کہ پیشانی پہ چندن تو سبھی سادھو لگاتے ہیں

رشیدالدین

سادھوی نرنجن جیوتی کی شر انگیزی
پریشانی میں گھری مودی سرکار

جس ماحول میں انسان کی تربیت ہو ، اس کا اظہار کسی نہ کسی طرح سے ہوجاتا ہے۔ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی یہ تاثر دے رہے تھے کہ تمام طبقات اور مذاہب کو ساتھ لیکر حکومت چلائی جائے گی اور نفرت پر مبنی سیاست کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ نریندر مودی اس طرح کے لاکھ دعوے کرلیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ مودی اور ان کی ساری ٹیم ناگپور کی تربیت یافتہ ہے۔ بی جے پی قائدین کی ذہنی تربیت کا کام آر ایس ایس انجام دیتی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف نریندر مودی بھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ 5 برسوں کی میعاد کی تکمیل کیلئے وہ سیکولرازم اور قومی یکجہتی کا نقاب اوڑھے رہیں گے۔ ظاہر ہے کہ مودی آج جس مقام پر فائز ہیں، وہ اسی ناگپور یونیورسٹی تربیت گاہ کی دین ہے، جسے عرف عام میں آر ایس ایس کہا جاتا ہے۔ ہندو راشٹر اور ہندو نظریات کے غلبے اور خواب دیکھنے والی آر ایس ایس نے حکومت اور پارٹی میں اپنے تربیت یافتہ سیوم سیوکوں اور پرچارکوں کو شامل کردیا ہے۔ وزیراعظم ہو کہ پارٹی کی صدارت ان عہدوں کی آر ایس ایس سے وابستگی اور سیاہ کارناموں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح کے تربیت یافتہ افراد کو حکومت میں شامل کرتے ہوئے ایجنڈہ پر عمل آوری کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ وزراء اور سنگھ کے قائدین کی جانب سے وقفہ وقفہ سے نفرت اور اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے ۔ نریندر مودی نے لال قلعہ سے مذہب اور منافرت پر مبنی سیاست ترک کرنے اور ترقی کو اہم ایجنڈہ کے طور پر اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا ، جو محض عہدہ کی رسمی ذمہ داری کی تکمیل کے سواء کچھ نہیں۔ مرکزی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کے جس شر انگیز بیان پر ملک کا سیاسی ماحول گرم ہے، اسے بظاہر محض اتفاق کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن سچائی کچھ اور ہے۔ جس ایجنڈہ کے ساتھ سادھوی نرنجن جیوتی کو میدان میں اتارا گیا ، وہ اسی پر عمل پیرا ہیں۔ پارلیمنٹ میں معذرت خواہی اور وزیراعظم نریندر مودی کی ناراضگی محض ایک ناٹک کے سواء کچھ نہیں۔ سادھوی کے بیان کے موقع و محل کا جائزہ لیں تو پس پردہ عوامل کا اندازہ ہوگا۔ سادھوی نے ایک طرف دہلی کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کا ماحول ابھی سے گرم کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف دہلی میں بیٹھ کر جموں میں پارٹی کی انتخابی مہم چلائی ہے تاکہ اکثریتی فرقہ کے ووٹ بی جے پی کے حق میں متحد کئے جاسکیں۔ جموں و کشمیر میں رائے دہی کے مزید تین مرحلے باقی ہیں اور دوسرے مرحلہ کی رائے دہی سے ایک دن قبل نرنجن جیوتی نے ’’رام زادے اور حرام زادے‘‘ والا شرانگیز ریمارک کیا۔ نرنجن جیوتی کے سبب گزشتہ 6 ماہ میں پہلی مرتبہ نریندر مودی حکومت کسی بڑے تنازعہ میں گھر چکی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو پہلی مرتبہ کوئی اہم مسئلہ ہاتھ لگا جس کو لیکر وہ حکومت کو گھیرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سادھوی کی وزارت سے برطرفی کی مانگ پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی متاثر ہوئی ہے۔ اس مسئلہ پر حکومت کے کمزور اور دفاعی موقف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو دونوں ایوانوں میں حکومت کا دفاع کرنا پڑا۔ وزیراعظم جس انداز سے اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں پیش ہوئے،ان کے رویہ میں جارحیت کے بجائے کمزوری ، پشیمانی اور پریشانی صاف طور پر جھلک رہی تھی۔

