محمد جسیم الدین نظامی
سیکولر جماعتوں نے بہت کوششیں کیں کہ مسلمان بی جے پی کے خلاف متحد ہو کر ووٹ دیں ، اس کے باوجود بی جے پی نے اتنی بڑی جیت جس وجہ سے درج کی ، اسے سیاسی تجزیہ نگار ‘ ’’ریورس پولرائزیشن ‘‘ قراردے رہے ہیں۔ یوپی اور بہار میں بی جے پی نے بڑی کامیابی حاصل کی ، جبکہ دونوں مقامات پر مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔نتائج کا اعلان ہونے کے بعد بی جے پی کے جنرل سیکریٹری امیت شاہ نے بیان دیا کہ پارٹی نے اسلئے کامیابی حاصل کی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ، جو ووٹ بینک کی پالیٹکس کا حصہ نہیں ہیں ۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کے 1.2 ارب لوگوں میں تقریبا 15 فیصد مسلمان ہیں ۔ 35 سیٹوں پر ووٹروں میں ان کی تعداد تقریبا ایک تہائی ہے ۔ 38 سیٹوں پر ووٹروں میں ان کی تعداد 21تا30 فیصد ہے ۔ اگر ان 145 نشستوں کو بھی شامل کیا جائے ، جہاں مسلمان ووٹر 11تا20 فیصد ہیں ، تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلم ووٹرس 218 سیٹوں کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یوپی اور بہار ملا کر لوک سبھا کی 120 نشستیں ہیں ، جس میں سے یوپی میں 18 فیصد اور بہار میں 16 فیصد مسلمان ہیں ۔اس لئے ’’ سیکولر ’’ داؤ غیر منطقی نہیں تھا ۔اکیلے یوپی کی 80 میں سے 32 سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد تقریبا 15 فیصد یا اس سے زیادہ ہے ۔ لیکن ان 32 سیٹوں میں سے سماجوادی پارٹی کو صرف 2 سیٹیں ملیں اور 30 سیٹوں پر بی جے پی کامیاب ہوگئی۔ بی جے پی نے ان 8 علاقوں میں کامیابی درج کی ، جہاں مسلمانوں کی تعداد 40 فیصد کے قریب ہے ، جن میں سہارنپور ، امروہہ ، شراوستی ، بجنور ، مظفرنگر ، مرادآباد اور رامپور شامل ہیں۔ہند وستان کی تاریخ میں پہلی بار اتر پردیش سے کوئی مسلم کامیا ب نہیں ہوسکا،یہی رجحان بہار میں بھی ہے ۔بہار میں جن 17 سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد 15 فیصد سے زیادہ ہے ، وہاں بی جے پی نے 12 سیٹیں جیتی ہیں ۔ باقی 5 میں سے جنتادل ( یو ) کو 1 سیٹ ملی ہے اور باقی آر جے ڈی ،کانگریس ، این سی پی کے اتحاد کو گئی ہیں ۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی تعداد 14 فیصد ہے ۔
یہاں پر بی جے پی اور اتحادی جماعتوں نے 48 میں سے 42 سیٹوں پر جیت درج کی ہے ۔ مزید مسلم ووٹروں والی تمام سیٹوں پر بی جے پی اور اتحادی جماعتوں نے کامیابی درج کی ۔ ممبئی اور مہاراشٹر کے باقی مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلم علاقوں میں کم ووٹنگ ہوئی ۔ اس کے علاوہ کانگریس ، این سی پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے بھی انکے ووٹ بے اثر ہو گئے ۔بتایا جاتاہے کہ،ممبئی نارتھ ایسٹ کے مسلم اکثریتی علاقے گووڈی میں محض 40فیصد ووٹنگ ہوئی جبکہ اسی لوک سبھا حلقے کے گجراتی علاقے ملڈ میں 60فیصد ووٹنگ ہوئی۔اسکے علاوہمسلم ووٹ میدھا پاٹکر اور این سی پی کے موجودہ ایم پی سنجے دینا پاٹل کے درمیان تقسیم ہو گئے ۔اس کی وجہ سے بی جے پی امید وار کی جیت آسان ہو گئی ۔
انتخابی تجزیہ نگار گزشتہ انتخابات کے رجحان کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلم ووٹوں کا وہاں پر سب سے زیادہ اثر دکھائی دیتا ہے ، جہاں وہ قریب 10 فیصد ہیں کئی امیدواروں کے درمیان ایک امیدوار کے لئے ان کی ووٹنگ سے رذلٹ طے ہو جاتا ہے ۔ جہاں پر مسلم 20 فیصد یا اس سے زائد ہیں ، وہاں پر ان کا ووٹ کو بے اثر ہو جاتا ہے کیونکہ وہاں بہت سے مسلم امیدوار کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہو جاتی ہے ۔ انتخابی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کئی بار ہندو ووٹوں کا کاؤنٹر پولرائزیشن ہوتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ یوپی میں کاؤنٹر – پولرائزیشن کی وجہ سے بی جے پی کو مدد ملی ۔اکثر ناقدین نریندر مودی کی کامیابی کا کریڈٹ ہندو ووٹوں کے پولرائزیشن ر کو دیتے رہے ہیں اور نریندر مودی جبکہ یوپی میں ان کے سپہ سالار امیت شاہ 2014 کے انتخابات میں اس بات کو سرے سے خارج کرتے رہے ہیں ۔ لیکن اعداد و شمار اس بات کوکسی اور رجحان کی طرف اشار ہ کرتاہے ،آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اتر پردیش سے ایک بھی مسلمان ایم پی کامیاب نہیں ہوسکا۔یوپی میں 20 فیصد مسلمان ہیں ،80 لوک سبھا سیٹوں والے اس ریاست کو ملک کا سب سے اہم ریاست سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے والے کو یوپی ہو کر آنا ہی پڑتا ہے ۔ نریندر مودی نے بھی یوپی کے بنارس سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا ،ویسے یہاں سے تقریبا تمام سیٹوں پر بی جے پی نے قبضہ کرلیا ہے ،اسے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔بہرحال حقیقت خواہ کچھ بھی مسلم رہنماؤںمل بیٹھ کرخود احتسابی کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا۔