کے این واصف
رب کریم زمین پر نافرمان بلکہ مشرکین کو آباد رکھے ہوئے ہے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کہ رب الارباب نے ناانصافی کرنے والوں اور ظلم کرنے والوں کو ہمیشہ دنیا ہی میں تباہ و برباد اور نیست و نابود کیا ہے ۔ یعنی اللہ رب العزت کے نزدیک ظلم و ناانصافی سب سے ناپسندیدہ عمل ہے۔ صاحب اقتدار یا حکمرانوں کی جانب سے کیا جانے والا ظلم یا ناانصافی ہی برا عمل نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو اپنی سطح پر اپنے ہم نفسوں کے ساتھ چھوٹے ، بڑے پیمانہ پر ناانصافی اور ظلم کرتا ہے وہ گناہ عظیم ہے اور آج کا انسان کبھی تجاہل اور کبھی دیدہ و دانستہ اس گناہ کا مرتکب ہورہا ہے ۔ پچھلے ہفتہ دس روز کے دوران مختلف محافل میں سنیں کچھ اکابرین کی نصیحت آمیز اور قابل غور و فکر باتیں آج ہم تحریر کریں گے تاکہ قارئین بھی اس سے مستفید ہوں اور ان پر عمل پیرا ہوکر اس ماہ مبارک میں رب کریم کی خوشنودی حاصل کریں۔
پچھلے جمعہ کو امام کعبہ نے ظلم و ناانصافی کو اپنے خطبہ کا موضوع بنایا اور دنیا کے مسلمانوں کو ظلم و ناانصافی کے گناہ اور اس کے عذاب سے آگاہ کیا ۔ مکہ ہمارا مرکز ہے اور امام کعبہ کی کہی بات ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے نصیحت ، آگہی اور مشعل راہ ہے۔
حرم مکی کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر صالح بن حمید نے واضح کیا ہیکہ ظلم و ستم ڈھانے والوں کو اعمال صالحہ کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ حق تلفی کرنے والوں ، رشوت لینے والوں اور لوگوں کے حقوق پر ہاتھ مارنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی نمازیں ، ان کے روزے ، ان کے صدقات و خیرات کے کام اور دسیوں اعمال صالحہ قیامت کے روز بیکار ثابت ہوجائیں گے ۔ انہوں نے جتنے اچھے کام کئے ہوں گے ان کا اجر و ثواب ان لوگوں کے کھاتے میں پہنچ جائیں گے جن کے حق انہوں نے دنیا میں مارے ہوں گے ۔
وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے پہلے جمعہ کا خطبہ روح پرور ماحول میں دے رہے تھے ۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ ہر بندے سے اللہ کی عبادت مطلوب ہے ۔ہر بندے پر اچھے کام فرض ہیں۔ ہر روز سورج نکلتا ہے تو اسے غروب بھی ہونا ہوتا ہے ۔ لہذا جو لوگ اس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ انہیں یہاںہمیشہ نہیں رہنا ہے بلکہ ایک نہ ایک دن ان کی زندگی کا سورج غروب ہوگا اور ان کی زندگی ختم ہوگی ۔ لہذا گناہوں سے اجتناب کریں، سنگدلی سے بچیں۔ یاد رکھیں کہ دنیا بھر میں کوئی بھی انسان بیکار نہیں پیدا کیا گیا ۔ دنیا کے کسی بھی انسان کو حساب کتاب کے بغیر یونہی نہیں چھوڑا جائے گا ۔ تمام انسان اور جنات رب کی عبادت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں۔ سب کو مرنا ہے ، مرنے کے بعد زندہ ہوکر اپنے اعمال و افکار کا حساب دینا ہے ۔ حساب کتاب کے نتیجہ کے طور پر جنت یا دوزخ میں جانا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ ہم لوگ ان دنوں فضیلتوں ، برکتوں اور رحمتوں کے ماہ عظیم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس ماہ کے دو حصے گزر چکے ہیں ۔ تیسرا آخری عشرہ شروع ہوچکا ہے ۔ ہمیں رمضان کی راتوں اور اس کے دنوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ ایک ایک لمحہ سے استفادہ کرنا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ قرآن پاک میں ایک آیت ایسی آئی ہے جو پتھر دل انسانوں کو لرزہ براندام کردینے کیلئے کافی ہے ۔
