوں کو انکاؤنٹر میں ہلاک کیا جانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ دستور کے تقدس کو بھی پامال کرناہے۔ حتیٰ کہ ملزم کو ہتھکڑی پہنانے کیلئے بھی عدالت کی اجازت لازم ہوتی ہے لیکن وقار کے کیس میں پانچ نوجوانوں کو مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کردینا عدلیہ ‘ قانون اور دستور کا مذاق اڑانا ہے۔ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑی جمہوری طاقت کی شناخت رکھتا ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ 26/11 ممبئی حملوں میں گرفتار پاکستانی دہشت گرد اجمل قصاب کو یہاں کی عدلیہ نے اسے قانونی امداد فراہم کی تھی اور باضابطہ مقدمہ کی کارروائی کے بعد اسے قصوروار پائے جانے پر اسے پھانسی دی گئی تھی۔دہشت گردانہ کارروائی انجام دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کئے جانے والے دہشت گرد اجمل قصا ب کو قانون کے تحت قصوروار پائے جانے پر اس کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔ وقار احمد اور اس کے چار ساتھیوں سید امجد علی ، محمد ذاکر ، ڈاکٹر حنیف اور اظہار خان کو سال 2010 ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف قتل و اقدام قتل کے تین مقدمات درج کئے گئے تھے۔ بالخصوص کانسٹبل رمیش کو حسینی علم علاقہ میں گولی مارکر ہلاک کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا تھا اور اس کیس کی سماعت کیلئے انہیں گزشتہ تین سال سے ورنگل سنٹرل جیل سے حیدرآباد لایا جاتا تھا۔ اس کیس میں جملہ 37 گواہ ہیں جن میں 20 کے بیانات قلمبند کئے جاچکے تھے اور ان پر جرح بھی مکمل ہوچکا تھا۔ قانونی ماہرین کا کہناہے کہ نوجوانوں کو اس کیس میں برأت یقینی تھی جس سے پولیس تشویش کا شکار ہوگئی۔ پولیس کو اپنی ہزیمت اور اپنے مقدمہ میں شکست کا خوف بھی لاحق ہوگیا تھا ۔ عدالتی تحویل میں نوجوانوں کو نشانہ بنانا ناممکن تھا لیکن وقفہ وقفہ سے وقار کی جانب سے پولیس حراست سے فرار ہونے کا تاثر عام کردیا گیا تھا۔ 7 اپریل کو سپرنٹنڈنٹ چیرلہ پلی جیل نے پانچ نوجوان جو عدالتی تحویل میں تھے، حیدرآباد کو منتقلی کیلئے پولیس اسکارٹ کے حوالے کئے گئے تھے لیکن ضلع نلگنڈہ کے آلیر علاقہ میں انہیں اچانک نشانہ بنائے جانے سے جیلوں میں محروس سینکڑوں نوجوان جن پر مبینہ دہشت گردی کا الزام ہے اور طویل عرصہ سے محروس ہیں، خود کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں ۔

ماورائے قانون ہلاکتوں کو فروغ دینے کی پالیسی انتہائی افسوسناک ہے اور دستور ہند میں شہریان کے جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح دی گئی ہے اور پولیس کا یہ فرض ہے کہ ہر شہری کو حفاظت فراہم کرے۔اس طرح کی ہلاکتیں انسانی و بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہیں اور بین الاقوامی قوانین میں بھی اس کی مذمت کی گئی ہے ۔ اگر اس طرح کی وارداتیں ہوتی رہیں تو یہ تاثر عام ہوجائیگا کہ ہم کسی دستوری ‘ جمہوری اور قانونی ڈھانچہ میں بھی محفوظ نہیں ہیں اور پولیس وردی کی مدد سے جب چاہے جسے چاہے جہاں چاہے موت کی نیند سلاسکتی ہے ۔