ظفر آغا
ہندوستانی مسلمانوں کی سیاست میر جعفر و میر صادق جیسے کرداروں سے غالباً کبھی پاک نہیں ہوسکتی ہے ۔ اگر جعفر و صادق نے عین موقع پر اپنے ہی بادشاہوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر بنگال و دکن انگریزوں کے حوالے کردیا تھا تو حالیہ پارلیمانی چناؤ میں درجنوں خود ساختہ مسلم قائدین دھوکے سے مودی کو ہندوستان حوالے کرنے پر کمربستہ ہیں ۔ کیونکہ پچھلے مرحلے میں دہلی اور اترپردیش میں جو چناؤ ہوئے ان میں مسلمانوں کا جو طرز ووٹنگ نظر آیا اس سے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ مسلمان خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کو آمادہ ہیں اور یہ راہ ان کو سجھانے کیلئے خود اس کی اپنی صفوں میں ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی میر جعفر و میر صادق موجود ہے ۔ یہ میر جعفر و میر صادق کبھی علماء کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں تو کبھی خود ساختہ مسلم قائد کی شکل اختیار کرکے مسلم ووٹر میں بھرم پیدا کردیتے ہیں ۔ لیکن اکیسویں صدی کے تمام میر جعفر و میر صادق کا مقصد محض یہ ہے کہ حالیہ چناؤ میں مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا ہوجائے اور کسی طرح نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن جائیں ۔ مودی کو وزیراعظم بنانے کے عوض دور حاضر کے میر جعفر و میر صادق کی تجوریاں تو بھر جائیں گی لیکن ہندوستانی مسلمانوں کے پیروں میں غلامی کی بیڑیاں ویسے ہی پڑیں گی ، جیسے انگریزوں کے دور میں پڑگئی تھیں ، لیکن حالیہ چناو میں یہ بات کیونکر ہورہی ہے کیونکہ 1990 کی دہائی سے تو مسلمان متحدہ ووٹنگ کرکے اس ملک کا بادشاہ گر بن چکا تھا ۔ آیئے ذرا اس صورت حال پر نظر ڈالیں ۔
گجرات فسادات کے بعد 2004 کے پارلیمانی چناؤ میں ہندوستانی مسلمانوں نے اٹل بہاری واجپائی جیسے قدآور بی جے پی لیڈر کو اپنی متحدہ ووٹنگ سے اقتدار سے باہر کرکے سارے ہندوستان کو حیرت زدہ کردیا تھا ۔ بی جے پی کی اس ہار میں مسلمانوں کا اس قدر نمایاں رول تھا کہ خود واجپائی نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ وہ گجرات فسادات کے سبب چناؤ ہار گئے ۔ یعنی مسلمانوں نے 2004 میں گجرات فسادات کا بدلہ لے لیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 2009 میں ایک بار پھر کشمیر سے کنیا کماری تک متحدہ مسلم ووٹ بینک نے لال کرشن اڈوانی کے وزیراعظم بننے کا خواب چکناچور کردیا ۔ لگاتار دو پارلیمانی انتخابات کی شکست سے بی جے پی انتشار کی کیفیت میں پہنچ گئی ۔ بی جے پی کی اعلی قیادت میں پھوٹ پیدا ہوگئی ۔ اس صورت حال کا بنیادی سبب پارٹی کا لگاتار دس برس تک اقتدار سے باہر رہنا تھا اور اس صورتحال کی وجہ بہت حد تک مسلم ووٹ بینک کی متحدہ حکمت عملی تھی ۔
ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار مسلمانوں کی متحدہ اسٹرٹیجک ووٹنگ سے پریشان ہوگیا ۔ پھر مسلمانوں نے اپنے دشمن کو ہرانے کے لئے قیامت کی حکمت عملی ایجاد کی تھی ۔ اس کا نشانہ پچھلے دو پارلیمانی انتخابات میں کسی کو جتانا نہیں بلکہ اپنے مخالف بی جے پی کو ہرانا تھا ۔ اور اس مقصد کے ساتھ اب مسلمانوں نے ہر حلقہ انتخاب میں اس سیکولر پارٹی کے نمائندے کو اپنا متحدہ ووٹ ڈال دیا ، جس کو مسلم ووٹ ڈالنے سے بی جے پی چناؤ ہار سکتی تھی ۔
