ڈاکٹر مجید خان
پڑھی لکھی سکون سے زندگی گذارنے والی ایک خاتون جس کے کوئی گھریلو یا ازدواجی مسائل نہیں تھے اپنے سنجیدہ ، سمجھدار شوہر اور سعادت مند لڑکے اور چاہنے والی کالج جانے والی بیٹی کے ساتھ صبح صبح مشورے کیلئے آتی ہے ۔ گھر میں رہنے والے تمام تر افراد کی موجودگی اُن کی متحدہ فکر کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ آج کل کے خاندانوں میں اتنا ٹھوس اور مکمل اتحاد کم ہی نظر آتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نظر آرہا تھا کہ چاروں فیملی کے لوگ مشورے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ورنہ آج کل تو یہ ہوتا ہے کہ صاحبزادے اپنی مصروفیات کی قربانی دینا نہیں چاہتے اور لڑکی سیل فون پر محظوظ ہوتے رہنے کی نئی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں برداشت کرسکتی ۔ جب چاروں کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو علانیہ پتہ چل جاتا ہے کہ ان خوشگوار تعلقات کا مرکزی کردار کون ہے ۔ ماں کی چمکتی ہوئی آنکھیں یہ بتارہی تھیں کہ اُن ہی کی شخصیت فعال اور موثر ہے ۔ اس کا اظہار یہ دیکھ کر بھی ہوتا ہے کہ کس کی زبان پہلے کھلتی ہے اور کون پہلے مخاطب ہوتا ہے ۔
اگر مریض پہلے مخاطب ہو تو یہ سب سے عمدہ بات ہے اور مسئلہ سننے سے پہلے ہی کچھ حد تک حل ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس مریض میں خود آگہی اور بصیرت جیسی نعمت جھلکتی ہے ۔ یعنی کھلے ذہن کا حامل ہے جب مریض جانتا ہے کہ اُس کا مسئلہ کیا ہے اور وہ خود مشورے و مدد کیلئے پیش ہوتا ہو تو علاج کے مرحلے آسان ہوجاتے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قدرت کم لوگوں کو یہ نعمت بخشتی ہے ۔ ساری دنیا دیکھتی ہے کہ موصوف کسی نفسیاتی یا دماغی بیماری کے مریض نظر آتے ہیں مگر اُن کو دوسروں ہی میں خرابی نظر آتی ہے ۔ اگر اس ٹیڑھی شخصیت میں ضد اور غصہ بھی شامل حال ہوجائے تو اﷲ کی پناہ مگر اس چھوٹے خاندان کا میں نے مثبت انداز میں استقبال کیا تو میرے اندازے کے مطابق خاتون نے کرسی آگے کھینچ کر کیفیت بیان کرنا شروع کردیا ۔
پہلے تو معذرت چاہی کہ کیفیت بیان کرنے میں زیادہ وقت لگ جائے گا اور پھر یہ کہنے لگی کہ جب تک آپ تفصیلات نہ سنیں گے میرے مسائل آپ سمجھ نہیں پائیں گے ۔ عارضی تشخیص تو میرے ذہن میں آنے لگی تھی مگر مریض کی مکمل تشفی کیلئے تفصیلات ضروری یا غیرضروری بیماری سے متعلقہ یا غیرمتعلقہ سننا بہتر نفسیاتی علاج کا لازمی جز بن جاتا ہے ۔
