کیا … تلگو دیشم ۔ ٹی آر ایس متحد ہوں گے

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
جھوٹ کو اگر میٹھے انداز میں بولا جائے تو سچ کو بات کرنے کی تمیز نہیں رہتی ۔ تلنگانہ تلگو دیشم کے قائدین ریاست تلنگانہ میں اقتدار پر آنے کی امید ظاہر کی ہے ۔ آندھرا پردیش کے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی نارا لوکیش نے پڑوسی ریاست کرناٹک میں بی جے پی کو ملنے والی ہزیمت پر تلگو عوام کی کامیابی قرار دے کر اصل مقابلہ 2019 کے عام انتخابات میں ہوجانے اور ریاست تلنگانہ و آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کی حکومت بنانے کے ساتھ مرکز میں ہم خیال اتحادی حکومت ہونے کی امید ظاہر کی ہے ۔ تلنگانہ میں تلگو دیشم کا کیڈر ہونے اور اس کی بنیادیں مضبوط ہونے کا بھی دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ ریاست کے ہر موضع میں تلگو دیشم پرچم لہرانے کا عزم رکھنے والے قائدین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی نے تمام طبقات کو نمائندگی دی ہے خاص کر خواتین کو سب سے زیادہ نمائندگی دی گئی ہے ۔ اس کی وجہ سے ہی تلگو دیشم کے دور حکومت میں خواتین کے گروپ کو سیلف ہیلپ گروپ بنانے میں مدد ملی ۔ انہیں تعلیم و ٹکنالوجی سے آراستہ کیا گیا ۔ ان قائدین نے ریاست تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے ساتھ اتحاد کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے ۔ ان کا احساس ہے کہ ٹی آر ایس کے کئی قائدین جن میں خود بانی صدر ٹی آر ایس کے سی آر بھی تلگو دیشم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ریاست میں تلگو دیشم کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں ۔ کرناٹک میں جنتادل ایس کی طرح تلنگانہ میں بھی ٹی آر ایس اور تلگو دیشم مل کر کانگریس اور بی جے پی کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔ کیا ممکن ہے کہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور تلگو دیشم کا اتحاد ہوگا ۔ عام انتخابات کے لیے اب صرف ایک سال باقی ہے ۔ اس سیاسی اتحاد کے بارے میں پارٹیوں کے مختلف خیالات سامنے آرہے ہیں۔ کرناٹک میں ماقبل انتخابات ایچ ڈی کمارا سوامی نے بادشاہ گر کے بجائے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا تھا اور وہ اپنے اس دعویٰ میں سچ ثابت ہوئے ان کی کامیابی نے دیگر علاقائی پارٹیوں کے قائدین میں بھی امید پیدا کردی ہے ۔ دو قومی پارٹیوں کے درمیان کانٹے کی ٹکر کے دوران علاقائی پارٹیوں کو بادشاہ بن جانے کا آسانی سے موقع مل جاتا ہے لیکن یہاں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا موقف مختلف نظر آتا ہے ۔ انہوں نے چیف منسٹر کرناٹک کی حیثیت سے کمار سوامی کی حلف برداری میں شرکت کرنے کے بجائے اس تقریب سے ایک دن قبل بنگلور پہونچ کر ایچ ڈی دیوے گوڑا اور کمارا سوامی سے ملاقات کی اور انہیں منتخب ہونے پر مبارکباد دی ۔ کے سی آر کے موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کا حصہ بننا نہیں چاہتے جس میں کانگریس ہو لیکن آنے والا ہر سیاسی وقت لیڈر کے موقف کو بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ کل تک کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل ایس کے قائدین ایک دوسرے کا منہ دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ خاص کر کرناٹک کانگریس کے لیڈر شیوکمار اور کمارا سوامی کو سانپ اور نیولے سے تشبیہ دی جاتی تھی ۔ جب کرناٹک کے یہ دو کٹر مخالف قائدین مل کر دو پارٹیوں کو قریب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو تلنگانہ میں آنے والے دنوں میں ماقبل انتخابات نہ سہی مابعد انتخابات تلگو دیشم اور ٹی آر ایس مل کر کانگریس یا بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے متحد ہوسکتے ہیں ۔ کرناٹک کانگریس لیڈر شیوکمار کو کمارا سوامی کا کٹر مخالف لیڈر سمجھا جاتا تھا لیکن انہوں نے ہی جنتادل ایس ۔ کانگریس اتحاد کے لیے کوشش کی اور لمحہ آخر میں 104 نشستیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو اقتدار سے بیدخل کردیا ۔ بی ایس یدی یورپا نے دو دن کی چیف منسٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد خطہ اعتماد لینے سے قبل استعفیٰ دیدیا ۔

