کھانا بچاؤ، بھوکے کو کھلاؤ

کے این واصف
خلیجی ممالک میں آئے دن کسی نہ کسی عنوان سے این ار آئیز کی محفلوں کے انعقاد کا سلسلہ لگا رہتا ہے ۔ یہ محفلیں یہاں کی مختلف ہوٹلوں کے ہالس میں منعقد ہوتی ہیں اور ہر محفل کا اختتام عشائیہ پر ہوتا ہے ۔ اچھا لگتا ہے کہ احباب کسی سماجی ، سیاسی ، ادبی یا مذہبی موضوع پر گفتگو کیلئے یکجا ہوتے ہیں اور پھر سب ملکر ڈنر بھی کرتے ہیں لیکن تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب ان تقاریب میں کھانے کا ضیاع ہوتا نظر آتا ہے۔ خصوصاً ان پارٹیوں میں کھانا زیادہ ضائع ہوتا ہے ، جہاں Buffets لگائے جاتے ہیں۔ لوگ اپنی پلیٹس میں سارے ایٹمس ڈال لیتے ہیں اور ساری چیزیں بڑی مقدار میں چھوڑ کر اُٹھ جاتے ہیں۔ اس بچے ہوئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے اور ضرورت مندوں تک پہنچانے کا کوئی موثر نظام تیار ہونا چاہئے ۔ اگر ہر انفرادی شخص اپنے گھر یا ریسٹورنٹ میں اپنا بچا ہوا کھانا سلیقہ سے باندھ کر کسی غریب/ فقیر کو دینے کی عادت ڈال لے تو ضرورت مندوں تک کھانا پہنچ جائے گا اور اس کیلئے آپ کو اپنے حصہ میں سے دینا نہیں ہے بلکہ وہ کھانا جو آپ نے بچادیا وہ کوڑے دان کی نذر کرنے کی بجائے کسی ضرورت مند تک پہنچادیا جائے ۔

کھانے پینے کی اشیاء ضائع ہوتی نظر ائیں تو ہر سمجھدار انسان اور خوف خدا رکھنے والے بندے کے دل کو تکلیف ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر مشاہدہ یہ ہے کہ ہماری اکثر تقاریب میں کھانے کا بے دریغ ضیاع دیکھنے کو ملتا ہے۔ پچھلے ہفتہ ہمارے ایک عرب دوست نے ہمیں ایک ریسٹورینٹ میں لنچ پر مدعو کیا ۔ جہاں ہمارے علاوہ ہمارے تین چار دوست اور بھی تھے ۔ ہمارے عرب داعی نے کھانا آرڈر کیا ۔ جب ہم سب پوری طرح سیر ہوکر کھاچکے تو ہم نے دیکھا کہ آرڈر کیا ہوا آدھے سے زیادہ کھانا بچا ہو رہ گیا ہے۔ ہم نے اپنے میزبان سے کہا کہ ہمیں اتنا زیادہ کھانا آرڈر نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ یہاں کا کلچر ہے ۔ ہم برتن چاٹ کر نہیں کھاتے ۔ ہم نے ا پنے میزبان سے کہ ہم اسی دنیا میں جی رہے ہیں، جہاں انسانوں کی ایک بڑی تعداد پیٹ بھر کھانے کیلئے ترستی ہے ، ہم اسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں بچے کوڑے دانوں میں سے غذائی اشیاء نکال کر کھاتے ہیں، ہم اس دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لاکھوں بچے غذا کی کمی کی وجہ سے نحیف و ناتواں ہوکر بہتر نشو نما سے محروم ہوجاتے ہیں یا مرجاتے ہیں۔ ہم اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتے تھے مگر ہم نے دیکھا کہ محفل پر ایک اضطراب سا چھا گیا ہے ۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اچانک ہمارے میزبان نے کہا شائد ہمیں اب چلنا چاہئے ۔ محفل برخواست ہوگئی ۔ بغیر کسی گرم جوش وداعی ملاقات کے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے احباب تک ہمارا پیام پہنچ ضرور گیا ہوگا۔

