کچھ معافی مانگنے کے بارے میں

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
معافی مانگنے کو ایک ایسی انسانی صفت مانا گیا ہے جسے اپنے اندر پیدا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ۔ اسی لئے یہ صفت انسانی ہونے کے باوجود ماورائی سی لگتی ہے ۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے آج تک کسی سے معافی مانگی بھی ہو تو شاید ہی کبھی صدق دل سے مانگی ہو ۔ کیوں کہ معافی کوئی قرض تو ہے نہیں کہ آدمی مانگنے پر آئے تو مانگتا ہی چلا جائے ۔ یہ ضرور ہے بچپن میں اگر ہم نے اپنے کسی ہم جماعت کے ساتھ زیادتی کی اور استاد نے آنکھیں اور چھڑی دونوں دکھا کر ہم سے منت سماجت کی کہ ہم اس سے معافی مانگ لیں تو ہم نے تب بھی ’’معاف کردیجئے‘‘ کا جملہ یوں ادا کیا جیسے ہمارے اکثر دولہا حضرات عقد کے وقت ’’قبول کیا‘‘ کا جملہ ادا کرتے ہیں ۔ مگر یہ معاملہ صرف ہمارے بچپن تک محدود تھا کیونکہ بعد میں ہم نے زندگی کچھ اس طرح گزاری کہ کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ ایسی زندگی کو عموماً گھاٹے کا سودا کہتے ہیں جس کی سزا ہم اب تک بھگت رہے ہیں ۔

آج معافی مانگنے اور معافی منگوانے کا خیال ہمیں اچانک نہیں آیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں معافی مانگنے کی وبا اچانک ساری دنیا میں پھیل گئی ہے ۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست ہمارے پاس آئے اور نہایت شرمندگی اور خفت کے ساتھ کہنے لگے ’’آج میں تم سے ایک بات کے لئے خلوص دل سے معافی مانگنے آیا ہوں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’تم سے ایسی کون سی خطا سرزد ہوئی تھی کہ تم ہم سے معافی مانگو؟‘‘ بولے ’’یہ خطا مجھ سے نہیں بلکہ  میرے دادا جان سے سرزد ہوئی تھی‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’ہم نے تو تمہارے دادا جان کی شکل تک نہیں دیکھی اور اگر بفرض محال دیکھی بھی ہو تو ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ تمہارے داداجان نے ہمارے ساتھ کبھی کوئی ایسی زیادتی کی ہو جس کی معافی تمہیں مانگنی پڑے‘‘ بولے ’’میرا داداجان نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی تھی البتہ تمہارے داداجان کے ساتھ ضرور کی تھی‘‘  ۔ ہم نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے ’’آج سے سو برس پہلے میرا داداجان نے تمہارے دادا جان کی جائیداد دھوکہ سے ہڑپ کرلی تھی ۔ مجھے پرسوں ہی اس کا پتہ چلا ہے ۔ سوچا کہ تم سے معافی مانگ لوں ۔ تم میرے اچھے دوست ہو ۔ خدا کے لئے مجھے معاف کردو ورنہ میرا ضمیر تادم آخر ملامت کرتا رہے گا‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی کہ تمہارے دادا جان میرے داداجان کے ساتھ زیادتی کریں

اور تم مجھ سے معافی مانگو اور پھر اگر تمہارے داداجان نے کوئی غلطی کی بھی تھی تو میں کون ہوتا ہوں انہیں معاف کرنے والا ، پھر اہم بات یہ ہے کہ نہ تمہارے دادا زندہ ہیں اور نہ ہی میرے دادا زندہ ہیں ۔ ایسے میں اس معافی کی کیا قانونی اور اخلاقی اہمیت باقی رہے گی‘‘ ۔ اس پر میرے دوست نے کہا ’’بھئی معافی مانگنا تو بہت اچھی چیز ہے ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کسی غلطی کے لئے معافی مانگ لے تو پھر اس میں یہ حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے کہ بار بار وہی غلطی کرتا چلا جائے ۔ چاہے بعد میں وہ کوئی معافی نہ مانگے ‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’مگر سو برس پہلے جو غلطی تمہارے دادا سے سرزد ہوئی تھی اس کی معافی اب مجھ سے مانگ کر تم اپنے اندر کس بات کا حوصلہ پیدا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ۔ ہنس کر بولے ’’میں یہ چاہتا ہوں کہ میں بھی اپنے دادا جان کے نقش قدم پر چل کر تمہاری جائیداد کا کچھ حصہ ہڑپ کرلوں تاکہ پھر آج سے پچاس ساٹھ سال بعد میرا پوتا تمہارے پوتے سے میری غلطی کی معافی مانگ لے ۔ تاریخ اپنے آپ کو اسی طرح دہراتی رہتی ہے‘‘ ۔ ہم نے ہنس کر کہا ’’یہ معاملہ تاریخ کا نہیں جغرافیہ کا ہے ۔ سو برس پہلے میرے دادا کی جائیداد کا جغرافیہ بہت بڑا تھا ۔ اسے کسی نے ہڑپ کر بھی لیا تو کیا ہوا ۔ میری موجودہ جائیداد کے جغرافیہ کا یہ عالم ہے کہ میرے لئے تو دوگز زمین بھی حاصل کرنا دشوار نظر آنے لگا ہے ۔ ایسے میں تم کیا میری جائیداد کو ہڑپ کروگے اور تمہار پوتا کیا میرے پوتے سے معافی مانگے گا‘‘ ۔ ہمارے دوست نے کہا ’’مگر میں تو آج تم سے معافی مانگ کر ہی رہوں گا ۔ تم نے دیکھا نہیں ابھی پچھلے ہفتہ جاپان کے وزیراعظم نے پچاس برس پہلے لڑی گئی دوسری جنگ عطیم میں جاپان نے جو زیادتیاں کی تھیں اور مظالم ڈھائے تھے ان کے لئے ساری دنیا سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی اور دنیا نے اسے قبول بھی کرلیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ اقوام نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ صرف معافی مانگنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا جاپان کو اس نقصان کی پابجائی بھی کرنی چاہئے جو جاپان کی وجہ سے ان اقوام کو اٹھانا پڑا تھا ۔ انگلی پکڑنے دو تو کلائی پکڑ لینا اسی کو کہتے ہیں‘‘ ۔ ہمارے دوست کی بات نہایت معقول تھی ۔

