کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں

عمران خاں کا نعرہ … مودی آئے دوبارہ
بابری مسجد … مصالحت کا کیا ہوا ؟

رشیدالدین
نریندر مودی کے حق میں پاکستان سے عمران خاں کی انتخابی مہم ۔ عام طور پر ایک ملک کے انتخابات میں دوسرا ملک مداخلت نہیں کرتا کیونکہ حکومت کس کی ہو یہ طئے کرنا اسی ملک کے عوام کا کام ہے۔ دوسرا ملک اپنی پسند عوام پر مسلط نہیں کرسکتا لیکن نریندر مودی کی تائید میں عمران خاں کے بیان سے مودی کی پاکستان کی ہر گھڑی مخالفت کا پول کھل چکا ہے ۔ پاکستان کی مخالفت جس پارٹی کا ایجنڈہ ہو اور جس پارٹی نے 2025 ء تک پاکستان کو ہندوستان میں ضم کرنے کا نشانہ مقرر کیا ہو، اس کے وزیراعظم سے پاکستانی وزیراعظم کی ہمدردی کیوں ؟ پاکستان کے خلاف بیان بازی سے جن کی زبان نہیں تھکتی، ایسی شخصیت کو عمران خاں دوبارہ وزیراعظم کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ پلوامہ دہشت گرد حملے اور پاکستانی علاقہ میں ہندوستان کی فضائی کارروائی کے بعد حالات کشیدہ اور سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ، فوجی و سویلین ہلاکتیں روز کا معمول بن چکی ہوں ایسے میں عمران خاں کی مودی کو تائید نے عوام کے ذہنوں میں کئی سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا تھا کہ انتخابی فائدہ کیلئے اپریل کے اواخر تک پاکستان پر ایک اور حملہ کیا جائے گا ۔ ابھی سیاسی حلقوں میں یہ بیان تازہ تھا کہ عمران خاں پاکستان میں بیٹھ کر مودی کے اسٹار کمپینر بن گئے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ نریندر مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کا بہتر موقع رہے گا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خاں کا یہ بیان بی جے پی کے انتخابی منشور کی اجرائی کے بعد آیا جس میں بی جے پی نے کشمیر کو خصوصی موقف سے متعلق دفعات 370 اور 35A کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان جو خود کو کشمیریوں کے کاز کا چمپین قرار دیتا ہے، وہ اچانک خاموش کیوں ہوگیا۔ عمران خاں نے بی جے پی کے اعلانات کو محض انتخابی وعدے قرار دے کر کوئی اہمیت نہیں دی۔ حالانکہ پاکستان کی خاموشی اس کی کشمیر پالیسی کے خلاف ہے۔ کشمیریوں کیلئے ہر بین الاقوامی فورم میں پاکستان نے آواز اٹھانے کو اپنے اوپر لازمی کرلیا ہے ۔ مودی کی تائید میں عمران خاں کے بیان کی ٹائمنگ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ ملک میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی سے ایک دن قبل عمران خاں نے مودی کی تائید کیوں کی ؟ کہیں یہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان میچ فکسنگ کا حصہ تو نہیں ؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو رائے دہی سے عین قبل مودی کی تائید کی ضرورت نہ پڑتی۔

ویسے بھی نریندر مودی کے پاکستانی وزرائے اعظم سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ بھلے ہی سرحدوں اور سفارتی سطح پر کشیدگی کیوں نہ ہو لیکن مودی نے نواز شریف اور پھر عمران خاں سے شخصی طور پر دوستانہ تعلقات کو قائم رکھا ۔ پلوامہ دہشت گرد حملہ کے بعد کشیدہ حالات کے باوجود مودی پاکستان کے قومی دن پر عمران خاں کو مبارکباد پیش کرنا نہیں بھولے۔ نواز شریف کو نہ صرف اپنی حلف برداری میں دہلی مدعو کیا تھا بلکہ سالگرہ کی مبارکباد دینے بن بلائے مہمان بن کر لاہور پہنچ گئے تھے ۔ اگر مودی دوبارہ برسر اقتدار آئیں تو اس مرتبہ عمران خاں حلف برداری تقریب کے مہمان ہوں گے ۔ مودی اور عمران خاں کی میچ فکسنگ سے پتہ چلا کہ پاکستان کی مخالفت بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سیاسی مجبوری ہے۔ عمران خاں کی تائید پر آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی بولتی کیوں بند ہے؟ خود کو سب سے بڑا دیش بھکت اور باقی دوسروں کو دیش دروہی قرار دینے والوں کی دیش بھکتی آخر کہاں چلی گئی ؟ مودی اور بی جے پی کی مخالفت کرنے والا ملک دشمن ہوگیا لیکن اب پاکستان نے جس کی تائید کردی وہ دیش بھکت ہے یا دیش دروہی اس کا فیصلہ سنگھ پریوار کرے۔ انتخابی مہم میں مودی کہہ رہے تھے کہ پاکستان اور اس کے حامی مجھے ہرانا چاہتے ہیں لیکن ہر کوئی جان چکا ہے کہ پاکستان مودی کی تائید کر رہا ہے ۔ بی جے پی کہتی رہی کہ مودی کی شکست پر پاکستان میں آتشبازی ہوگی لیکن اب تو عمران خاں نے مودی کے لئے جشن کے اہتمام کا اشارہ دے دیا ہے ۔ امیت شاہ کی زبان پر تالے کیوں پڑگئے ہیں ؟ اگر عمران خاں مودی کے بجائے راہول گاندھی یا کسی اور کے حق میں بیان دیتے تو آسمان سر پر اٹھالیا جاتا اور راہول گاندھی کو پاکستانی ایجنٹ کا لیبل لگ جاتا۔ بات بات پر مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ یا بھیج دینے کی دھمکیاں دینے والے یوگی ادتیہ ناتھ ، سبرامنیم سوامی اور گری راج سنگھ سے کوئی پوچھے کہ پاکستان کے ایجنٹ کون ہیں؟ مسلمان یا مودی ؟ نریندر مودی نے پلوامہ دہشت گرد حملہ کے شہید جوانوں کے نام پر ووٹ مانگے۔ بالا کوٹ میں دہشت گرد ٹھکانوں پر حملہ اور سینکڑوں ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جبکہ اس دعویٰ کی سچائی ثابت نہ کرسکے تو اپوزیشن کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیا ۔ یہ تمام حربے جب ناکام ہوگئے اور انتخابی مہم میں موقف کمزور ہوگیا تو عمران خاں مدد کیلئے میدان میں کود پڑے ۔ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مودی حکومت دونوں ممالک کے تنازعات حل کرنے میں سنجیدہ ہے۔ عمران خاں کو شائد یہ یقین ہے کہ پاکستان میں ان کے برے وقت میں مودی مدد کیلئے کھڑے ہوں گے۔

بی جے پی اور سنگھ پریوار کو کم از کم مسلمانوں کو پاکستانی قرار دینے کا گھناؤنا کھیل بند کرنا چاہئے ۔ اب جبکہ ان کے وزیراعظم کی پاکستان سے دوستی کی حقیقت آشکار ہوچکی ہے اور عمران خاں نے سچے دوست کی طرح برے وقت میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انتخابی مہم کے آغاز پر مودی کا موقف اپوزیشن سے مستحکم تھا لیکن پلوامہ دہشت گرد حملہ کو روکنے میں اور پھر پاکستانی علاقہ میں سرجیکل اسٹرائیک کی سچائی سے قوم کو آگاہ کرنے میں ناکامی کے سبب عوام بی جے پی کے دعوؤں پر یقین کرنے تیار نہیں ہے ۔ شہید جوانوں کے خاندان بھی اس بات پر ناراض ہیں کہ مودی جوانوں کی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں ۔ مودی اور امیت شاہ نے انتخابی جلسوں میں کھل کر اپنا ووٹ پلوامہ کے شہیدوں کے نام کرنے کی عوام سے اپیل کی۔ بی جے پی نے کشمیر کے خصوصی موقف کے بارے میں انتخابی منشور میں جو اعلانات کئے ہیں، اس پر کشمیری عوام اور کشمیری جماعتوں کی بے چینی واجبی ہے۔ کشمیر کے انڈین یونین میں انضمام کے وقت خصوصی مراعات کا وعدہ کرتے ہوئے اسے دستور میں شامل کیا گیا تھا۔ نریندر مودی کو حکمرانی کی پہلی میعاد اور جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کے دوران خصوصی مراعات ختم کرنے کا خیال نہیں آیا۔ دراصل رائے دہندوں کو مذہب کی بنیاد پر منقسم کرنے کیلئے یہ چال چلی گئی۔ ہندوستان کا دستور کوئی بی جے پی کا انتخابی منشور نہیں کہ ہر الیکشن میں تبدیل کردیا جائے ۔ بی جے پی یہ ہرگز نہ بھولے کہ وہ صرف 33 فیصد ووٹ کے ذریعہ ملک میں برسر اقتدار ہے۔ 67 فیصد عوام بی جے پی کے ساتھ نہیں ہے ۔ یہ تو اپوزیشن کی بدقسمتی کہئے کہ ان میں پھوٹ کا فائدہ راست طور پر بی جے پی کو ہوا۔ بی جے پی جاریہ عام انتخابات میں دوبارہ اپوزیشن میں پھوٹ پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کے سیکولر ووٹ تقسیم ہوجائیں۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی ، یکساں سیول کوڈ ، رام مندر کی تعمیر اور طلاق ثلاثہ بل کی منظوری جیسے وعدوں کے ذریعہ ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنا چاہتی ہے ۔ ہندوستان کی بنیادیں رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مبنی ہیں جنہیں کوئی بھی طاقت کمزور نہیں کرسکتی۔ ملک کے 125 کروڑ عوام کی اکثریت دستور ، سیکولرازم اور جمہوریت پر اٹوٹ ایقان رکھتی ہے۔ انتخابی فائدہ کیلئے حساس موضوعات کو اٹھایا جائے یا پھر عمران خاں کی تائید حاصل کی جائے۔ ان باتوں سے عوام کے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور بی جے پی کو فائدہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ کے حل کیلئے تین مصالحت کاروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے انہیں چار ہفتوں کا وقت دیا تھا۔ کمیٹی کو چار ہفتے بعد اپنی کاوشوں کے بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرنی ہے۔ کمیٹی کو دی گئی مہلت ختم ہونے کو ہے لیکن تنازعہ کی یکسوئی کے سلسلہ میں کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ سہ رکنی کمیٹی نے تنازعہ کے فریقین سے مذاکرات کئے یا نہیں اس بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی مسلم فریقین نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی جبکہ وشوا ہندو پریشد اور دوسروں نے مخالفت کی ۔ ظاہر ہے کہ سہ رکنی مصالحت کاروں کو تمام فریقین کو ایک رائے پر متفق کرنا آسان نہیں ہے ۔ ایودھیا اراضی اور مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر جب کئی دعویدار ہوں تو پھر کس طرح قابل قبول حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ بہتر مساعی کی لیکن اس کا نتیجہ خیز ثابت ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف یہ تنازعہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے تو دوسری طرف بی جے پی نے اسے انتخابی منشور میں شامل کیا ۔ کیا بی جے پی نہیں جانتی کہ عدالت میں زیر دوران معاملات پر سیاست نہیں کی جاسکتی۔ ویسے بھی مذہب یا کسی مذہبی مسئلہ پر ووٹ مانگنا انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کو دستور ، قانون اور جمہوریت کا پاس و لحاظ کہاں جو کہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کرے گی ۔ وہ تو دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ تازہ سیاسی صورتحال پر نامور شاعر افتخار عارف کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
کہانی میں نئے کردار شامل ہوگئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشہ ختم ہوگا