امجد خان
ایک معصوم شخص کو غلطی سے جرم میں ماخوذ کرنے سے بہتر ہے کہ دس مجرمین کو رہا کردیا جائے اور یہ بیان اتنا مشہور ہے کہ ہر صاحب سمجھ شخص دوسروں کی خطائوں کو معاف کردیتا ہے لیکن یہ کہاوت ہندوستانی ریاست آسام کے حکمرانوں پر صادق نہیں آتی۔ ریاست آسام کی جلد بازی میں تیار کی گئی این آر سی، ڈی ووٹرز، ناخواندہ اکثریت، مذہب کی بنیاد بناکر صرف ایک ہی فرقہ کے افراد کو نشانہ بنانا اور ان کی زبان پر حملہ یہ سب کچھ واقعات ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔ ہزاروں شہریوں کو محض اس وجہ سے غیر ملکی قرار دے دیا گیا کہ ان کے نام غلط ہے یا پھر عمر میں فرق۔ جو کچھ بھی ہو حکومتی حکام نے ہی یہ رپورٹ تیار کی ہے اور صرف ٹائپنگ کی غلطی کی بنیاد پر کسی کی شہریت چھینی نہیں جاسکتی اور یہ عمل سماج کے تانے بانے میں ایک وسیع چیلنج پیدا کردے گا اور خاص طور پر یہ جنوب مشرقی ریاست کے معاملہ میں ایک نہایت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔ موجودہ موضوع کا تعلق اور بحران دو معاملوں سے ہے۔ ایک سماجی دوسرا سیاسی تشخص۔ بعض ایک این آر سی مجوزہ شہریت ترمیمی بل سکہ کا دوسرا رخ این آر سی کے مسئلہ کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنا ہے۔ کچھ سوال ہیں جن کے جوابات درکار ہیں۔ کیا ریاست آسام پہلی اور آخری ریاست ہے جہاں پر این آر سی کے نام پر ریاست کی مجرمانہ ذہنیت کی غمازوں غیر ذمہ دارانہ بیان بازی ہے جس میں صرف ایک کمیونٹی کے افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا کہ وہ ایک پڑوسی ملک کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو آسام کو اپنی آماجگاہ بنائے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ایک ریاستی وزیر کا یہ اعلان کہ کسی بھی بیرون ہند ہندو آسام میں رہائش اختیار کرسکتا ہے ریاست کی تضاد بیانی کا غماز ہے۔ ریاست آسام میں سپریم کورٹ کی زیر نگرانی میں این آر سی کی تیاری جس میں غیر قانونی تارکین وطن کا پتہ لگانا مقصود ہے۔ ہندوستان کی سرحدی حفاظت کرنے والی فورسس پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ کس طرح اتنی بری تعداد میں غیر ملکی افراد بغیر کسی طریقہ کار کے ریاست میں داخل ہوئے ہیں اور اگر یہ مفروضہ صحیح نہ ہو تو موجودہ اور سابقہ حکومتوں کے متعصب ہونے کا پتہ چلتا ہے کیوں کہ مسلمانوں کو جو ریاست کی ایک تہائی آبادی کا حصہ میں مسلسل ٹارگٹ بنانا مقصود ہے جو بہ نسبت دوسری برادریوں کے غیر تعلیم یافتہ میں 1983ء کے IMDT ایکٹ کو غیر کارکرد کرکے این آر سی کی تیاری کا مقصد شہریوں کو ہراساں کرنا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو مشکوک ووٹرز کہہ کر حکام کی جانب سے پریشان کرنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طریقہ کار صرف آسام تک ہی محدود رہتا ہے یا پھر دوسری جنوب مشرقی ریاستیں جہاں پر عیسائی اقلیت، عیسائی اکثریت میں تبدیل ہوچکی ہے۔