پتہ نہیں ادھر کیا بات ہوئی ہے کہ ان دنوں ہر کوئی معافی مانگنے پر تُل گیا ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے مہاراشٹرا کے سابق چیف منسٹر شردپوار نے پانچ سال پہلے بابری مسجد کے گرائے جانے کے واقعہ کی معافی مانگی تھی ۔ تلگودیشم کے رہنما این ٹی راماراؤ کی اہلیہ لکشمی پاروتی نے بھی ابھی چار سال دن پہلے کچھ اس انداز سے معافی مانگی تھی کہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ کس سے معافی مانگ رہی ہیں اور کیوں مانگ رہی ہیں ۔ بہرحال معافی مانگنے کے اس متعدی مرض کا یہی حال رہا تو کیا عجب ہے کہ قومیں ان خطاؤں کے لئے بھی معافی مانگنا شروع کردیں جو ان سے ہزاروں برس پہلے سرزد ہوئی تھیں  ۔اصولاً یونانیوں کو ہم ہندوستانیوں  سے سکندراعظم کے اس حملہ کے لئے معافی مانگنی چاہئے جو اس نے زمانہ قبل مسیح میں ہندوستان پر کیا تھا ۔ دور کیوں جایئے خود ہمارے جیتے جی اس دنیا میں اتنا کچھ ہوا ہے کہ کئی قوموں کو ایک دوسرے سے معافی مانگنی چاہئے ۔ روس کو افغانستان سے معافی مانگنی چاہئے کہ اس نے خواہ مخواہ ہی وہاں اپنی فوج بھیج دی تھی  ۔ امریکہ پر واجب ہے کہ وہ ویت نام سے معافی مانگے ۔ دیکھا جائے تو امریکہ اس دنیاکا واحد ملک ہے جو معافی مانگنے کے معاملے میں اتنا خود کفیل اور تونگر ثابت ہوسکتا ہے کہ اگر وہ صدق دل سے معافی مانگنے پر اتر آئے تو امریکہ میں پیدا ہونے والی کئی نسلیں ساری عمر صرف معافی ہی مانگتی رہ جائیں گی کیونکہ امریکہ اس اعتبار سے پہلا ملک ہے جس کی فوجوں نے آج تک اپنی سرزمین پر کوئی جنگ نہیں لڑی ۔ جب بھی ان فوجوں کا جی جنگ لڑنے کا چاہا تو ساز و سامان لے کر دوسرے ملکوںکی طرف کوچ کرگئیں ۔ ماضی بعید میں سرزد ہونے والی غلطیوں کی معافی مانگنے کی اس نئی ادا کے بارے میں ایک صاحب کا خیال ہے کہ یہ سب قرب قیامت کے آثار ہیں ۔ انسان کو اب پتہ چل گیا ہے کہ دنیا جلد ہی ختم ہونے والی ہے ، لہذا سب کو اپنی غلطیاں یاد آنے لگی ہیں اور وہ اپنے کئے کی معافی مانگ کر حتی الامکان معصوم اور بے گناہ حالت میں خدا کے حضور میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہم نے بھی قرب قیامت سے گھبرا کر کل اپنی بیوی سے اس بات کے لئے معافی مانگ لی ہے کہ آج سے لگ بھگ چالیس برس پہلے ہم نے اس سے شادی کرلی تھی ۔ یہ ایک ایسی خطا ہے جس کی سزا ہم دونوں ہی برسوں سے بھگتتے چلے آرہے ہیں ۔
کچھ بھی ہو ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ آج تک کسی نے صدق دل سے معافی نہیں مانگی چاہے اس سے کتنی ہی بڑی خطا کیوں نہ سرزد ہوئی ہو ۔ بہت عرصہ پہلے ایک ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان کے بارے میں ایک اخبار نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس پارلیمنٹ کے آدھے ارکان پاگل ہیں ۔ اس پر پارلیمنٹ میں خاصا ہنگامہ ہوا ۔ جب اس اخبار سے معافی مانگنے کے لئے کہا گیا تو اس نے دوسرے دن معذرت کے طور پر یہ جملہ لکھا ’’قارئین نوٹ فرمالیں کہ پارلیمنٹ کے آدھے ارکان پاگل نہیں ہیں‘‘ ۔ اب جو جاپان کے وزیراعظم نے دوسری جنگ عظیم کی زیادتیوں کے لئے معافی مانگی ہے تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ موصوف دوسری جنگ عظیم کے وقت غالباً پرائمری اسکول کے طالب علم رہے ہوں گے ۔ انہیں کیا معلوم کہ زیادتیاں کرنے والے اصل مجرم کون تھے ۔ لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں ۔ انسانیت کے سینہ پر گھاؤ بدستور لگا رہتا تو اچھا تھا ۔ معافی کے ذریعہ اس گھاؤ پر مرہم رکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ (ایک پرانی تحریر)