کچھ نہ کچھ عیب ضرور ہوتا ہے

محمد مصطفی علی سروری
احمد بھائی بڑے خوش تھے کہ ان کا لڑکا اب ماشاء اللہ سے انجنیئر بن گیا ہے ۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ تو انجنیئر نہیں بن سکے لیکن ان کا لڑکا ضرور انجنیئر بنے ، حالانکہ اپنے زمانے میں خود احمد بھائی نے بھی انجنیئرنگ میں داخلے کی کوشش کی تھی لیکن یہ اس زمانے کی بات تھی جب کوئی پرائیوٹ انجنیئرنگ کالج نہیں ہوتا تھا ۔ حالانکہ احمد بھائی کو خود ان کے بڑے بھائی نے مشورہ دیا ، ارے میاں انجنیئرنگ چھوڑواپنے بچے کو کسی بھی Subject میں گریجویشن کروادو ، اسکے بعد پبلک سرویس کمیشن یا (UPSC) کے کسی امتحان کی تیاری کروانا لیکن احمد بھائی کو ا پنے بڑے بھائی کا یہ مشورہ بڑا خراب لگا کہ اپنے بچے کو تو انہوں نے میکانیکل انجنیئرنگ کروالی اور میرے بچے کو مشورہ دے رہے ہیںکہ انجنیئرنگ مت کرواؤ۔ حالانکہ احمد بھائی کے بڑے بھائی نے یہ بھی کہا کہ دیکھو میرا بچہ میکانیکل انجنیئرنگ کرنے کے باوجود بھی ایک کال سنٹر میں کام کر رہا ہے لیکن احمد بھائی نے دل میں  خیال کرلیا کہ ہوسکتا ہے ان کے بھائی کا بچہ بہت  زیادہ (Intelligent)نہیں ہے ۔ اس لئے اس کو کوئی Suitable نوکری نہیں مل سکی۔

خیر احمد بھائی اپنے بچے کی انجنیئرنگ کے آخری برس ہی اس کو مسلسل مشورہ دے رہے تھے کہ دیکھو بیٹے (GATE) کا امتحان ضرور لکھو ۔ تلنگانہ حکومت تو اقلیتی طبقے کے بچوں کیلئے بیرون ملک پڑھنے کے لئے بھی اسکالرشپ دے رہی ہے ۔ مگر احمد بھائی کے لڑ کے نے انہیں بتلایا کہ (GATE) کا امتحان بہت مشکل ہے ۔ وہ اس کے لئے Long Term کوچنگ لیکر اگلے برس دوبارہ لکھے گا لیکن تب تک احمد بھائی کا لڑکا  کیا کرے گا ؟ خیر سے باہر کے حالات بہت خراب تھے ، پٹرول کے دام گرجانے سے لوگ باہر سے واپس آنے لگے تھے لیکن احمد بھائی کو ان کا لڑکا مسلسل اپڈیٹ کرتا تھا کہ ہائی ٹیک سٹی اور مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں میں وہ کوشش کر رہا ہے ۔ پھر ایک دن احمد بھائی کے لڑکے نے انہیں بتلایا کہ ایک بہت ہی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کا آفر ہے مگر اس کے لئے دیڑ دو لاکھ کا خرچہ ہے ۔ احمد بھائی تھوڑا پس و پیش میں تھے مگر ان کے لڑکے نے اطمینان دلایا کہ اجی ابا باہر جانے کیلئے ایجنٹ کو ویزے کے پیسے دینے پڑتے نا بالکل ویسے ہی بڑی کمپنیوں میں بھی ایسا ہی رہتا ۔ خیر سے احمد بھائی نے بچے کے کہنے پر اس کو پہلے 50 ہزار دیئے ۔ اس کے بعد بچے نے انہیں بتلایا کہ ابا خوش خبری ہے ، میرا انٹرویو ہوگیا اور انٹرویو میں مجھے Select بھی کرلیا گیا ، اب اگر میں ایک لاکھ روپئے جمع کروادوں تو مجھے کمپنی کا آفر لیٹر مل سکتا ہے ۔ یوں احمد بھائی نے اپنے بچے کی جاب کے لئے مزید ایک لاکھ روپئے دیئے اور پھر ا یک دن ان کے بچے نے خوشی خوشی انہیں ایک بڑی سافٹ ویر کمپنی کا لیٹر بتلایا جس کو دیکھ کر خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اپنے بچے کو گلے لگایا اور اس کی پیشانی کو چوم لیا ۔ ڈھیر ساری دعائیں دے کر یاد دلایا کہ بیٹا اب تم کمانے لگوگے ، اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو آگے بڑھانا تمہارا کام ہے ۔ اگلے دن صبح نہا دھوکر تیار ہوکر احمد بھائی کا لڑکا جب آفس جانے نکلا تو وہ بھی کھڑے تھے ، ماں کی آنکھوں میں بھی خوشی جھلک رہی تھی ۔ خیر سے احمد بھائی کی خوشیوں کا سفر شام ہوتے ہوتے رخصت ہوگیا۔ جب اُن کی بیوی نے انہیں فون کر کے جلد گھر آنے کو کہا گھر پہونچنے پر پتہ چلا کہ جس بڑی سافٹ ویر کمپنی میں جاب کیلئے انہوں نے اپنے بچے کو دیڑھ لاکھ روپئے دیئے تھے وہ فراڈ تھا ۔ کمپنی تو بالکل اصلی تھی لیکن کسی نے ان کے بچے کو فراڈ میں پھنسادیا تھا ۔ جب احمد بھائی کا لڑکا جاب کیلئے online کوشش کر رہا تھا وہیں پر اس کو ایک اشتہار نظر آیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں یقینی جاب ہم دلاتے ہیں۔ احمد بھائی کا لڑکا 2016 ء میں انجنیئرنگ کرلینے کے بعد ہی پریشان تھا ۔ یہ تو وہی جانتا تھا کہ اس نے کیسے انجنیئرنگ کے امتحان پاس کئے اور ڈگری حاصل کی ۔ کیمپس placement میں بھی اس کو Select نہیں کیا گیا تھا بلکہ دو ایک کمپنیوں میں وہ انٹرویو تک پہونچا تو صحیح مگر پھر اس کو "Not Found Suitable” کہہ دیا گیا لیکن وہ گھر جاکر اپنی پوزیشن اپنے گھر والوں کو نہیں بتلا سکتا تھا ۔ ایسی پریشانی میں جب انٹرنیٹ پر اس کو اشتہار نظر آیا تو وہ فوراً سوچنے لگا کہ اگر گھر والے پیسے نہیں دیئے تو اس پر پڑھنے والا Pressure تو کم ہوجاتا کہ دیڑھ لاکھ دیتے تو بہترین جاب مل جاتی ، اب وہ اگر بیکار ہے تو اس کیلئے وہ نہیں اس کے گھر والے ذمہ دار ہیں۔ خیر سے احمد بھائی کے اس سارے قصے میں سب کچھ تو حقیقت ہے سوائے نام کے ۔ کیونکہ جب انگریزی اخْبارات نے بھی حیدرآباد کے اس انجنیئر کو اس دھوکہ دہی کے معاملے کی خبر دی تو کہیں بھی نام نہیں لکھا ۔ ہاں خبر میں مزید لکھا تھا کہ جب دھوکہ دہی کے اس واقعہ کی حیدرآباد پولیس میں شکایت درج ہوئی تو پولیس نے دھوکہ دینے والے کولکتہ کے سدرشن کو 17 جنوری 2017 ء کو گرفتار کرلیا جس نے  پولیس کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ۔ کولکتہ کے سدرشن کی کہانی کو بھی اخبار انڈین اکسپریس نے 21 جنوری کو شائع کیا ۔ سدرشن کی کہانی کے بھی بہت دلچسپ پہلو ہیں۔ سدرشن دراصل اپنے سر کے گنجے ہوجانے سے پریشان تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کے سر پر دوبارہ بال اُگ آئیں۔ کولکتہ کے ہی ایک ڈاکٹر نے بتلایا کہ اس کے گنجے سر پر بال ٹرنسٹپلانٹ کئے جاسکتے ہیں مگر اس کیلئے پیسے چاہئے ، سدرشن نے اپنے گنجے سر پر بال لگوانے کیلئے انٹرنیٹ پر جاب دلوانے کے جھوٹے وعدے پر مبنی اشتہار دیا اور مجرمانہ صلاحیتوں کی معراج تو دیکھئے کہ ایک حیدرآبادی نوجوان کو حیدرآباد کی ہی ایک ایم این سی میں جاب دینے کیلئے ٹیلی فون پر انٹرویو کا ڈرامہ بھی رچا گیا اور Confidence سے محروم حیدرآبادی نوجوان نے اتنی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ گچی باؤلی کی اس کمپنی کو جاکر ذرا دریافت کرلے ۔ خیر سے اب جب پولیس نے سدرشن کو پکڑلیا تو توقع ہے کہ کارروائی بھی ہوگی لیکن کیا مسلمان والدین اس واقعہ سے کچھ نہیں سیکھنا چاہیں گے۔ یا  اس کو بھی ایک اور چٹ پٹی خبر کہہ کر نظر انداز کردیں گے ۔ مسلمان بچوں کو بھی صرف تعلیم کی نہیں تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ بچوں کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھانے کیلئے ہم لوگ کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں، انجیئر ہی نہیں ڈاکٹر بھی بنا رہے ہیں مگر ہم آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے بچے ڈاکٹر یا انجنیئر بن جائیں تو سمجھ لو کہ ان کی زندگی کامیاب ہوگئی مگر ہر روز کہیں نہ کہیں سے ایسی کوئی خبر سامنے آجاتی ہے جو ہمارے اس جھوٹے بھرم کو توڑنے کیلئے کافی ہوتی ہے مگر ہم حقیقت کو قبول کرنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔ انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے 30 جنوری 2017 ء کو ایک خبر Hyderabad doctor arrested for selling drugs on instagram کی سرخی کے تحت شائع کی ۔ رپورٹ کے مطابق 35 برس کے اس نیورولوجسٹ پر پولیس نے الزام عائد کیا کہ ایم بی بی ایس کی تعلیم ایک خانگی میڈیکل کالج سے مکمل کرنے کے بعد اس ڈاکٹر نے نمس میں ریسرچ کوآرڈنیٹر کے طور پر 2014 ء تک کام کیا ۔ اس کے بعد اس مسلم نوجوان ڈاکٹر نے کنسلٹنٹ کے طور پر مختلف (Gyms) میں کام کرنا شروع کیا۔ ایسے ہی جم میں کام کرنے کے دوران اس نوجوان ڈاکٹر کو خیال آیا کہ بطور ڈاکٹر پریکٹس کرنے سے بہتر تو یہ راستہ ہے کہ وہ ڈرگس بیچ کر منافع کمائے ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اس ڈاکٹر نے عام مجرموں کی طرح نہیں بلکہ ڈرگس کو چاکلیٹ کی شکل میں بناکر بیچنے کا منصوبہ بنایا اور انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھ کر ڈرگس کو چاکلیٹ کی شکل میں بناکر بیچنا شروع کیا ۔ ڈرگ چاکلیٹ بیچنے کیلئے اس ڈاکٹر نے انٹرنیٹ پر مقبول ویب سائیٹ instagram میں اکاؤنٹ کھول کر اس کے توسط سے ا پنے چاکلیٹ جس کے نام اس نے X سے لیکر 6X تک رکھے تھے بیچنا شروع کیا ۔ پولیس کے مطابق ان ڈرگ کے چاکلیٹ کو بیچتے ہوئے ڈاکٹر ماہانہ چالیس تا ساٹھ ہزار کما رہا تھا ۔

کتنی تشویش کی بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو انجنیئرنگ اور میڈیسن یہ سوچ کر  کروا رہے ہیں کہ چلو اس طرح ان کو اپنے کیریئر میں کامیابی سے قدم جمانے کا موقع ملے گا لیکن یہ کیا ؟ ہمارے بچے تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ اصل کامیابی پیسہ کمانا ہے اور ڈاکٹری کرنے کے بعد بھی جب ڈاکٹر بہت جلد پیسے نہیں کما پا رہا ہے تو وہ ڈرگ بھی بیچنے کے لئے تیار ہے تاکہ وہ جلد سے جلد بہت سارے پیسے کماسکے۔ اب والدین کو طئے کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کا سامان  کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ جن کالجس میں ہم اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کیلئے بھیج رہے ہیں، وہاں کے حالات کیا ہیں؟ میڈیا میں اس کے متعلق آئے دن خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اخبار دکن کرانیکل میں 28 جنوری کو ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق رچہ کنڈہ پولیس نے 23 سالہ گیانیشور کو گرفتار کرلیا۔ گیانیشور خود کالج کا ڈراپ آؤٹ ہے اور ایل بی نگر کی ایک ٹیلی مارکیٹنگ کمپنی میں کام کرتا ہے ۔ خود گانجہ استعمال کرنے کا عادی اور وقت گزرنے کے ساتھ حیات نگر میں واقع کالجس کے طلباء کو گانجہ فروخت کرکے 10 ہزار کما رہا تھا ۔ انگریزی کے اخبارات میں نشہ آور ڈرگس کی پولیس کے ذریعہ بازیافت کی خبریں اب روزانہ کا معمول بن چکی ہیں جو کالج کے بچوں کو فروخت کی جارہی تھی ۔
اس پس منظر میں والدین اور سرپرستوں پر بڑی  ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم کے ساتھ ساتھ صحیح تربیت کا بھی خیال رکھیں اور صحیح تعلیم کا مطلب صرف انجنیئرنگ اور میڈیسن نہیں ہوتا ہے ۔ اس بات کو تسلیم کرلیں اور جتنا جلد ہوسکے اس بات کو بھی قبول کریں کہ بچے کے اندر اس کی اپنی شخصیت کی تعمیر مثبت خطوط پر استوار ہو اور اس میں اپنی ذات پر  Confidence اپنی تعلیم پر Confidence بھی ہو ورنہ بچے سند یافتہ تو بن رہے ہیں مگر مارکٹ میں کہیں بھی روزگار کے چیالنجس کا سامنا نہیں کر پارہے ہیں۔
شیخ سعدی کے حوالے سے ایک قول مشہور ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بہت موزوں سبق ہے وہ کہتے ہیں کہ عقل مندوں اور بے وقوفوں میں کچھ نہ کچھ عیب  ضرور ہے۔ عقل مند ا پنے عیب خود دیکھ لیتا ہے اور بے وقوفوں کا عیب دنیا دیکھتی ہے ۔ میری تو بس یہی دعا ہے ۔ اے مالک حقیقی ہم سبھوں کو عقل مندوں میں سے بنادے اور ہم کو دنیا کے لئے ہنسی کا سامان بننے سے بچالے۔ آمین
sarwari829@yahoo.com