وہ اپوزیشن ارکان کو منانے کیلئے عاجزانہ انداز میں ملک اور قوم کی دہائی دینے لگے۔ وزیراعظم کی باڈی لینگویج ان کے روایتی تیور سے جداگانہ تھی۔ پہلی مرتبہ کسی مسئلہ پر اہم اپوزیشن متحد دکھائی دے رہا تھا۔ جہاں تک سادھوی نرنجن جیوتی کا معاملہ ہے، وہ سادھوی ہیں اور سنت و سادھوؤں کا سیاست سے کیا تعلق ؟ ان کا مقام آشرم ہوتا ہے لیکن آر ایس ایس نے سماج میں نفرت کا زہر اگلنے کیلئے انہیں سیاسی میدان میں اتار دیا۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد سے نریندر مودی عدم تشدد، مساوات اور مذہبی رواداری کا راگ الاپ رہے ہیں، کبھی گوتم تو کبھی مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے نظریات سے خود کو وابستہ کرلیتے ہیں لیکن گزشتہ 6 ماہ کے دوران بی جے پی قائدین کے اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔ اس طرح کی اشتعال انگیزی کے خلاف نریندر مودی کی ناراضگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس نے بھی اس طرح کی شرانگیزی کی انہیں مرکزی کابینہ میں وزارت کا تحفہ دیا گیا۔ مظفر نگر فسادات کو بھڑکانے کیلئے مبینہ طور پر ذمہ دار سنجیو کمار بلیان کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح گری راج سنگھ جنہوں نے مودی مخالفین کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی مودی کابینہ کا حصہ بن گئے۔ ملک کی 125 کروڑ آبادی کو ہندو قرار دینے والے منوہر پریکر کو گوا کے چیف منسٹر کے عہدہ سے ترقی دی گئی اور ملک کا وزیر دفاع مقرر کیا گیا ۔ جو شخص ملک کی سرحدوں سے بھی شاید واقف نہ ہو ، اسے ملک کی دفاع کا قلمدان باعث حیرت ہے۔ وزیراعظم کے دفتر میں مملکتی وزیر جتیندر سنگھ کا متنازعہ بیان بھی عوام کو یاد ہے جس میں انہوں نے کشمیر کی دفعہ 370 کی مخالفت کی تھی۔ الغرض نفرت انگیز بیانات دینے والوں پر مودی کی مہربانیاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تمام طئے شدہ پروگرام کا حصہ ہے۔ نرنجن جیوتی نے دستور ہند پر مرکزی وزیر کی حیثیت سے حلف لیا ۔ ان کی جانب سے اس طرح کا بیان دستور ہند کی سراسر خلاف ورزی اور توہین ہے، جو ناقابل معافی جرم ہے۔ نرنجن جیوتی کی معذرت خواہی اور وزیراعظم کی وضاحت مسئلہ کا حل نہیں۔ ان کی وزارت سے برطرفی صحیح معنوں میں انصاف ہوگا۔

جس وقت سادھوی نرنجن جیوتی کے مسئلہ پر عوام میں ناراضگی کا ماحول تھا، میڈیا نے اس حساس مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے بابری مسجد مقدمہ کے اہم فریق ہاشم انصاری کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مقدمہ سے دستبردار ہوجائیں گے۔ ملک میں بی جے پی اقتدار کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے 800 سال بعد ہندو راج کی واپسی قرار دیا۔ اس بیان کی کسی دانشور اور نام نہاد سیکولر جماعتوں نے مذمت نہیں کی۔ یوں تو سابق میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں رہ چکی ہے لیکن موہن بھاگوت کو نریندر مودی حکومت ہندو راج دکھائی دے رہا ہے۔