آج کے انسان نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے اتنی ترقی کی کہ پچھلے وقتوں کا انسان جن چیزوں کا تصور نہیں کرسکتا تھا ، وہ آج حقیقت کے روپ میں ہمارے سامنے ہے۔ اس نے ستاروں پر کمندین ڈالیں۔ زمین سے اُٹھ کر چاند پر قدم رکھا لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو بہت دلفریت اور رنگین ہے۔ اس کا دوسرا رخ اتنا ہی بھیانک اور مایوس کن ہے ۔ مختصر یہ کہ اس ساری ترقی کے باوجود آج بھی مفلسوں کو روٹی میسر نہیں ہے۔ جی ہاں ، اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں آج تقریباً 95 کروڑ لوگ ہر روز بھوکے سوجاتے ہیں۔ بھوک اور خوراک کی کمی اتنا ہی پرانا مسئلہ ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ۔ انسان کی جستجو نے اسے چاند تک رسائی دلائی لیکن انسان کی بنیادی ضرورت یعنی روٹی آج بھی کروڑہا افراد کا مسئلہ ہے ۔ ان کروڑہا انسانوں کو غذا میسر نہ ہونے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو غذائی اشیاء کا طلب کے مطابق پیداوار نہ ہونا اور دوسرے خوراک کا ضیاع۔
حال میں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ دنیا میں ہر سال ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک ضائع ہوجاتی ہے جس کے عالمی معیشت پربہت خراب اثرات پڑتے ہیں۔ غذائی اشیاء کے اس ضیاع سے عالمی نقصان 750 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق خوراک کا سب سے زیادہ ضاع چین اور کچھ ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق مجموعی طور پر دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی خوردنی اشیاء کا ایک تہائی حصہ ضائع ہوجاتا ہے اور یہ ضیاع سوئزرلینڈ کی مجموعی شرح پیداوار کے لگ بھگ ہے ۔ یہ تمام خوراک تقسیم کے ناقص نظام کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ میں افسوس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ دنیا میں ہر روز 90 کروڑ افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس کا روک تھام عالمی ضمیر اور شعور کی بیداری کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ آج ہم اتنی لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے جس بڑے پیمانے پر کھانے پینے کی اشیاء ضائع کر رہے ہیں ،ہماری آنے والی نسلوں کو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی جبکہ عالمی آبادی میں آئندہ 33 برسوں میں مزید دو ارب افراد کا اضافہ ہونے والا ہے ۔ پتہ نہیں اس وقت کس طرح اور کہاں سے انسانوں کو غذا میسر آئے گی ۔ بتایا گیا کہ اگر خوراک کا ضیاع روکا جائے تو فاقہ کشی سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا اور اس کی بتداء دولتمند ممالک کے رہن سہن کے اندداز میں تبدیلی سے ہوسکتا ہے ، جہاں اب سبزیوں کے خریدار نہیں ملتے ۔ زیادہ آمدنی والے دولتمند ممالک زیادہ تر خوردنی اشیاء کے تصرف کے دوران خوراک ضائع کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی اچھی خاصی مقدار اس کی تیاری کے دوران ضائع ہوجاتی ہے ۔ ہر سال خوراک تو پیدا ہوتی ہے لیکن کھائی نہیں جاتی ۔ ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ ان کی پیداوار عالمی آبی وسائل کے بہت بڑے حصے کے استعمال سے ممکن ہوتی ہے ۔ اس طرح خوراک کے ساتھ پانی بھی ضائع ہوجاتا ہے ۔ اس طرح یہ دوگنا نقصان ہوتا ہے ۔ عالمی ادارہ خوراک و زراعت کا کہنا ہے کہ ایشیائی ممالک میں زیادہ تر خوردنی اشیاء فصل کی کٹائی کے بعد اس کے ناقص حمل و نقل اور ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے سے ضائع ہوتی ہیں۔ دوسری طرف شمالی اور لاطینی امریکہ میں گوشت کی صنعت بھی ماحولیاتی مسائل پیدا کرنے میں کسی سے کم نہیں۔ جہاں تک پھلوں کے ضیاع کا تعلق ہے ایشیاء ، یوروپ اور لاطینی امریکہ میں اس کی مقدار بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر دنیا خوراک کے ضیاع اور نقصانات کو موثر طور پر روکے تو دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی سے کہیں زیادہ خوردنی اشیاء اُگانے کی ضرورت بھی کم ہوجائے گی۔
آیئے ایک نظر اب اپنے ارد گرد پر ڈالتے ہیں یعنی سعودی عرب جہاں ہم برسوں سے مقیم ہیں ، جہاں آج کل اجناس ، پھل اور ترکاریاں بڑی مقدار میں اگائی جارہی ہیں۔ ورنہ چند سال قبل تک یہ چیزیں پڑوسی ممالک سے درآمد کی جاتی تھی۔ اب یہاں زراعت نے کافی ترقی کی ہے اور عصری طر یقے استعمال کئے جاتے ہیں جس سے غذائی اشیاء کا کھیتوں سے ما رکٹ اور صارف تک پہنچنے میں ضیاع کی شرح کم رہتی ہے ۔ یہاں ان کا نقل و حمل اور اسٹورز میں غذائی اشیاء کے محفوظ طریقہ سے رکھنے کے بھی معقول انتظام ہیں جس سے اشیاء کا ضیاع کم سے کم ہوتا ہے ۔ مگر ریسٹورنٹس پارٹیوں اور تقاریب میں جس بے دردی سے کھانے پینے کی اشیاء کا بیدردانہ ضیاع دیکھنے میں آتا ہے جبکہ ہمیں کھانے کا ایک دانہ بھی ضائع نہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ پانی تک کے برتنے میں احتیاط کا حکم دیا گیا ہے اور یہی حال ہندوستان میں بھی ہے ۔ خصوصاً حیدرآباد میں آج کل تقاریب میں کھانے کے لوازمات کی تعداد میں اضافے کی مقابلہ بازی اپنے عروج پر ہے ۔ لوازمات کی کثرت سے کھانا کافی ضائع ہوتا ہے ۔ شادی ، ولیمہ وغیرہ کی تقاریب میں 20 تا 30 قسم کے لوازمات رکھنا عام ہوگیا ہے ۔ لوگ ہر ائٹم اپنی پلیٹ میں اتار لیتے ہیں اور جو ائٹمس ان کے حسب ذائعہ نہ ہو انہوں نے کھائے بغیر ہی پلیٹ میں یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح وہ پلیٹ میں لیتے تمام لوازمات ہیں مگر کھاتے صرف دو ، ایک ائٹمس ہی جس سے میز پر غذائی اشیاء کے ڈھیر لگ جاتا ہے اور آخر کار وہ کوڑے دان کی نذر ہوجاتے ہیں۔

ہمارے علماء اور قائدین آئے دن اپنی تقاریر میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے اور عوام میں شعور جگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ نصیحت آمیز باتیں ہوا میں تحلیل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ان پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں افراد ہیں جن کو ایک وقت پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کھانے کا ضیاع روکنے کیلئے ہمیں باضابطہ مہم چلانی چاہئے تاکہ غذائی اشیاء کا ضائع کرنا جو ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے کل ہمارے لئے بڑا عذاب بن جائے گا ۔ اس سلسلے میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نے قدم تو اٹھائے ہیں مگر لگتا ہے کہ غذائی اشیاء کے ضیاع ہونے سے بچانے کیلئے مزید کاوشوں کی ضرورت ہے ۔ ’’کھانا بچاؤ، بھوکے کو کھلاؤ‘‘ کے عنوان سے ایک سخت مہم چلائی جانی چاہئے ۔ ’’کھانا بچاؤ ، بھوکے کو کھلاؤ‘‘ نعرے کو اتنا عام کرنا چاہئے کہ ہر انفرادی شخص اس پر عمل کرے۔
knwasif@yahoo.com