یہ بات عیاں تھی کہ موصوفہ نفسیاتی مسائل کے تعلق سے کافی معلومات رکھتی ہیں۔ بڑے صبرآزما طریقے سے اُن کی باتوں کی تفصیلات سُننا میرے لئے ضروری ہوگیا تھا ۔ یہ کوئی معمولی کیفیت بیانی نہیں تھی بلکہ ضرور وہ اپنے ذہن میں اس کو دہرائی ہوگی۔ ناتجربہ کار ماہر نفسیات اُن کو روکتے یا ٹوکتے یا پھر یہ کہتے ہیں کہ ہاں میں سمجھ گیا ۔ میرے ہاں ایسے کئی مریض آیا کرتے ہیں تو پھر ڈاکٹر مریض کے تعمیری تعلقات کاسلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور مریض بد دل ہوجاتا ہے۔ ایسے مریض یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی کیفیت بہت نرالی ہے اور اس کو سمجھنا مشکل ہے اگر ڈاکٹر اس کو سرسری طورپر برخاست کردیتا ہے تو پھر مریض کا عقیدہ ڈاکٹر پر نہیں بنتا ۔
اس مخصوص بیماری میں عقیدے کی پہلی کڑی بہت اہم ہے اگر یہی کمزور ہو تو پھر علاج سے فائدہ نہیں ہوگا ۔ ڈاکٹر کو مریض کی بیماری اور تکلیف کو اتنی ہی اہمیت دینی چاہئے جتنے کہ مریض کو دیتا ہے ۔
یہ تو نظر آرہا تھا کہ ماں کے ساتھ ساتھ شوہر اور بچے بھی پریشان ہیں۔ میں یہ سمجھ رہا تھاکہ کوئی اور بھی مخل ہونگے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ اس رویے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ماں کی پکڑ خاندان پر کتنی مضبوط ہے ۔
اب سنئے اُس کے رنجیدہ احوال …:
ڈاکٹر صاحب ! اگر میں چاہتی تو ڈاکٹر بنتی مگر مجھے مریضوں سے ملنے اور اُن کے علاج کی ذمہ داریاں قبول کرنے سے انجانا خوف تھا ۔ معلمہ بن سکتی تھی مگر ڈر یہ تھا کہ اگر بچوں پر غصے میں آکر دست درازی کروں تو پکڑی جاؤں گی ۔ اس وجہ سے میں نے گریجویشن کرلیا اور شادی ہوگئی اور سکون سے بچوں کی پرورش کررہی ہوں۔
نہ مجھے کسی سے شکایت ہے نہ کسی اور کو مجھ سے کوئی مسئلہ ہے ۔ میری روزمرہ کی جو مصروفیات ہیں وہ گھڑی کی طرح وقت پر پابندی سے کرتی ہوں۔ اوقات کی سخت پابندی کرتی ہوں جس کی وجہ سے بچوں کو طعام وقت پر مل جاتا ہے اور کسی کام میں کسی قسم کی کاہلی نہیں کرتی ۔ کافی مطالعہ کرتی ہوں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے میں واقف ہوں اور لوگوں کی سنی سنائی سے زیادہ میں لکھی ہوئی مصدقہ باتوں پر زیادہ یقین کرتی ہوں ۔
فرصت کے اوقات میں ٹیلی ویژن دیکھتی ہوں ۔ اس کی عادی تو نہیں ہوں مگر حالات حاضرہ سے اگر میں واقف نہ ہوں تو اپنے آپ کو غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہوں ۔ غالباً یہی میرے مسئلے کی جڑ ہے ۔ میرے اطراف کیا ہورہا ہے اُس سے میں ہمیشہ واقف رہنا چاہتی ہوں اس لئے ہر قسم کی خبریں مقامی سے لیکر بین الاقوامی میں سنتے رہنا چاہتی ہوں ، Breaking News تو وبال جان بنتا جارہا ہے ۔ بچے میرا مذاق اڑاتے ہیں مگر میری یہ عادت ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے ۔ ہیبت ہونے لگتی ہے کہ اب اچانک کیا مصیبت آسکتی ہے ۔ پابند عبادت ہوں مگر میرے عقیدے کٹر نہیں ہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں محفوظ رہنا ہو تو اپنے اطراف کیا کیا حادثے ہوسکتے ہیں اُن کا مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہئے میں غالباً حفظ ماتقدم کی انتہائی مثال ہوں۔ میرے شوہر نہ تو سگریٹ پیتے ہیں نہ گٹکھا کھاتے ہیں ، میرا لڑکا موٹر سیکل چلاتا ہے مگر مجال کہ کبھی وہ ہیلمٹ پہننا بھول جائے، مجھے یاد دلانے کی بھی ضرورت نہیں رہتی ۔ لڑکی بھی احتیاط ہر کام میں برتتی ہے ۔
