کویل کی کُوک کو سن کر

میرا کالم مجتبیٰ حسین

نہ جانے کتنے ہی برسوں بعد کل سویرے آنکھ کھلی تو کانوں میں اچانک کویل کی کُوک سنائی دی ۔ ہمیں تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ ہمارے اپنے کان ہیں ۔ کویل تو بہت دور کی بات ہے ، کچھ دیر کے لئے شبہ ہوا کہ شاید کسی ٹیلی ویژن یا ریڈیو پروگرام میںکوئی کویل کُوک رہی ہو لیکن ٹیلی ویژن اور ریڈیو دونوں ہی بند تھے ۔ صبح کی سپیدی بھی اچھی طرح افق پر نمودار نہیں ہوئی تھی ۔ بستر میں پڑے پڑے سوچتے رہے کہ اتنے برسوں تک یہ کویل کہاں غائب رہی یا ہم ہی کویل سے دور رہے ۔ انسان اپنی غلطی کہاں تسلیم کرتا ہے ۔ اسے تو الزام عائد کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے ۔ ان دنوں جبکہ انسانوں نے ایک دوسرے کی باتوں کو سننا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے، اس ایک کویل کی آواز نے اچانک ہم سے بہت کچھ کہہ دیا۔ ایک زمانہ تھا جب کویل کی کُوک ہمارے روزمرہ میں شامل تھی ۔ روز ہی کویل کی کُوک سنائی دیتی تھی اور دل میں کتنے ہی جذبوں کو بیدار کردیتی تھی ۔ ہماری نوجوانی کے وہ دن جو کبھی دیہاتوں اور کھیتوں کے درمیان گذرا کرتے تھے وہاں کویل کی کُوک کوئی نئی بات نہیں تھی ۔

کویل ہم سے کیا کہنا چاہتی تھی ہمیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر اس کُوک کو سن کر ہمارے سارے وجود پر ایک سرشاری سی طاری ہوجاتی تھی ۔ کویل سے تو ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے تھے لیکن کویل کی کُوک کے حوالے سے ہمیں وہ سب کچھ یاد آجاتا تھا جو ہم کسی سے کچھ کہنا چاہتے تھے ۔ کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا تھا کہ کویل کی یہی کُوک جب اس ہستی کے کان میں پڑے گی جس سے ہم کچھ کہنا چاہتے تھے تو ہوسکتا ہے ہمارے دل کی ساری باتیں اس ہستی پر پہنچ جائیں ۔ ترسیل کا یہ عجیب و غریب انداز بھلے ہی کسی کو مضحکہ خیز لگے لیکن یہ تھا بڑا توانا اور مستحکم ۔ آپ یقین کریں کہ ایک عرصہ تک کویل کی یہ کُوک ہمارے سارے وجود میں پیار ، محبت ، خلوص اور انسانیت کی شمعیں جلادیتی تھی ۔ کہنے کو کویل ایک پرندہ ہے لیکن اس کی معرفت ہم پیار اور محبت کا درس لیا کرتے تھے ۔ لیکن بعد میں جب ہم بڑے شہروں میں رہنے لگے تو کویل اور اس کی آواز ہم سے دور ہوتی چلی گئی ۔

کل جب سویرے سویرے اچانک اس کویل کی آواز کانوں میں پڑی تو احساس ہوا کہ اس کویل نے ہم سے ڈھیروں ایسی باتیں کہہ دی ہیں جنھیں ہم لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے ۔ کتنے ہی جذبے اچانک بیدار ہوگئے ، کتنی ہی یادیں روشن ہوگئیں ۔ اس عرصہ کی بازیافت ہوگئی جس میں پچاس ساٹھ برس پہلے ہم سانس لیا کرتے تھے ۔ ہم سوچنے لگے کہ انسانوں کی بھیڑ میں رہتے رہتے جب ہمیں خود انسانوں کی باتیں سمجھ میں نہیں آنے لگی ہیں بلکہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آنے لگا ہے تو افراتفری اور نفسا نفسی کے اس ماحول میں اس کویل نے اپنی ایک کُوک کے ذریعہ ایسی کیا بات کہہ دی کہ ہمارے جذبوں کے تار جھنجھنا اٹھے ہیں ۔ کائنات اور انسانیت پر پھر سے اعتماد بحال ہونے لگا ہے ۔