چنانچہ واجپائی وزارت عظمی کا عہدہ کھوبیٹھے اور اڈوانی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا ۔ اب 2014 کے چناو میں بھی اگر ایسا ہوجاتا تو نہ صرف مودی ختم ہوجاتے بلکہ بی جے پی ہندوستانی سیاست میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ۔ اس لئے سنگھ اور مودی نے 2014 کے چناؤ کی حکمت عملی بنانے سے قبل سب سے پہلے یہ سوچا کہ بھائی اس مسلم ووٹ بینک کا کیا کیا جائے ۔ کیونکہ مودی کا نام وزارت عظمی کے عہدے کے لئے آتے ہی مسلمان تو اور متحد ہوجائیں گے ۔ آخر مسلمانوں کے اس اتحاد کو کیسے توڑا جائے ۔ چنانچہ مسلم اتحاد کو توڑنے کے لئے مودی اور سنگھ نے ایک انتہائی شاطر سازش رچی جس کے دو حصے ہیں ۔ اولاً سنگھ نے یہ سوچا کہ مودی کی مخالفت مسلمانوں کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اس لئے ایک ایسا فرنٹ کھڑا کردو جو مودی کو گالیاں بکے اور مسلمان اس کی مودی مخالفت کے نام پر اس کے اور دوسری سیکولر پارٹیوں کے بیچ بٹ جائیں اور بیچ سے بی جے پی کا نمائندہ نکل جائے ۔ مسلمانوں کو بانٹنے کے لئے سنگھ کی حکمت عملی کا دوسرا جزو تھا مسلم قوم میں موجود میر جعفر و میر صادق کو حلق تک انعام واکرام سے بھردو تاکہ بی جے پی کے مودی مخالف فرنٹ کی ’مارکٹنگ‘ کرکے مسلم ووٹ بینک کو بانٹ دے ۔
مودی اور سنگھ کی اس حکمت عملی کے پہلے جز کا نام عام آدمی پارٹی ہے جو انا ہزارے کے کاندھوں پر سوار ہو کر خود سنگھ کی کوکھ سے جنمی ہے ۔ اور اس کو مارکیٹ کرنے والے درجنوں میر جعفر و میر صادق قوم میں ہر قسم کا حربہ استعمال کررہے ہیں ۔ لکھنؤ سے کچھ علماء دہلی میں عین الیکشن کے درمیان شیعہ وقف کا معاملہ اٹھا کر شیعوں سے یہ اپیل کررہے ہیں کہ شیعہ کانگریس کو ووٹ نہ دیں ۔ آخر چناؤ کے درمیان یہ شیعہ سنی نفاق پیدا کرکے مسلم ووٹ بینک بانٹنے کے مترادف بات ہے کہ نہیں ۔ پھر اس طرح لکھنؤ کی سیٹ پر جہاں بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ کے خلاف متحدہ مسلم ووٹ بینک کو توڑنے کے لئے عام آدمی پارٹی نے ایک شیعہ فلم ایکٹر جاوید جعفری کو کھڑا کرکے لکھنؤ جیسی اہم سیٹ پر مسلم ووٹ بینک کو بانٹنے کی عام آدمی پارٹی کی کھلی سازش ہے کہ نہیں ۔ اسی طرح ابھی چند روز قبل دہلی میں جماعت اسلامی کی ویلفیر پارٹی نے عام آدمی کی حمایت میں اپیل کرکے مسلم ووٹ بینک کو اوکھلا ، جامع مسجد و مشرقی دہلی جیسے علاقوں میں بکھیرنے میں مدد کردی ۔ پھر چاندنی چوک کی مسجد کے پیش امام نے اپنے خطبوں کے ذریعہ کانگریس کی برائی بھلائی کرکے یہی کام کیا ۔ اسی طرح مغربی اترپردیش میں غازی آباد ، مظفر نگر ، علی گڑھ ، سہارنپور ، بجنور جیسے کٹر مسلم آبادی والے حلقوں میں جہاں دہلی کے ساتھ ووٹ پڑا وہاں سے بھی مسلم ووٹ میں انتشار کی خبر آئی ۔ ہاں سنتے ہیں بہار میں ابھی تک مسلمان عقلمندی سے کام کررہے ہیں ۔
2014 کے چناؤ مسلم اقلیت کی گردنوں کے چناؤ ہیں ۔ کیونکہ اس بار لغزش ہوگئی تو ہندوستان مودی ماڈل کے طرز پر چلے گا اور اس مودی ماڈل میں گجرات کی طرح پورے ہندوستان کے مسلمان کو سر اٹھا کر جینے نہیں دیا جائے گا ۔ اس پس منظر میں اگر مسلم ووٹ بینک انتشار کا شکار ہوا تو پھر گجرات جیسی نسل کشی کے لئے تیار ہوجایئے ۔ اور اگر اس سازش کو ناکام بنانا ہے تو متحد رہئے ۔ اس لئے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیکولر قوتیں ایسے مودی مخالف مصنوعی فرنٹ یا پارٹی سے ہوشیار رہیں جو مسلم ووٹ بینک سمیت سیکولر ووٹ بینک کو مصنوعی مودی مخالفت کے نام پر بانٹ دیں ۔ سیکولر طاقتوں کی حکمت عملی کا دوسرا اہم جز یہی ہونا چاہئے کہ ہر پارلیمانی حلقے میں جو بھی پارٹی بی جے پی کو ہراسکتی ہو متحد ہو کر اپنا ووٹ بانٹے بغیر صرف اسی پارٹی کو کامیاب بنائیں ۔ ملک گیر سطح پر ایسی مضبوط جماعت کانگریس ہی ہوسکتی ہے ، اسلئے جہاں کانگریس مضبوط ہو وہاں کانگریس کا ساتھ دیں الغرض میر جعفر و میر صادق سے ہوشیار ۔ اگر لغزش ہوئی تو بس غلامی کی بیڑی کے سوا اور کچھ مقدر نہیں ہوگا ۔