یہ کوئی بری عادتیں تو نہیں مگر یہ ماننے کیلئے تیار ہوں کہ ممکن ہے میں عام لوگوں سے زیادہ محتاط ہوں ۔ ان عادات سے مجھے کوئی تکلیف نہیں بلکہ سکون ہی ملتا ہے ۔ انگریزی اور اردو زبان دونوں پر حاوی ہونے کی ایک وجہ بہتر آگہی ہے ۔ اب تو تلگو زبان کو بھی اچھی طرح سے پڑھ اور سمجھ سکتی ہوں ۔ گھڑی گھڑی کی معلومات سے آراستہ رہنے ہی میں میرا سکون ہے ۔
جب میں حادثات اور آفات سماوی کے حالات ٹیلیویژن پر دیکھتی ہوں تو مجھ میں عجیب سی بے چینی ہوتی ہے ۔ اکیلی رہتی ہوں اس لئے تنہائی اور وسوسے مجھے پریشان کردیتے ہیں۔ ہر لمحہ یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ اب دنیا میں کیا ہورہا ہوگا ۔ سونامی ، زلزلے ، مشرق وسطیٰ میں جنگیں وغیرہ میں شہید ہوئے معصوم اور اُن کی لاشیں میرے ذہن میں گھومتی رہتی ہیں ۔ میرے تحت الشعور میں ہمیشہ یہ ڈر رہا کرتا ہے کہ کہیں کوئی مصیبت ہم پر تو نہ آپڑے ۔ معصوم بچے ایک پرانی موٹر میں کھیلتے کھیلتے داخل ہوجاتے ہیں اور باہر آنہیں سکتے اور دم گھٹ کر مرجاتے ہیں۔
ناقص طریقے سے بنائی ہوئی عمارتیں اچانک گرپڑتی ہیں یا پھر آگ کے شعلے اُن کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی انسانی غلطی یا بھول کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ۔ سڑک کے حادثات سے لیکر لمبی لمبی مشہور تیز رفتار ریل گاڑیوں کو تیتربتر ہوتے ہوئے دیکھ کر میں دم بخود ہوجاتی ہوں ۔ پریشان ضرور ہوتی ہوں مگر انتہائی خوفزدہ نہیں ہوتی ۔ ٹیلیویژن دیکھتی رہتی ہوں۔ یہ امید کرتی ہوں کہ ان واقعات کو دیکھنے سے میری قوت برداشت بڑھتی جائیگی ، کتنی بڑھی یا نہ بڑھی اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے ۔
مگر ایک سال پہلے ہمارے قرب و جوار کا واقعہ مجھے متزلزل کردیا ہے ۔ سکندرآباد میں ایک ایرانی ہوٹل سٹی لائیٹ صرف اس لئے اچانک ڈھیر ہوگئی کیوںکہ اُس کی چھت پر حلیم کا ایک زیادہ دیگ چڑھایا گیا تھا ۔ جس نے تمام تفصیلات جو بتائی گئیں اُن کو مختلف چیانلوں پر کئی مرتبہ دیکھتی رہی ۔ بکھری ہوئی لاشیں کئی جدا ہوئے ہاتھ و پاؤں ، پتھرائی ہوئی آنکھیں اور خاموش مردہ چہرے اور رشتے داروں کی آہ و بکا کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ مجھے کسی قسم کا ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوا اور میں سمجھ گئی کہ میرا اعصابی نظام اب ان خطرناک اور بھیانک حادثات اتفاقی کو قدرتی طورپر برداشت کرنے کا متحمل ہوچکا ہے ۔ مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ مجھے ٹیلیویژن بند کردینا چاہئے اور ایسے خون و خرابے کے عینی مشاہدات سے گریز کرنا چاہئے ۔ یعنی میں باہمت ہوگئی سمجھی ، سٹی لائیٹ کے خوفناک مناظر تو میری آنکھوں میں تھے مگر اُس کے ساتھ ساتھ دھول ، دھواں اور بدبو میرے ذہن میں گھر کرنے لگے۔ مجھ میں اتنی ہمت آگئی تھی کہ میں خود مقام حادثے پر پہنچ کر امدادی جماعت کا ساتھ دوں مگر وہ لوگ سب چہروں اور ناک پر کپڑے باندھے ہوئے تھے تاکہ دھول اور سڑی گلی لاشوں کے تعفن کو کم کریں۔ جیسے ہی یہ احساس بڑھتے گیا میں ناکارہ ہوتی گئی ۔ گھر ہی میں میں چہرے پر دوپٹا ڈھانکنے لگی اور گھر کے پچھلے کونے میں رہنے لگی ۔ یہ اُس ڈر سے کہ کس سڑک کی دھول دیوان خانے میں داخل نہ ہوئی ہو ۔ اُس کے ساتھ ساتھ گھر کا کام کرنا میں چھوڑ دی اور ہمیشہ ہاتھ دھوے اور زیادہ دیر تک غسل کرتے رہنے کا جنون میرے سر پر چڑھنے لگا۔ اپنی طرف سے اور گھروالوں کی ہمدردی سے میں نے بہت کوشش کی کہ اس مہمل وسوسوں کو نظرانداز کروں اور روزمرہ کے کام کاج میں لگ جاؤں مگر یہ ہرروز مشکل نظر آرہا ہے ۔ اسلئے آپ کے پاس صلاح و مشورے کیلئے آئی ہوں ۔
میں نے کہا کہ آپ کی شخصیت ایک خاص زمرے میں آتی ہے جس میں نفاست پسندی غیرضروری حد تک اتنی بڑھ جاتی ہیکہ مریض سارا وقت دھونے ، دھلانے کے کاموں ہی میں لگا رہتا ہے ۔ آپ مقام حادثے سے دور رہنے کے باوجود ذہنی طورپر اُس کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ آپ جسمانی صاف صفائی کرتی ہیں بار بار مگر اصل میں آپ اپنے گندگی کے خیالات کو دھونے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ کی خاص نستعلیقی شخصیت ہے اس کے علاوہ شروع ہی سے چند مخصوص اوصاف رہے ہیں جن کی وجہ سے آپ میں یہ عارضہ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ آپ بہت ہی غیرمعمولی طورپر محتاط انسان رہی ہیں۔ سماجی اور خاندانی تعلقات اپنے قریب خاندان کے علاوہ بہت کم ہیں۔ میرے صلاح و مشوروں کو بغیر کج بحثی میں ملوث ہوئے وہ خاموشی سے سماعت کرنے کیلئے تیار تھی یہ علاج کا اہم پہلو ہے ۔ ٹیڑھی بحث میں یہ لوگ اپنی دفاع کے لئے بہت ماہر ہوجاتے ہیں اور ان کے معلومات اتنے وسیع ہوتے ہیں کہ عام لوگ اُن کی صلاحیت اور قابلیت کااحترام کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ان لوگوں کی انا اور مضبوط ہوجاتی ہے ۔
مگر جب کسی ماہر امراض نفسیات سے اُن کا مقابلہ ہوتا ہے تو یا تو وہ ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا پھر باغیانہ رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں ۔
اس مریض میں علاج مشکل نہیں تھا ۔ گوکہ یہ سمجھانا مشکل تھا کہ یہ ایک دماغی بیماری ہے جس میں دماغ کا ایک خاص حصہ متاثر ہوکر رہ جاتا ہے ۔ دوائیوں کے مثبت اثرات کے تعلق سے مطمئن کرنا آسان تھا ۔ ایک چٹکلہ جو کارآمد ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے وسوسوں میں سے اہم اور اور کم اہم وسوسوں کی درجہ بندی کریں تو وہ بہتر محسوس کریں گی ۔ مجھے یقین ہے کہ آہستہ آہستہ یہ مرض دور ہوتا جائیگا ۔