یہ بی جے پی کے لیے شدید زخمی کردینے والا واقعہ تھا ۔ ملک بھر میں کم مدت کے لیے چیف منسٹر یا وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے چیف منسٹروں اور وزیراعظم میں بی جے پی کے ہی قائدین تھے ۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی مختصر مدت میں ہی استعفیٰ دے چکے تھے ۔ ریاستی چیف منسٹروں میں سب سے کم مدت میں استعفیٰ دینے والے پہلے ریاستی چیف منسٹر بہار کے ستیش پرساد سنگھ ہیں جو 1968 میں 5 دن کے لیے اقتدار پر تھے جب کہ ہریانہ کے اوم پرکاش چوٹالہ نے 1990 میں چار دن کے لیے حکومت کی تھی ۔ گوا میں روی نائک نے 1994 میں صرف 6 دن تک چیف منسٹر بنے رہے ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں 1998میں جگدمبیکا پال کو صرف ایک دن کا راج نصیب ہوا تھا ۔ پھر ایک مرتبہ ریاست بہار میں اقتدار ایک ہفتہ کے لیے قائم رہی ۔ سال 2000 میں نتیش کمار نے 7 دن میں ہی چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفیٰ دیدیا تھا ۔ کرناٹک میں 2007 میں بی ایس یدی یورپا نے 7 دن میں ہی استعفیٰ دیا تھا ۔ اتراکھنڈ میں بھی 2016 میں ایک دن کی حکومت رہی جس کی قیادت ہریش راوت کررہے تھے ۔ اور حال ہی میں بی ایس یدی یورپا نے 2 دن کا اقتدار سنبھال کر ودھان سدھا میں اپنی وداعی تقریر میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے استعفیٰ دیا کہ وہ بہت جلد اقتدار پر واپس آرہے ہیں یعنی یدی یورپا نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ وہ کرناٹک کی جنتا دل ایس ۔ کانگریس کے اس اتحاد کو توڑ کر اپنا اقتدار حاصل کریں گے ۔ کرناٹک میں سیاسی سرگرمیاں اور اتھل پتھل کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پڑوسی ریاستوں خاص کر نوخیز ریاست تلنگانہ میں بھی اس طرح کی صورتحال رونما ہوئی ہے تو یہاں تلگو دیشم ۔ ٹی آر ایس کا اتحاد ممکن ہے ۔ بالفرض دونوں پارٹیاں سیاسی مجبوری میں اتحاد کرتے ہیں تو چیف منسٹر عہدہ کے لیے رسہ کشی ہوگی اور دونوں قومی پارٹیوں بی جے پی یا کانگریس میں سے کوئی ایک پارٹی حکومت گرانے کی کوشش کرے گی ۔ پھر ایک بار تلنگانہ میں بھی کرناٹک کا ڈرامہ پلے ہوگا یعنی ایک دن کا سلطان یا دو دن کی حکومت بناکر ٹی آر ایس یا تلگو دیشم اقتدار سے دور کردیئے جائیں گے ۔ کرناٹک میں جو کچھ ہوا اسے علاقائی طاقتوں کے مستحکم ہونے کا موقع قرار دیا جاسکتا ہے ۔ بنگلور میں جمع تمام اپوزیشن قائدین نے مرکز کی بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ مگر مودی اس ہزیمت کو برداشت نہیں کریں گے ۔ کرناٹک کی کمارا سوامی حکومت کے خلاف اندر ہی اندر گروپ بندی یا ارکان کو منحرف کرانے کی سرگرمیاں جاری رہیں گی ۔ حلف برداری تقریب میں تلگو دیشم صدر چندرا بابو نائیڈو نے شرکت تو کی مگر وہ اس پلیٹ فارم پر مضطرب نظر آرہے تھے ۔ خود کو اس میں اڈجسٹ کرنے میں انہیں مشکل ہورہی تھی اس طرح راہول گاندھی بھی اس قومی علاقائی قائدین کی کہکشاں میں مطمئن نظر نہیں آرہے تھے۔ کے سی آر کو اس پلیٹ فارم پر جمع علاقائی و قومی قائدین کے درمیان خود کو نہ پاکر افسوس ضرور ہورہا ہوگا ۔ مگر انہوں نے اس ہجوم سے بچنے کی ہی خاطر اپنا منفرد اسٹائیل اختیار کر کے حلف برداری سے ایک دن قبل ایچ ڈی دیوے گوڑا اور کمارا سوامی سے ملاقات کی ۔ انہیں مبارکباد دی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کے جن قائدین نے جنتادل ایس کے ساتھ اتحاد کرانے اور بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ انہیں حکومت میں جگہ نہ ملنے پر ان کا موقف کیا ہوگا ۔ اس وقت اندر ہی اندر ناراضگی دکھائی دے رہی ہے ۔ خاص کر کانگریس کے ڈی کے شیوکمار ناراض ہیں ۔ یہ وہی لیڈر ہے جنہوں نے کمارا سوامی سے لاکھ دشمنی کے باوجود جنتادل ایس سے اتحاد کی راہ ہموار کی ۔ اب اگر اس لیڈر کو کانگریس نظر انداز کرتی ہے اس کی محنت کا صلہ نہیں دیا جاتا ہے تو پھر بی جے پی کے لیے ایسے قائدین پھوٹ ڈالنے کے لیے اہم آلہ کار بن جاتے ہیں ۔
kbaig92@gmail.com