کیا جمہوریت پر بی جے پی ہی کا حق ہے؟

غضنفر علی خان
جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جو عوام کے لئے نعمت ہے۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت اس وقت تک محفوظ سمجھی جاتی ہے جب تک اس نظام میں ملک کے عوام ہی کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی کو اقتدار سپرد کریں۔ اس طریقہ حکومت میں سب سے زیادہ وہی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے جس کو اکثریت حاصل ہو۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے چاہنے والوں کی تعداد ہوتی ہے۔ پچھلے 4 سال سے بے شک عوام نے بی جے پی حکومت کو برداشت کیا۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں عوام نے ہی اسے اقتدار حوالے کیا تھا۔ بی جے پی کو ملک کے عوام نے ایک نئے بھروسے کے ساتھ حکمرانی کا موقع دیا۔ بی جے پی کی قسمت میں پہلی مرتبہ اقتدار کا چراغ آیا لیکن دشواری یہ ہوئی کہ بی جے پی نے اس اقتدار کو صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کیا۔ بی جے پی کی اس کامیابی نے جو خود اس پارٹی کے لئے بھی چند برس قبل تک کھیل تماشہ رہا۔ اقتدار پر آنا ایک بات ہے لیکن اقتدار کو دیانتداری سے چلانے کا بی جے پی حوصلہ نہیں رہا۔ ہندوستان میں عوام دشمن پالیسیاں نہیں چلتیں اور یہی بی جے پی کے ساتھ ہورہا۔ ہندوستان میں کئی پارٹیاں ہیں جب انھوں نے دیکھا کہ یہ پارٹی ہمارے ملک پر حکومت کرنے کے لائق ہی نہیں تو انھوں نے کانگریس یا کسی اور کو بہتر سمجھا۔ دوسری طرف اپوزیشن کو دوبارہ اقتدار ملنے کے آثار نظر آئے اور یکے بعد دیگرے غیر بی جے پی پارٹیوں کو سبق ملا کہ وہ اپنا علیحدہ وجود ثابت کرنے کیلئے بے چین ہوںگی۔ دوسری پارٹیوں کو جیسے ہی یہ احساس ہوگیا کہ ان کے لئے بھی دہلی پر قابض ہونا ممکن ہے۔ جوں جوں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو یہ احساس ہوگیا کہ ان کو اس وقت تک ہندوستان پر حکومت کرنے کا موقع نہیں مل سکتا جب تک کہ وہ اپنے طور پر ایک پلیٹ فارم پر نہ آجائیں۔ اقتدار کا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ غیر بی جے پی پارٹیاں یکجا ہونے کا موقع تلاش کرنے لگیں۔ اب 2019 ء میں جو عام چناؤ ہوں گے ان میں ملک کے بی جے پی کے حکومت بنانے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ سے اپوزیشن کا تیزی سے متحد ہونا ممکن نہ ہوتا ، اگر کانگریس کوشش نہ کرتی اور بی جے پی غلطیاں نہ کرتی۔ آثار تو یہی ہیں کہ اپوزیشن متحد ہوکر بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہیں بکھری ہوئی اپوزیشن میں عدم اعتماد کا دور ختم ہورہا ہے۔

بی جے پی بدحواس ہونے لگی۔ نہ مندر، نہ مسجد کا فارمولہ چل پڑا۔ ایک طرف ان پارٹیوں کے اتحاد کی فضاء پیدا ہوئی۔ بی جے پی کے پاس کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو اس کو ان پارٹیوں کو متحد کرے۔ اب بی جے پی عالم بدحواسی میں بے بسی کی طرح اپوزیشن کو کوسنے اور ان کے لئے غلط و غیر معیاری زبان استعمال کرنے لگی۔ بی جے پی قائدین کسی بے بس بے دست و پا پارٹی کی طرح اپوزیشن اتحاد کو بُرا بھلا کہنے لگے ہیں۔ ایک بی جے پی لیڈر نے حد کردی ان کے خیال میں اپوزیشن بدخور ہے۔ کہیں یہ کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد دہشت پسندوں اور ملک دشمن عناصر کا اتحاد ہے۔ جب کسی گروہ یا فرد کو اپنے لئے سارے دروازہ بند ہوتے نظر آتے ہیں یا دروازے بند ہوں تو وہ اپنی آواز میں دوسروں کے لئے ہر وہ خطاب یا ہر لفظ استعمال کرنے لگتی ہے۔ جو غیر اخلاقی جماعتوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن میں ایک نہیں کئی لیڈر ایسے ہیں جو کچھ سال پہلے اسامہ بن لادن کے ہمدرد تھے۔ وہیں دہشت پسندی اور انتہا پسندی تو وہی ہیں جو اقتدار کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ دراصل اقتدار 2019 ء کے چناؤ میں حاصل کرنا بی جے پی کے لئے خواب پریشان بن گیا۔ بی جے پی اور خاص طور پر پارٹی کے سینئر لیڈروں نے یہ سمجھ رکھا تھا۔ اقتدار ان کی سیاسی میراث ہے۔ ملک میں رہنے بسنے والے تمام لوگ جن میں اپوزیشن کے چند لیڈر کشادہ ذہن و فکر و صاف ستھرا ذہن کبھی کسی دہشت پسند گروہ سے تعلق نہیں رکھتے ساری اپوزیشن پارٹیوں اگر ایسے عناصر ہوں تو بھی وہ منظر عام پر آنا نہیں چاہتے۔ البتہ بی جے پی کے اکثر لیڈر کوتاہ دل و دماغ کے مالک ہیں۔ انھیں تو اس کے سوا کچھ آتا ہی نے کہ فلاں مذہب ماننے والے دہشت پسند ہیں یہ کسی طریقہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ صرف وہی لوگ وہی ووٹر ملک دوست ہیں جو بی جے پی کو ووٹ دے۔ بی جے پی اپنا خفیہ پروگرام لاگو کرنے لگی ہے۔ حالانکہ نہ صرف بی جے پی بلکہ جتنی ہندوتوا کا پروپگنڈہ کرنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں اپنا ایجنڈہ ملک بھر میں نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ دہشت پسند عناصر کا بی جے پی پر گہرا اثر ہے کسی کو زندہ جلادیا یا مار پیٹ کرکے معصوم شہریوں کا قتل عبث تو اسے ضرور دہشت پسندوں کی تعداد بی جے پی میں بڑھتی جارہی ہے۔ اپوزیشن کی صفوں میں ایسے عناصر نہیں ہیں یہ سہرا تو بی جے پی کے سر جاتا ہے۔ غرض اپوزیشن کے امکانی اتحاد و ملک کے لئے جو بھی کوششیں ہورہی ہیں بی جے پی کو احساس ہورہا ہے کہ اس کی حکمت عملی ناکام ہوگی۔