جہاں انسانیت پر اعتماد کی بحالی کے لئے اب کسی انسان کی بات پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا ہو وہاں ایک معمولی کویل نے ہم میں انجان اور معصوم جذبوں کا ایک طوفان برپا کردیا ۔ کہیں اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم انسانوں کی باتوں سے دور اور پرندوں کی بولیوں سے قریب ہوتے جارہے ہیں ۔ بخدا اب تو کبھی اپنے انسان ہونے پر شرم سی آتی ہے اور ندامت کا احساس ہوتا ہے ۔ قدرت نے انسان کو اظہار کے لئے لاکھوں لفظ عطا کئے ہیں لیکن بیچاری کویل کو صرف ایک کُوک عطا کی ہے لیکن یہ اکیلی کُوک نہ جانے ہم سے اتنی ساری باتیں کس طرح کہہ گئی کہ اس کے آگے سارے لفظ ہیچ اور بے معنی نظر آنے لگے ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جس کویل کی آواز ہم نے کل سنی اس کے پُرکھوں کی آواز ہم نے کئی برس پہلے کب سنی تھی ۔ اس کی کئی پشتیں اب تک گذر چکی ہوں گی ۔ پرندوں کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے ۔ پانچ دس برس میں اپنی زندگی کے سارے کاروبار سے فراغت پا کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ اسی میں ان کا بچپن آتا ہے ، جوانی کے دن آتے ہیں ، مرادوں کی راتیں آتی ہیں ۔ قدرت نے ان کے ذمہ جو کام سونپا ہے اسے انجام دے کر چپ چاپ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔

انسان اب برسوں زندہ رہنے لگا ہے ۔ قدرت نے اس کے ذمہ جو کام سونپا ہے اُسے انجام دینے کی بجائے اب وہ کائنات ہی سے بدلہ لینے لگا ہے ۔ ہم یہ سوچ کر حیران ہوجاتے ہیں کہ قدرت نے لاکھوں برس پہلے کویل کو کُوک عطا کی تھی وہ اسی پر قانع اور مطمئن ہے اور اسی ایک کوک کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کا سفر طے کرلیتی ہے ۔ انسان نے صدیوں کے لمبے سفر میں اپنے اظہار کے لئے بے شمار لفظ ایجاد کرلئے ہیں ۔ کئی زبانیں اپنائی ہیں لیکن لفظوں کی اس بہتات میں لگتا ہے انسان اپنی آواز کو کھوتاجارہا ہے ۔ لفظ اپنے معنی بدلتے جارہے ہیں ۔ انسان نے ہزاروں ڈکشنریاں تیار کررکھی ہیں لیکن ان میں شامل کتنے ہی لفظوں کے وہ معنی نہیں جانتا ۔ لفظوں کی اس بہتات میں وہ گونگا اور بہرہ ہوتا جارہا ہے ۔ لفظ اب اس کے قبضۂ قدرت میں نہیں رہے ۔ جو لفظ وہ بولتا ہے خود ان پر عمل کرنے کا وہ اہل نہیں رہا ۔ ڈکشنریوں کی حیثیت اب لفظوں کے تابوتوں کی سی ہوگئی ہے ۔ کیا انسان کو زندہ رہنے کے لئے اب واقعی اتنے سارے لفظوں کی ضرورت ہے ۔ کیا ان سارے لفظوں کو ملا کر انسان کے لئے بھی ایک ایسی کُوک ایجاد نہیں کی جاسکتی جو سب کی سمجھ میں آسکے ۔ اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد انسانوں نے اب ایک ایسا ماحول تیار کرلیا ہے جہاں وہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کے اب قابل نہیں رہے ہیں ۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اب ایسے دانشور اور سیاستدان ہمیں جابجا نظر آنے لگے ہیں کہ جب وہ محبت اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں تو لگتا ہے قتل و غارتگری اور بربادی کی باتیں کررہے ہیں ۔

