کیا تلنگانہ کے مسلمان‘ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار سونپیں گے؟

جس کی حکومت تلنگانہ میں اس کا بول بالا دہلی میں ‘ ٹی آر ایس کی مدد بی جے پی کی مدد ہے

حیدرآباد ۔12 نومبر ( سیاست نیوز) ملک کی 5 ریاستوں میں جاری انتخابات کو لوک سبھا الیکشن کا پری فائنل تصور کیا جارہا ہے ‘ جبکہ ان پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ اہمیت ریاست تلنگانہ کے انتخابات کو حاصل ہے ۔ تلنگانہ کے رائے دہندوں کا انتخاب مرکزی حکومت کا انتخاب ہوگا ؟ ۔ قبل از وقت انتخابات کے علاوہ مرکزی سطح پر سیاسی مبصرین تلنگانہ کے حالات کو غیر معمولی طور پر دیکھتے ہیں ‘ چونکہ ریاست کو سیاست کا مرکزی حکومت سے کچھ خاص تعلق رہا ہے ۔ اس بات کو محض اتفاق تصور کیا جائے یا پھر ایسا کوئی سیاسی آنکڑا موجود ہے ‘ اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ محض ایک رائے ہے لیکن اتفاق بھی بڑا عجیب ہے جو گذشتہ 35سال سے اپنی گرفت ہی نہیں چھوڑتا ۔ ریاست تلنگانہ میں اب جبکہ ٹی آر ایس حکومت ہے اس کا بھی مرکزی حکومت سے دوستانہ تعلق رہا ہے ‘ بھلے ہی جھنڈے الگ ہوں لیکن ایک ہیتصور کیا گیا ۔ اس طرح ریاست میں اب موجودہ حالات بھی کچھ اس طرح ہیں ۔ ریاست میں ٹی آر ایس کی مدد مرکز میں مودی کی مدد کے مترادف مانی جارہی ہے ۔ ایک طرف ٹی آر ایس کو مضبوط و مستحکم موقف دینا رائے دہندوں کیلئے مودی کو مستحکم کرنے کے برابر ہوگا ۔ ایسا سیاسی مبصرین کا ماننا ہے ۔ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے پانچ سال مکمل ہونے والے ہیں اور ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی تشکیل پانے والی حکومت مرکز کی قریبی حکومت سمجھی گئی ۔ جبکہ یہ اتفاق گذشتہ 35 سال سے جاری ہے ۔ اس وقت متحدہ ریاست کے موقع پر بھی حالات کچھ اس طرح رہے ہیں ۔ سیاست میں جس طرح ہر چیز کو ممکن اور کسی بھی حیران کن واقعات و عمل پر تعجب نہیں کیا جاسکتا اور سیاست میں بھی کبھی بھی ممکن ہوسکتا ہے کی جو قیادت ہے اسی کی بنیاد پر اتفاق کو بھی سیاسی مبصرین و قومی سطح کی سیاسی پارٹیاں اور علاقائی پارٹیاں کافی اہمیت دے رہی ہیں ۔ گذشتہ دنوں شہر میں ایک پروگرام کے دوران جے این یو کے سابق صدرکنہیا کمار نے بھی یہ کہتے ہوئے اس اتفاق کو مزید مضبوط کردیا کہ تلنگانہ میں جو حکومت ہوتی ہے وہ مرکز میں بھی اسی پارٹی کی حکومت ہوتیہے ۔ اس اتفاق کا 35سالہ دور اور مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی کہتا ہے کہ تلنگانہ کے رائے دہندوں کا انتخابات مرکزی حکومت کا انتخاب ہوگا ۔ ریاست میں 1984ء سے انتخابیچناؤ نتائج اور تشکیل پانے والی حکومتوں کا جائزہ لیں تو بات کچھ اتفاقی ہے مگر دلچسپ ضرور دکھائی دے گی ۔ 1984ء میںتلگودیشم نے ریاست میں حکومت بنائی اور 1989ء تک تلگودیشم کی حکومت قائم تھی ۔ اس دوران 1986ء میں نیشنل فرنٹ نے مرکز میں حکومت بنائی جس وقت وی پی سنگھ کی قیادت حاصل تھی ۔ 1989 سے 1994ء تک ریاست میں کانگریس اور مرکز میں بھی کانگریس کی حکومت موجود تھی پھر دوبارہ جب 1994ء میں تلگودیشم نے ریاست آندھراپردیش میں حکومت تشکیل دی اور اس کے بعد حکومت 1999 تک قائم رہی اس دوران مرکز میں این ڈی اے کی حکومت رہی جبکہ بابو نے پھر اقتدار سنبھالا اور حکومت 1999سے 2004ء تک قائم ہی اس دوران بھی مرکز میں این ڈی اے کی حکومت رہی ۔ جب ریاست میں تلگو دیشم پارٹی کے خلاف رائے دہدنوں نے اپنا فیصلہ سنایا تو اس کا راست اثر مرکز پر پڑا اور مرکزی حکومت بھی مخالف تلگودیشم قائم ہوگئی ۔ سال 2004 میں ریاست آندھراپردیش کے رائے دہندوں نے کانگریس کو اقتدار سونپا اور مرکز میں بھی کانگریس ہی نے حکومت تشکیل دیا جس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں رائے دہندوں نے دوبارہ اپنا موقف کانگریس کے حق میں دیتے ہوئے کانگریس کو مضبوط کیا اور اقتدار کی کمان کانگریس کے ہاتھوں تھما دی اور مرکز میں بھی یو پی اے حکومت رہی اور 10سال تک کانگریس کا راج تلنگانہ کی گلی سے مرکز کی دہلی تک رہا اور ریاست میں قائم حکومت کے مرضی موافق ہی حکومت تشکیل پائی اور دونوں ہی پارٹیوں کا راست مقابلہ رہا لیکن اس مرتبہ کٹر حلیف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ۔ جمہوریت ‘ قانون اور دستور و ملک کے تحفظ کیلئے چندرا بابو نے ساری باتوں کو فراموش کردیا توکانگریس نے بھی آگے آتے ہوئے بابو کو تھام لیا ۔ ایک عرصہ تک ریاست کی دونوں پارٹیوں کے درمیان مقابلہ رہا اور ریاست میں حکومت کی تشکیل کے ساتھ مرکز میں موافق حکومت رہی لیکن ایسا دونوں پارٹیوں کیلئے مرکز اور ریاست میں موافق نہیں بلکہ مخالف حکومت پائی جاتی ہے ۔ دانشوروں اور سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں پارٹیوں کی ریاست کے اقتدار میں موجودگی کے دور اقتدار کا جائزہ لیا جائے تو ترقی کے جو اقدامات ہوئے ہیں اس کو مثالی قرار دیا جاسکتا ہے ۔1994 سے 2004 اور 2004 سے 2014ء تک ریاست نے مثالی ترقی کی اور دس سال کے اس عرصہ میں پہلا دور تلگودیشم اور دوسرا دور کانگریس کا رہا