موہن بھاگوت کو شاید پتہ نہیں کہ 800 سال قبل بھی کبھی ہندو راج نہیں تھا۔ شیواجی اور مہارانا پرتاپ کے دور کو ہندو راج قرار دینے والے شاید نہیں جانتے کہ شیواجی کے سپہ سالار مسلمان تھے۔ خارجہ امور کے وزیر اور ان کے دست راست بھی مسلم تھے۔ ہندوستان پر مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی مسلم حکومت کا دعویٰ نہیں کیا اور مذہب کو عوام پر مسلط نہیں کیا گیا۔ ملک میں بی جے پی کو صرف 31 تا 33 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ باقی 70 فیصد رائے دہندے بی جے پی کے ساتھ نہیں تھے۔ پھر کس طرح ہندو راج قرار دیا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے دستور ہند پر حلف لیا نہ کہ ہندوؤں کی مقدس کتاب گیتا پر۔ پھر کس طرح ہندو راج کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ دستور ہند جس کی بنیاد سیکولرازم ہے، اس کی پابندی کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس طرح حکومت کسی ایک مذہب کی نہیں بلکہ تمام مذاہب کو ماننے والوں کی ہے۔ اسی طرح سادھوی نرنجن جیوتی نے دہلی میں رام زادوں کے اقتدار کی اپیل کی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو رام زادے قرار دینے والی نرنجن جیوتی کیا بتاسکتی ہیں کہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے رام زادے تھے یا …زادے؟ گجرات میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام کیا رام زادوں کی حرکت تھی؟ مظفر نگر اور آسام میں فسادات کو ہوا دینے والے کیا رام زادے تھے؟ بی جے پی کی 6 ماہ کی حکومت میں ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے جو واقعات پیش آئے ، کیا اس کیلئے رام زادے ذمہ دار ہیں؟ اس کے باوجود سادھوی نرنجن جیوتی کو بی جے پی رام زادوں کی پارٹی کہلانا پسند ہو تو انہیں مبارک ہو لیکن دوسروں کو برا بھلا کہنے کا حق انہیں کس نے دیا۔

بی جے پی اقتدار میں اس قدر فسادات ہوئے کہ عوام کو کئی ایسے علاقوں کے ناموں کا پتہ چلا جن سے وہ واقف نہیں تھے۔ دستور سے انحراف پر نرنجن جیوتی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جانا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی اور ایسی حرکت نہ کریں۔ مذہبی منافرت دراصل ہندوستان کے اتحاد ، سالمیت اور سماجی تانے بانے کو بکھیرنے کی سازش ہے، جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ محض حکومت اور بی جے پی کا مسئلہ نہیں، جس طرح کہ وزیراعظم دلیل پیش کر رہے ہیں بلکہ یہ ملک کے دستور اور قانون کی بالادستی کو چیلنج ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شر انگیزی تو کھلے عام پر سڑک پر کی گئی اور پارلیمنٹ میں ندامت کا اظہار کیا گیا۔ برسر عام کی گئی شر انگیزی پر پارلیمنٹ سے معافی نہیں مل سکتی۔ وزارت سے مستعفی ہوکر عوام کے درمیان معذرت خواہی کرنی چاہئے۔ لال بہادر شاستری نے ٹرین کے حادثہ کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دیا تھا۔ سادھوی نرنجن جیوتی نے کروڑوں ہندوستانیوں کا دل توڑا ہے، انہیں اقتدار پر برقراری کا کوئی حق نہیں۔ نریندر مودی کا یہ امتحان ہے کہ انہیں دستور ہند عزیز ہے یا سادھوی نرنجن جیوتی۔ نرنجن جیوتی کے تنازعہ کے دوران کیرالا کی مسلم سیاسی جماعت کی جانب سے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں 25 لاکھ روپئے کا عطیہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یقیناً اس کے پس پردہ سیاسی مقاصد ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سادھوی کے بیان پر کیرالا کی مسلم جماعت نے وزیراعظم کو ’’کیسۂ زر‘‘ پیش کیا۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
دلوں کا حال آسانی سے کب معلوم ہوتا ہے
کہ پیشانی پہ چندن تو سبھی سادھو لگاتے ہیں