یہ ایسی آیت ہے جو غفلت شعار انسانوں کو لاپروائی سے بیدار کردیتی ہے اور اپنی ذات میں مگن لوگوں کو غور و فکر پر راغب کردیتی ہے ۔ یہ وہ آیت ہے جسے پڑھ کر سلفِ صالحین وحشت محسوس کیا کرتے تھے اور جب جب وہ آیت ان کی نظر سے گزرتی وہ مارے خوف کے کانپنے لگتے تھے ۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’قیامت کے روز ان لوگوں کو اللہ کی طرف سے وہ کچھ نظر آئے گا جس کا انہوں نے گمان نہ کیا ہوگا‘‘۔ مطلب یہ کہ بہت سارے لوگ دنیا میں بڑے اچھے اچھے کام کرتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن سیدھے جنت میں جائیں گے لیکن انہوں نے کچھ مظالم کئے ہوں گے جن کی وجہ سے ان کے اچھے کام برباد ہوجائیں گے۔ان کے اچھے کاموں کا اجر ان لوگوں کو مل جائے گا جن پر ان لوگوں نے ظلم ڈھائے ہوں گے ۔ امام کعبہ نے یہ بھی کہا کہ عاجز و معذور وہ ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے ، توبہ کے بغیر گناہوں کی مغفرت چاہتا ہے۔ مغفرت کے اسباب اختیار کئے بغیر مغفرت جیسی انمول نعمت پانے کا آرزو مند ہوتا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ جو لوگ خود کو دوزخ کے عذاب سے بچانا چاہتے ہوں وہ نفسانی خواہشات کا چکر چھوڑدیں۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اچھے اور نیک کام کر کے برے کاموں سے توبہ کرلیں اور مستقبل کی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کا عہد کر کے شب قدر تلاش کرنے کی فکر اور کوشش کریں۔
ماہ رمضان میں یہاں سماجی سرگرمیاں ، محفلیں اور اجتماعات نہیں ہوتے لیکن دعوت افطار کا اہتمام سماجی تنظیمیں ضرور کرتی ہیں اور ان دعوتوں میں کسی نہ کسی عالم دین کے بیان کا اہتمام ضرور کیا جاتا ہے جہاں ہمیں بہت سی کارآمد اور نصیحت آمیز باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی دعوت افطار کے اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا عبدالباری صاحب نے کہا کہ ماہ رمضان ہمارے لئے ناپسندیدہ عادتوں کو ترک کرنے اور برائیوں سے بچنے کی مشق کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ لہذا ہمیں ماہ رمضان کے بعد اس طرح احکامات الٰہی کی پابندی ، مکروہ اعمال سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ مولانا عبدالباری نے کہا کہ جھوٹ جسے ہم ایک معمولی بات تصور کرتے ہیں، دراصل یہ ایک بہت بڑا گنا ہے ۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو برائیوں کے دلدل میں دھنسا دیتی ہے جس سے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہئے ۔ اسی طرح انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر ریاض چیاپٹر نے اپنی دعوت افطار میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر راشد شاذ کے لکچر کا اہتمام کیا تھا۔