جب وہ آپس میں گلے ملتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ گلے نہ مل رہے ہوں بلکہ ایک دوسرے کے گلے دبوچ رہے ہوں ۔ ان کے قول اور فعل میں ہمیں کہیں بھی کوئی مماثلت نظر نہیں آتی ۔ اس لئے تو ہم لفظوں اور ان کے مفہوم سے مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔ کس کی بات سنیں اور اگر سنیں تو اس پر یقین کس طرح کریں ۔ لگتا ہے انسانوں نے لفظ اس لئے ایجاد نہیں کئے کہ ان کی مدد سے اپنی بات دوسرے تک پہنچاسکیں بلکہ لفظ اس لئے ایجاد کئے ہیں کہ ان کی مدد سے ایک دوسرے کو دھوکہ دے سکیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچاسکیں ۔ ان لفظوں کی مدد سے وہ انسانیت کا دامن تار تار کرتے چلے جارہے ہیں ۔ انسانوں کا قتل تو ہوتا ہی جارہا ہے ۔ اب الفاظ کا بھی قتل عام ہونے لگا ہے اور لفظوں کے قتل عام کو ہم انسانیت کا قتل عام سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کل اچانک کئی برس بعد کویل کی آواز سنی تو اس کی کُوک نے ہم سے کئی باتیں کہہ دیں ۔ لاکھوں برسوں سے کویل کے پاس صرف ایک کُوک ہے ۔ نہ وہ کوئی زبان جانتی ہے اور نہ ہی اس کی بولی کی کوئی ڈکشنری ہے ۔ کوا ہزاروں برسوں سے صرف کائیں کائیں کرتا چلا آرہا ہے اور اپنی زندگی کے سارے کام انجام دے کر دنیا سے چپ چاپ چلا جاتا ہے ۔

انسان پہلے بات کرنا نہیں جانتا تھا ۔ پھر اس نے بات کرنا سیکھا ، سیکڑوں زبانیں ایجاد کیں ، کئی بولیاں اختیار کیں ۔ کئی لفظ بنائے اور انھیں مفہوم عطا کیا ، مگر اب انسان کے یہ لفظ کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں اور ان کا مفہوم بدلتا جارہا ہے ۔ انسان ان لفظوں کے ذریعہ اب اپنے دل کا مدعا ایک دوسرے سے بیان کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان لفظوں کی مدد سے ایک دوسرے کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی لئے اب ہمیں کویل کی کُوک کے آگے ساری زبانوں کے لفظ بے توقیر اور بے معنی نظر آنے لگے ہیں ۔ صدیوں کے سفر کے بعد کویل کی کُوک نے اپنا مفہوم نہیں کھویا البتہ انسانوں کے لفظ اب اپنے مفاہیم کھوچکے ہیں ، کھوکھلے اور ننگے ہوچکے ہیں ۔ کویل کی آواز سن کر ہمیں لندن کے علاقہ ہیمپسٹیڈ میں واقع مشہور شاعر کیٹسؔ کا وہ گھر یاد آیا جہاں کسی بلبل کی آواز کو سن کر کیٹس نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’Ode to Nightingale‘‘ لکھی تھی ۔ اس نظم میں کیٹسؔ نے کتنی ہی خوبصورت باتیں کہی تھیں ۔ کیا اکیسویں صدی کا انسان کیٹسؔ کی اس نظم کے پیغام کو سمجھ سکتا ہے ۔ اسی لئے تو ہمیں اب کویل کی کُوک اور بلبل کا نغمہ انسانوں کی باتوں سے کہیں زیادہ معتبر ، سچے اور مستحکم نظر آنے لگے ہیں ۔ (ایک پرانی تحریر)