کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ
اے خالق ارض و سماء اے خالق کون و مکاں
اے خالق ابرنسیاں، اے خالق آندھی وطوفاں اے خالق بحر بیکراں، اے خالق کائنات، اے خالق دنیائے رنگ و بو، اے خالق گل و بلبل، اے خالق چاند و چکور، اے خالق شجر و حجر، اے خالق برگ و بر اے خالق شب و سحر ، اے خالق، شمس وقمر، اے خالق، روز محشر، اے خالق گل و خار، اے خالق خزاں و بہار، اے خالق گل و گلزار، اے خالق ابروکہسار، اے خالق جن و انس، اے خالق چرند پرند و درند، اے خالق قوت بصارت، اے خالق قوت سماعت، اے خالق چشم بصیرت اے خالق موت و زیست، اے خالق موج دریا، اے خالق نسیم صبح، اے خالق عشق و محبت، اے خالق لولوومرجاں، اے خالق زلف پیچاں، اے خالق رخسار آتشیں، اے خالق لب احمریں، اے خالق زلف عنبریں، اے خالق چشم سرنگیں، اے خالق دست مرمریں، اے خالق مشرقیں و مغربین
میرے مولیٰ وہ الفاظ کہاں سے لائوں جو تیری شان کبریائی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوسکتا ہے لیکن تیری حمد کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکتا۔ میرے مولی ہم تیرے بندے ہیں تیرے حبیبؐ کے غلام ہیں۔ ہم نے شبستان ہند میں شمع توحید روشن کی حکم تیرا تھا۔ کفر کی خزاں کو توحید کی بہار کا لبادہ پہنادیا حکم تیرا تھا۔ ذوق عربانی کو حیا کا زیور پہنادیا حکم تیرا تھا۔ عورت طوائف تھی ماں کا درجہ دیا حکم تیرا تھا۔ شیطان کے پچاریوں کو آداب بندگی سکھائی حکم تیرا تھا۔ پتھر کے اصنام کے آگے سربسجود ہونے والوں کو تیرے آگے سرجھکانے کا سبق پڑھایا حکم تیرا تھا۔ انسانوں کو درس انسانیت دیا حکم تیرا تھا۔ آدمی کو آدمیت کا جام پہنایا حکم تیرا تھا۔ ضرب توحید سے طاغوتی طاقتوں کا سرپاش پاش کردیا حکم تیرا تھا۔ اتباع حکم کی جزا تو ملے گی لیکن سزا بھی مل رہی ہے یہاں تیری دنیا میں۔ یہ آزمائش ہے یا سزا اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ لیکن تیرے نام لیوا تیرے کلمہ گو، تیرے حکم پر وقت کے نمرود کی آتش میں آج بھی سنت ابراہیمی کی پیروی کرنے تیار ہیں۔ پھر بھی ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں کب تک میرے مولیٰ۔
میں سجدہ ریز ہوکر بارگاہ ایزدی میں آنسو بہاتے ہوئے دعا گو تھا۔ اپنے رب کی رحمت کو للکار رہا تھا۔ ہندوستان ہی کیا سارے عالم کے مسلمانوں کی مظلومیت کی دہائی دے کر رحم کی بھیک مانگ رہا تھا۔ اے قادر مطلق تو دانا و بینا ہے تجھے تو اونگھ تک نہیں آتی۔ اے غفور الرحیم دیکھ خون مسلم کتنا ارزاں ہوچکا ہے۔
ملک شام میں ہزاروں مسلمان مرد و زن اور بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہنوز یہ خونچکاں داستاں وقت کے ہاتھوں لکھی جارہی ہے۔ تیری دنیا کے ہر گوشے میں کسی نہ کسی عنوان کے تحت مسلمانوں کو کوٹا پیٹا کاٹا جارہا ہے۔ آگ کے الائو انہیں جلانے کے لیے روشن ہیں۔ کلیوں کی طرح معصوم بچے بیدردی سے مسلے جارہے ہیں۔ پھولوں کی طرح خوبصورت بچیوں کی عصمت تار تار کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے کھیت کھلیان نذر آتش کئے جارہے ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی کمائی تباہ کی جارہی ہے۔ یہ تیرے نام لیوا ظلم کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ ان کی چیخ و پکار سے شاید تیرے عرش کے پائے لرز رہے ہوں گے۔
