کچھ تو طلب امور

کے این واصف
دور حاضر کے لوگ پنے آپ کو خوش قسمت ترین گردانتے ہوں گے کیونکہ یہ پیرھی جو سائنسی ایجادات کا فائدہ اٹھا رہی ہے ، وہ ان سے قبل کے نسلوں کے نصیب میں نہیں تھیں۔ اس سے قبل کی پیڑھیوں نے درجہ بہ درجہ سائنسی ترقی دیکھی ضرور ہے لیکن آج کی پیڑھی خصوصاً اطلاعات یا خبروں کی ترسیل کے معاملے میں جتنی سہولتیں اٹھا رہی ہے، وہ گزرے برسوں کے لوگوںکو میسر نہیں تھیں۔ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں وقوع پذیر اچھے یا برے واقعہ کی اطلاعات لمحوں میں ان تک پہنچ جاتی ہیں، وہ بھی معہ ویڈیو یا تصویروں کے۔ جس کا ذریعہ ٹی وی چینلز ، ای میل ، Whatsaap وغیرہ ہیں۔ 24X7 چلنے والے ٹی وی چینلز تو ہمیں باخبر رکھتے ہی ہیں لیکن اس کے علاوہ سوشیل میڈیا بھی عوام کو حالات سے باخبر رکھنے میں اہم رول ادا کر رہا ہے بلکہ بعض خبریں تو ٹی وی چینل والے سوشیل میڈیا کے حوالے سے نشر کرتے ہیں یا سوشیل میڈیا پر کسی واقعہ کی اطلاع پاکر اپنے عملے کو مزید تفصیلات کے ساتھ خبر بنانے کی ہدایت کرتے ہیں لیکن ای میل اور Whatsaap وغیرہ بے حد عام ہوجانے کی وجہ سے سوسائٹی میں غلط اور غیر مصدقہ اطلاعات یا خبریں بھی گشت کرنے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے دو چار دنوں میں مکہ مکرمہ کے حادثات سے متعلق سوشیل میڈیا پر دی گئی خبروں نے عوام میں ہراسانی پھیلا دی ۔ ان غلط اور بے بنیاد خبروں میں مکہ مکرمہ کی ایک ہوٹل میں آگ لگنے کا واقعہ اور مطاف کے حصہ میں ایک دیوہیکل کرین کے دوبارہ گرنے کی اطلاع دی گئی تھی ۔ ان دنوں دنیا کے کونے کونے سے مسلمان حج پر آئے ہوئے ہیں۔

یہاں کچھ لوگوں نے مکہ مکرمہ کی ایک ہوٹل میں لگی آگ کی کچھ تصویریں حاصل کیں اور تصویروں پر اندازہ قائم کر کے کسی تحقیق کے بغیر سوشیل میڈیا پر اطلاع جاری کردی جس میں یہ لکھ دیا گیا کہ مکہ کی ہمہ منزل ہوٹل میں لگی آگ کے نتیجہ میں بیسیوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہوٹل میں آگ ضرور لگی مگر اس میں رہائش پذیر ایک ہزار افراد کو بحفاظت ہوٹل سے نکال لیا گیا ۔ اس واقعہ میں کچھ لوگ معمولی طور پر زخمی اور ایک شخص شدید زخمی ہوا لیکن سوشیل میڈیا پر اس کو محض قیاس آرائی کی بنیاد پر غلط پیش کیا گیا ۔ اب ظاہر ہے حج پر آئے ہوئے لوگوں کے متعلقین اپنے اپنے ملکوں میں سوشیل میڈیا پر غلط خبر پڑھ کر پریشان ہوگئے اور مختلف ذرائع سے خبر کی تصدیق کرنے لگے۔ اپنے عزیز و اقارب سے رابطے کئے تب جاکر انہیں اطمینان حاصل ہوا۔ یعنی سوشیل میڈیا پرجاری  غلط خبر نے ہزاروں لوگوںکو پریشانی میں مبتلا کیا۔ لہذا انفرادی طور پر سوشیل میڈیا میں اطلاعات جاری کرنے والے اور گروپس کے ذمہ دار افراد اس قسم کی خبروں کو آگے بڑھانے سے قبل اس کی تحقیق و تصدیق ضرور کرلیں۔ ایک اور خبر جس نے عوام میں بے چینی اور ہراسانی پھیلائی وہ تھی مطاف کے حصہ میں ایک اورکرین کے گرنے کی۔ کسی ناعاقبت اندیش نے جمعہ (11 ستمبر) کوپیش آئے کرین گرنے کے واقعہ کی کچھ تصویروں کو سوشیل میڈیا پر دوبارہ جاری کر کے غلط اطلاع دی کہ مطاف کے ایک حصہ میں پھر ایک کرین گر پڑا اور کئی حجاج کے مرنے اور زخمی ہونے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جبکہ ایسا کچھ بھی نہیںہوا اور یہ تصویر بھی پرانی تھی۔ اب چونکہ مطاف میں کرین گرنے کا واقعہ چندروز قبل ہی پیش آیا تھا لہذا یہ جھوٹی اطلاع پڑھنے والوں میں ہراسانی اور ہیبت طاری ہوگئی جو کہ ایک فطری بات تھی ۔ اسی طرح قربانی سے متعلق بھی مختلف بے بنیاد خبریں، اندیشے اور قیاس آرائیاں سوشیل میڈیا پر پیش کی جارہی ہے۔ اس سے سوسائٹی میں خوف و ہراس پیدا ہورہا ہے اور ہوسکتا ہے اس سے دنگے فسادات بھی بپا ہوں۔ بے بنیاد خبریں پھیلانا نہ صرف ایک اخلاقی جرم ہے بلکہ یہ گناہ عظیم بھی ہے ۔ لہذا لوگوں کو اس سے احتراز کرنا چاہئے ۔ اس سال صرف ہندوستان سے ایک لاکھ 36 ہزار افراد فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے آئے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم ہندوستانی افراد کی جانب سے سوشیل میڈیا پر کئی گروپس سرگرم ہیں اور اس کے علاوہ انفرادی طور پر لوگ یہاں وہاں سے خبریں اور مختلف اطلاعات شوقیہ طور پر حاصل کر کے سوشیل میڈیا پر جاری کرتے ہیں۔ انہیںچاہئے کہ موسم حج کے دوران حادثات و آفات سماوی سے متعلق کوئی خبر یا اطلاع  سوشیل میڈیا پر جاری کرنے سے قبل اس کی پوری طرح تحقیق کرلیں کیونکہ ایک غلط اطلاع لاکھوں افراد کیلئے ہراسانی اور حجاج میں افرا تفری کا باعث بن سکتی ہے۔

مطاف میں کرین گرنے کے حادثہ میں تین ہندوستانی (دو خواتین اورایک مرد) جاں بحق ہوئے اور کوئی 15 ہندوستانی زخمی ہوئے تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق باقی تمام ہندوستانی حجاج عمومی طورپر بخیر و عافیت اپنے مناسک کی ادائیگی اور عبادتوں میں مصروف ہیں۔ ہندوستانی حجاج میں اس سال ایک 103 سال کی حاجہ منی بیگم شامل ہیں جن کا تعلق راجستھان سے ہے۔ قونصل جنرل جدہ اوران کا اسٹاف سارے انتظامات کی نگرانی کر رہا ہے ۔ سال 2015 ء کے حج کی ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سفیر ہند برائے سعودی عرب حج کے انتظامات کی نگرانی کیلئے یہاں موجود نہیں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک ریاض میں سفیر ہند برائے سعودی عرب متعین نہیں کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ اپریل 2015 ء میں سفیر ہند حامد علی راؤ کے سبکدوش ہونے کے بعد ریاض کیلئے کوئی نیا سفیر نامزد نہیں کیا گیا اور 6 ماہ سے نائب سفیر ہند ہیمنت کوتوالکر قائم مقام سفیر ہند کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ چونکہ ہیمنت کوتوالکر غیر مسلم ہیں اس لئے وہ حج انتظامات کی نگرانی کیلئے مقامات مقدسہ جانے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورتحال ہندوستانی سفارت خانے کی تاریخ میں پہلی بار درپیش ہوئی ہے ۔ پتہ نہیں مودی حکومت ریاض میں سفیر ہند متعین کرنے کے معاملے کو کیوں اتنا طول دے رہی ہے ۔ حالانکہ نریندر مودی کا گزشتہ ماہ دورۂ سعودی عرب بھی بن چکا تھا مگر کسی وجہ سے ملتوی ہوگیا ۔ ماضی میں بھی کئی بار نائب سفیر ہند نے قائم مقام سفیر کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔ مگر اس بار کچھ لمبا عرصہ ہی لگ گیا ہے۔

پچھلے وقتوں میں بھی اگر کوئی سینئر IFS عہدیدار دستیاب نہیں ہوتا تھا تو اس کی جگہ کسی سینئر سیاست داں کو بحیثیت سفیر مقرر کیا جاتا تھا ۔  جیسے 6 سال قبل پانڈیچیری ریاست سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاسی قائد ایم او ایچ فاروق کو سفیر ہند مقرر کیا گیا تھا جو ایک لمبا عرصہ یہاں بحیثیت سفیر رہے اور اس سے قبل حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے کمال الدین احمد کو اس وقت کی بی جے پی سرکار نے بحیثیت سفیر ریاض بھیجا تھا لیکن اس وقت سرکار بدل جانے کی وجہ سے وہ یہاں سے ایک سال کے مختصر عرصہ میں واپس ہوگئے تھے ۔ کمال الدین احمد صاحب اب بھی بقید حیات ہیںاور اگر ان کی صحت اچھی ہو تو بی جے پی سرکار انہیں پھر سے بحیثیت سفیر ہند نامزد کرسکتی ہے ۔ نیز IFS عہدیداروں کے علاوہ دیگر انڈین سروس سے تعلق رکھنے والے سینئر عہدیداروں کو بھی سعودی عرب میں سفیر ہند مقرر کیا گیا ہے ، جیسے محمود بن محمد سینئر آئی پی ایس عہدیدار جن کا تعلق بھی حیدرآباد سے تھا، یہاں سفیر مقرر کئے گئے تھے ۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر آئی پی ایس عہدیدار، سابق ڈی جی پی آندھراپردیش ایم اے باسط ہیں جو اپنی فرض شناسی اور دیانتداری کیلئے جانے جاتے  ہیں، ان کانام بھی سفیر ہند کے  عہدہ کیلئے زیر غور لایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی یہ روایت رہی ہے کہ اس نے سعودی عرب میں ہمیشہ کسی مسلمان شخص ہی کو بحیثیت سفیر ہند مقرر کیا ہے ۔ چاہے و پولیٹیکل تقرر ہو یا انڈین سروس کے عہدیدار۔ امید کہ ہندوستانی حکومت اپنی اس روایت کو برقرار رکھے گی ۔ اس لئے کہ سفیر ہند حج انتظامات کی نگرانی میں شامل رہتے ہیں ، لہذا مقامات مقدسہ میں جانے کیلئے مسلمان ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل یہ اطلاعات گشت کر رہی تھی کہ حکومت ہند، سفیر ہند برائے سعودی عرب کیلئے جن ناموں پر غور کر رہی ہے ، ان میں غیر مسلم عہدیدار کے نام بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں ہندوستانی این آر آئیز (پاسپورٹ ہولڈرز) بستے ہیں جن کی تعداد 30 لاکھ ہے ۔ ایسے ملک میں انڈین سروس کے کسی سینئر عہدیدار یا کسی تجربہ کار سیاسی قائد کو فوری طور پر بحیثیت سفیر متعین کیا جانا چاہئے۔