کُل علوم کی روح ہے کلام اللہ

مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی
اللہ کُل عالموں کا ما لک وو الی ہے۔ اسکا ارا دہ اور علم ہراک سے اعلیٰ ہے۔ اسی طرح اللہ کے کلام کا معا ملہ ہے وہ دگر کلاموں سے اعلیٰ کامل ومکمل ہے۔اس عالم کو اک لاکھ سے سوا ہا دی اور رسول آئے ۔رسو لوں سے کسی کسی کو کلام عطا ہوا۔ معمار حرم ۱؎ کو ارسال کردہ کلام،داؤدی لَیــ،موسیٰ کودی گئی الواح اور روح اللہ کو کلمے عطا کئے گئے مگررسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم کو عطا کردہ کلام کُل رسولوں کے کلام سے اعلیٰ واکمل ہے۔رسالوں سے اطلاع ملی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم امی کہلا ئے مگر اصل معاملہ اس کے عکس ہے کہ سا رے علوم کا صُدور۲؎ ،صدر۳ ؎ محمدی سے ہوا۔ کلام اللہ اور رسول اللہ کی آمد کی اطلاع سارے رسولوں کے واسطے سے دی گئی اور عالم کے علماء اللہ کے آگے سر رکھ کر محو دعا ہوئے کہ رسول احمد محمود ومحمد کی آمد سے عالم معطر ہو۔صدہا سال کا عرصہ ہوا۔رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم، رسولِ امم اور مہرِ ۴؎علم وعمل ہو کر طلوع ہوئے۔اور حراء کی گود محو دعا رسول اللہ کے ہاں سردار ملائکہ وحی اول لے کر آئے اس کے اسر ار و حکم سے روح ودل مالا مال ہو ئے۔ مسلسل دو دہے دو اک سال سر دار ملائکہ کلام لے کر آئے اس طرح اللہ کاارادہ مکمل ہو کر رہا۔وحی کے واسطے اللہ کا حکم ہوا کہ لو گوں کو ڈراؤ اول گھروالوں کو۔وحی کا سلسلہ مکہ مکرمہ اور وداع مکہ سے سوا رہا اور حلال وحرام سے آگا ہی ہو ئی۔کلام اللہ کے سماع سے صد ہا لوگ اسلام لاکر احکام الہی کے عامل ہوئے ۔معلوم رہے کہ کلام اللہ دگر سارے کلاموں سے اعلیٰ ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم کے دل کو اس سے گہرا لگاؤ ہے۔اس عالم کے لوگوں کا علم اور اللہ کے علم ہر اک کا معاملہ الگ ہے اعلیٰ ،اعلیٰ ہے اور سطحی ،سطحی۔رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم کاکہا ہے کہ کلام الہی کا ورد اور اعادہ عالی اور عمدہ اور ادسے ہے۔اس امر کا ہر اک کو ادراک واحساس کہاں۔کلام الہی کی گہرائی کو حاصل کر کے ہر دو عالم کا مدعا ئے دلی ملے اور صدر اسرار وحکم سے معمور ہو۔ہر مسلم ما مور ہے کہ کلام الہی کے ورد سے دل کو معمور کرے اگر وہ ماہ صوم حاصل کرے اس ورد کو مکرر کرے۔ اک اہل علم کا کہا ہے کہ اُٹھ کہ اس عالم کا اور ہی طور ہے، اہل حرم کے واسطے اس کا ہر سورہ طُور ہے۔اعداء ۵؎کی لاکھ سعی ہو ئی مگرکلام اللہ کا ہر کلمہ ہر محاورہ اور ہر سطر اگلے کئی سو سال سے اک طرح کی ہے اس کے کلمے سر مو ۶؎ کہاں ہٹے۔مسلم امّہ کے لا کھوں لاکھ صدر اور گھر اس سے معمور ہوئے۔مروی ہے کہ کلام الہی کا حامل اہلِ اکرام سے ہوگا۔ہر طاھر اس سے روح علم وعمل کے علاوہ اس کی ادائی اور دہائی دے کر آگ سے رہائی حاصل کرے اور حد سے سوا رحم و کرم و عطاؤں سے مالامال ہو۔لا محدود عطا ئے الہیٰ کا کوئی عدد احاطہ کہاں کرسکے گا۔اہل اسلام کو حکم ہے کہ ہر کام سے اول اللہ کا اسم رکھو وہ کام مکمل ہوگا۔عامی ہو کہ عالم،سالک ہو کہ مالک ہر اک کو کلام اللہ کے سماع سے سکوں حا صل ہو گا۔ اس دار العمل کی ہر صدی اور ہر عہد اس کلام کا سکہ ہے اس کے آگے ہر اک سکہ کھوٹا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم اس کے کلموں اور اسرار وحکم کے معلم ہوئے۔اور رسول ہی کے واسطے ہم اس امر سے مطلع ہوئے کہ وہ کلام الٰہی ہے ۔اللہ اور رسول کا کلام،رسول اللہ سے ہی ادا ہوا مگرہر اک کا حکم الگ ہے۔ اک کلام الٰہی ہے اور دوسرا کلام رسول۔کلام الٰہی کا ما ہر امام دہر ہو گا۔اس کے ما ہر سارے عالم میں سراہے گئے ۔کلام اللہ صالح اور طالح۷؎ ہر اک کو الگ کر کے رکھدے گا ۔اہل علم اور علم سے عاری لوگ کہاں مساوی ہوئے ؟ہمدم رسول امام علی کر ّمہ اللہ کا کہا ہے کہ کلام اللہ سارے علوم کا احاطہ کئے ہوئے ہے مگر ہر اک کو اس کا ادراک کہاں ۔کلام اللہ آگے کے لوگوں ،اہل عاد ، اہل مصر، آل ہود،آل مو سیٰ ،آل صالح کے علاوہ رسولوں کے احوال ،صوم و صلواہ ،کلمہ کے اسرار ،عمرہ کا مدعا،عالم ارواح،حلال وحرام ،اصول اسلام ہر اک کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔علم سماوی ہو کہ علم اصولی ، علم ملکی۸؎ ہو کہ علم ملکی۹؎ ،علم مادی ہو کہ علم روحی،کلام اللہ سارے علوم کو کھول ر کھاہے ۔علم اسلام کی روح ہے ۔اور کلام الٰہی علم کی روح ہے۔ امام ولی اللہؒ کا کہا ہے کہ کلام اللہ دلوں کی گر ہوں اور مسائل کے حل کی راہوں کو کھو لے گا۔اسلامی اور دگر حکمراں کو اس سے عمدہ و اعلیٰ اصول کہاں ملے گا۔اگر اہل علم اس کے اسرار سے آگاہ ہوں کلام الٰہی عصر رواں کے علاوہ ہر عہد کے مسا ئل کے حل کا کمال اسی سے آئے گا ۔اس سے ہٹ کر کسی کو کمال کہاں حا صل ہوا۔کل ملا ئکہ اس علم سے آگاہ ہو کر کمال آدم سلام اللہ علیٰ رسو لہ کے آگے سر ٹکا دئے ۔کلام اللہ کے سماع سے ہمدم رسول عمر اکر مہ اللہ کے دل و روح کو سکوں ملا اور وہ اسلام کے حوالے ہوئے۔اس رُودِ۱۰؎کرم سے اہل علم اور عوام ہر دو کو حصہ ملا اور وہ اس کے اعادہ سے آسودہ حال ہوئے۔اہلِ علم کا محاورہ ہے کہ اہلِ مکہ کو کلام اللہ عطا ہوا۔اہلِ مصر کو اعادہ ملا اور ہمارے ملک کو کلام الٰہی کا سو ا د ۱۱؎اور مواد حاصل ہوا ہر اک کا کمال اللہ کی عطا ہے۔ہر دور کے علماء اور حکماء کلام اللہ کے مطالعہ کے داعی رہے اور ممالک عالم کے مدارس علماًاورعملًا ہر دو طرح سے اس اہم کام کے لئے ما مور ہوئے۔
۱؎حضرت ابراھیم علیہ السلام ۲؎ اظہار ۳؎ سینہ ۴؎سورج ۵؎ دشمن ۶؎ بال برابر۷؎ برا
۸؎فر شتوں کا علم ۹؎ ملک کا علم ۱۰؎ دریا ۱۱؎ ملکہ ۔
ذہن۱۲؎ اورنگ زیب ۱۳؎محبت والے ۱۴؎ نمونہ ۔

اسلام سے عصری علوم الگ کہاں ہو ئے ۔کلام الٰہی ہر دور اور عہد کے لئے ہے۔اس کے مسلک کے سوا دوسرا مسلک کا لعدم ہے۔اس دور کے لوگوں کا حال مکہ کے لوگوں کی طرح ہے کہ علم کو اصلاح احوال و اعمال کے لئے کم اور اموال کے حصول کے لئے روا رکھا ہے۔ ہمارے ملک کے اک اگلے حکمراں۱۲؎ کا اسوہ رہا کہ کلام الٰہی لکھ کر اس کے واسطے سے اکلِ حلال حا صل کرے ۔کلام اللہ کی مرادکے حصول کے لئے اگر کوئی اگلوں کی راہ سے ہٹ کر رائے سے کلام کرے گا وہ راہ ھدیٰ کھو دے گا۔اساسی اور محکم علم سے ہی اس کے اسرار واہوں گے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیٰ رسو لہ وسلم ،ہمدم رسول، و اہل ولا۱۳؎ ،آئمہ اطہار اور علما وحکمائے اسلام کے اسوہ۱۴؎ کولے کر عالم اسلام ماہ صوم کے مسعود لمحوں کو کلام الٰہی کے اعادہ سے معطر کرے۔ کلام اللہ کے عامل کو اللہ کے ہاں سے صلہ ملے گا۔ اسما ئے الٰہی والی ولی،محصی ماحی ،حاکم سلام،واسع واحد،احدصمد ،حی و دود،اول مالک، معطی ھادی کے واسطے سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم کو کلام اللہ کا علم عطا کر۔ اس دارالعمل کے ہر ماہ وسال اور دہر کے ہر مسئلہ کو اس کے واسطے سے حل کر دے۔
۱؎حضرت ابراھیم علیہ السلام ۲؎ اظہار ۳؎ سینہ ۴؎سورج ۵؎ دشمن ۶؎ بال برابر۷؎ برا ۸؎فر شتوں کا علم ۹؎ ملک کا علم ۱۰؎ دریا ۱۱؎ ملکہ ۔ذہن۱۲؎ اورنگ زیب ۱۳؎محبت والے ۱۴؎ نمونہ ۔