ڈاکٹر راشد شاذ بین الاقوامی سطح پر معروف ادیب ہیں۔ سماجی اصلاح اور ملی بیداری پر انہوں نے اردو ، انگریزی میں 25 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ وہ ملی پارلیمنٹ کے صدر بھی رہ چکے ہیں ۔ ڈاکٹر شاذ ان دنوں سعودی عرب کے دورہ پر ہیں۔ انہوں نے اپنے لکچر میں مسلمانوں کی عظیم طاقت کا فرقوں میں بٹ کر کمزور پڑجانے کو اپنے خطاب کا موضوع بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اختلاف فکر و نظر کے ساتھ ایک امت ہیں۔ ہم دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم نے خود کو فرقوں میں تقسیم کر کے اپنے آپ کو کمزور بنالیا ۔ ہماری دینی درسگاہیں تک فرقہ بندی کا شکار ہیں اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والوں کو دیگر فرقوں سے نفرت کرنے کا درس بھی دیا جاتا ہے ۔ ہمارا یہ عمل ہمارے اندر اتحاد ختم کررہا ہے۔ ڈاکٹر راشد نے کہا کہ قوم اگر سوچ و فکر سے عاری ہوجائے تو وہ اندھی تقلید کی عادی ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے فکری اختلاف کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ ہم دین کی بنیادی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملت میں اتحاد پیدا کرنا مشکل نہیں صرف اس کام کا بیڑا اٹھانے والوں میں جرأت ، اخلاص و بے باکی ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد پیدا کرنے کی بہترین مثال حرم مکی میں سارے مسالک کے افراد کا ایک ساتھ نماز ادا کرنا ہے ۔ ورنہ کبھی کعبہ میں ہر نماز کی چار الگ الگ جماعتیں ٹھہرتی تھیں۔ ڈاکٹر راشد نے کہا کہ آج ہمارے پاس اسلامی تعلیمات کا درس دینے کا کوئی اسکول نہیں۔ ہر مسلک کے مطابق درس گاہیں قائم کی ہوئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسلام کو روبعمل لایا جائے جو نبی کریمؐ نے ہمیں دیا تھا ۔ دین اسلام انسانوں کو آپس میں جوڑنے کا نام ہے ناکہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کا ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں ، ممکنہ حد تک اپنے فکری اختلافات اور دوریوں کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔ ہم جب تک اپنی گروہ بندیوں سے باہر نہیں آئیں گے تب تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمارے آپسی اختلافات کا آج یہ حال ہے کہ گولی چلانے والا بھی اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہا ہے اور گولی کھانے والا بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے اپنی جان سے ہاتھ دھورہا ہے ۔
بہرحال آج مسلمان ساری دنیا میں لٹ رہے ہیں، پٹ رہے ہیں، کٹ رہے ہیں لیکن اب بھی ہم میں اتحاد پیدا ہونے اور متحد ہوکر دشمنان ملت اسلامیہ کا مقابلہ کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ خاندان سے لیکر ملت کی سطح پر ہم ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کی ناانصافی اور ظلم ہی ہے ۔ نہ ہم کلمہ توحید کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر ہیں نہ ہماری کوئی متحدہ قیادت ہے ۔ اغیار نے ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور ہمارے ہی ہاتھوں ہمیں نقصان پہنچایا جارہا ہے ۔
کتنا اچھا لگتا ہے جب خانہ کعبہ میں لاکھوں مسلمانوں سے لیکر کسی چھوٹی سی مسجد میں نمازی ایک امام کی قیادت میں اللہ اکبر کی ایک صدا پر بارگاہ ربی میں رکوع و سجدہ ادا کرتے ہیں۔ قیادت کی تابعداری اور ڈسپلن کا یہ ایک بے مثال مظاہرہ ہے۔ا یک امام کی قیادت ، ایک امام کے تابع ہونے کے عمل کی یہ ریاضت ہم صدیوں سے کر رہے ہیں لیکن ہماری عملی زندگی میں یہ ڈسپلن اور قیادت کی تابعداری ہم میں آج تک نہ آسکی۔
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
خانہ کعبہ کا کوئی فائل فوٹو جس میں بھاری تعداد میں لوگوں کو نماز ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