سرزمین ہند بھی تیرے نام لیوائوں کے لہو سے لالہ زار ہے۔ آزادی کے 70 سال کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوچکی ہے۔ ہندوستان کا وہ کونسا گلی کوچہ ہے جو ہمارے خون سے لالہ زار بنا ہوا نہیں ہے!؟ گجرات میں بے گناہ معصوم بے سہارا بے کس مسلمانوں کے قتل اور انہیں نذر آتش کرنے کے واقعات یاد کرکے آج بھی ہم لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔

2014ء میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جس طرح مسلمانوں کو بغیر کسی جرم کے سزائے موت دی جارہی ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔مولیٰ تو سن رہا ہے نا میری فریاد۔ دیکھ مولیٰ کوہِ غم ٹوٹنے کے باوجود تیرے بندوں نے دامن اسلام نہیں چھوڑا۔ دامن رسولؐ کو نہیں چھوڑا۔ شمع توحید کو بجھنے نہیں دیا۔ بھوکے رہے پیاسے رہے۔ بے روزگار رہے۔ بے زمین رہے۔ بھیک مانگتے رہے۔ غیروں کی پاپوش برداری کرتے رہے۔ زمین کو بستر بنایا پتھر کو تکیہ بنایا۔ لیکن دامن اسلام سے لپٹے رہے۔ جسم کے تکڑے ہوگئے۔ معصوم بچے نذرآتش ہوگئے۔ لخت جگر کی گوہر عصمت آنکھوں کے سامنے لٹ گئی، دیکھتے رہے۔ 16 ، 18 سال کی کڑیل جوان بیٹیوں کے لاشے اٹھائے پیوند خاک کیا لیکن جئے سری رام نہیں کہا… بابری مسجد شہید کردی گئی لیکن مسجدوں میں اذانیں بلند کرتے رہے۔ سربسجود ہوتے رہے۔ یا رحیم یا کریم اب تو اپنا دامن رحمت پھیلا آنسو تھے کہ بہے جارہے تھے کہ اچانک ایک نورانی ہیولا میرے سامنے نمودار ہوا۔ ایک گرجدار آواز میرے پردہ سماعت سے ٹکرائی۔ کیوں رو رہا ہے؟ نادان اپنی محرومیوں پر آنسو بہانے کے بجائے یاد کر کل یہی ہندوستان تیرے زیر نگیں تھا۔ ہندوستان کی امامت تیرے سپرد کی گئی تھی۔ ایک ہزإار سال تک سریر آرائے سلطنت رہے لیکن خطہ ہند کو لبادہ اسلام نہیں پہنایا۔ نازنینان ہند کو جالہ عقد میں لانے کے بجائے انہیں داشتہ بطور استعمال کیا۔ باشندگان ملک کو مسلمان بنانے کے بجائے انہیں یاد تو غلام بنائے رکھا یا پھر ان سے خوفزدہ رہے۔ یا ان کی چاپلوسی کرتے رہے۔ یہ ملک پر تمہیں اس لیے مقتدر اعلی نہیں بنایا تھا کہ تم عیش و عشرت کے تاریخ ہند میں سیاہ باب رقم کرتے رہو۔
وہ گرجتا رہا اور کہا تاریخ ہند پڑھی ہے تونے ، نہیں تو اب پڑھ… طباطبائی، سیرالتاخرین، فلپ وڈروف کی تصنیف THE MEN WHO RULED INDIA جیسی تحریریں تیرا ماضی تیرا کردار تجھے بتائیں گے کہ کس طرح مسلم حکمرانوں نے ’’شمشیر وسنان اول طائوس ورباب آخر‘‘ کا سبق اپنے عیش و عشرت میں بھلادیا تھا۔ مذہب سے دور ہوگئے۔ شریعت محمدؐ کو فراموش کردیا۔ اسلامی قوانین کو ایک جام شراب ایک گلبدن کی رعنائیوں کے عیوض پس پشت ڈال دیا۔ نہ حمیت باقی رہی نہ غیریت نہ جوش ایمانی باقی رہی۔ نہ حرارت ایمانی ۔ نتیجتاً قہر خداوندی کی بجلی کڑکی… نادرشاہ کی تلوار، امیر تیمور کی شمشیر، عبدالقادر روہیلہ کی ہیئت نے دہلی کو مردوں کی بستی بنادیا۔ نعشوں کی سڑن و بدبو سے دماغ پھٹنے لگے۔ ہزاروں مسلمان تہہ تیغ کردیئے گئے۔ ایک اکیلے نادرشاہ نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ دی مغل امپائر کے مصنف ایچ جی کین نے لکھا کہ عبدالقادر روہیلہ نے بھی سینکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ درندوں نے بھی اس خونچکاں داستان میں کچھ اس طرح اضافہ کیا کہ اس کو سنتے ہوئے یا پڑھتے ہوئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جان نکلسن نے مسلمانوں کو زندہ رکھ کر کھال اتارنے کے احکامات جاری کردیئے۔ انہیں زندہ جلانے کا قانون منظور ہوا۔ الہٰ آباد کانپور دہلی میں بے حساب مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ پٹھانوں کی بستیاں اجاڑدی گئیں۔ محترم حسن نظامی اپنی کتاب ’’دہلی کی جان کنی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ جان نکلسن نے مغل شہزادوں کو قتل کرکے ان کا خون پیا تھا۔ چاندنی چوک میں لاکھوں مسلمانوں کو پھانسی دے دی گئی۔ ہزاروں شریف خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئیں۔ سید کمال الدین حیدر نے اپنی تصنیف ’’قیصر التواریخ‘‘ میں لکھا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کو پھانسی دی گئی یا تو پھر قتل کردیا گیا۔
سقوط حیدرآباد کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولیس ایکشن میں تین لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔ سینکڑوں خواتین نے اپنی آبرو کی حفاظت کے لیے بائولیوں میں پناہ لے لی۔
اسی طرح غرناطہ میں مسلمانوں کے آٹھ سو سال کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ظلم کی سیاہ رات نے اپنا دامن پھیلادیا اور پھر مورخ کی آنکھ نے لاکھوں مسلمانوں کا قتل ہوتے دیکھا۔ انہیں سور کا گوشت کھلایا گیا، شراب پلائی گئی۔ ان کی عورتوں کو لونڈی بنالیا گیا۔
روسی اژدہے نے سائبریا کریمیا اور سمرچی جیسے شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کو نگل لیا۔ سقوط بغداد کا سانحہ عظیم مسلمانوں کے دل و دماغ پر نقش ہے۔سن اس ہیولے نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں سے زیادہ کوئی اور قوم ظلم و ستم کا شکار نہیں بنی۔ اس کے باوجود کیا اسلام کے سورج کو گہن لگ گیا؟ کیا کمیونزم کی طرح اسلام کی تعلیمات کا پیرہن تارتار ہوگیا؟ کیا شریعت محمدی کو آج کے یاجوج ماجوج نے اپنی گندی زبان سے چاٹ چاٹ کر ختم کردیا!؟
یاد رکھ اسلام کا خاتمہ اس دنیا کا خاتمہ ہے
مسلمان مٹ سکتا ہے اسلام نہیں مٹ سکتا
نمرود ختم ہوگیا اسلام ختم نہیں ہوا۔ فرعون غرق آب ہوگیا اسلام باقی ہے۔ شداد کی جنت صفحہ ہستی سے مٹادی گئی اسلام کو مٹایا نہیں جاسکا۔ ہلاکو کے ظلم کا پرچم سرنگوں ہوگیا اسلام کا پرچم آج بھی بلند ہے۔ قوم لوط مٹادی گئی۔ مسلمان باقی ہیں۔ قوم عاد تباہ کردی گئی۔ مسلمان باقی ہیں نینوا اور بابل کے شہر تباہ کردیئے گئے مسلمان باقی ہیں۔
افسوس تو یہ کہ آج مسلمانوں کی تباہی کے ذمہ داری خود مسلمان ہیں جبکہ اللہ فرماتا ہے ’’تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘
اس ہیہولے نے کہا بتا آج کا مسلمان کیا مومن ہے؟ پھر وہ رحمت خداوندی کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے۔عدالت کا صداقت کا شجاعت کا جس قوم نے سبق بھلادیا وہ امامت کی سند پر کیسے فائز ہوسکتی ہے یا جو محمدؐ سے وفانہیں کرتی وہ قوم لوح و قلم کی حقدار کیسے ہوسکتی ہے؟
میں نے خوف سے لرزتے ہوئے پوچھا آپ کون ہیں اس ہیولے نے جواب دیا۔میں تیری بے حیائی بے غیرتی بے حمیتی بے ایمانی بے ضمیری بزدلی نکمے پن جہالت کمینگی ملت سے غداری، ملت کے قافلے کی رہزنی مذہب اسلام سے دوری شریعت محمدیؐ سے غفلت کی تاریخ ہوں۔اسلام کے اصولوں پر قربان ہوجا دنیا تیری ہے۔