واجد خان
صرف چار روز قبل جب یہ پتہ چلا کہ 26/11 ممبئی حملوں کے دوران شہید ہوئے اے ٹی ایس سربراہ ہیمنٹ کرکرے کی بیوہ کویتا کرکرے بھی اس دنیا میں نہیں رہیں ، تو یقین جانئے کہ اس خبر نے آنکھیں نمناک کردیں اور ایک بار پھر 26/11 کے حملے ، پاکستانی دہشت گردوں کے ذریعہ ممبئی کے شہریوں کا قتل عام اور پھر کاما ہاسپٹل کے قریب ہیمنت کرکرے کی موت بالکل کسی فلم کی طرح ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگے ۔ کویتا کرکرے کا شمار ان خواتین میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے کبھی بھی اپنے شوہر کے اعلی عہدہ پر فائز ہونے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ۔ وہ ایک دردمند خاتون تھیں اور اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے ہر ماں کی طرح بیحد پیار کرتی تھیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اجمل قصاب کو پھانسی دیئے جانے کے بعد بھی کویتا کرکرے کو یہ محسوس ہوا تھا کہ 26/11 واقعہ میں ملوث ایک مجرم تو کم ہوا لیکن ان کا ماننا تھا کہ اصلی خاطی اب تک آزاد گھوم رہے ہیں ۔ قصاب کو پھانسی دینا اس واقعہ کی محض ایک کڑی کا خاتمہ تھا ۔ ہیمنت کرکرے کو اس وقت کے جوائنٹ کمشنر آف پولیس اشوک کامٹے اور اور ممبئی پولیس کے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ وجئے سالسکر کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ اس دلدوز واقعہ کے بعد کویتا کرکرے پونے میں رہنے لگی تھیں ، لیکن ممبئی پولیس کو فراہم کئے گئے ساز و سامان و آلات خصوصی طور پر بلٹ پروف جیکٹس کے ناقص معیار پر بھی انھوں نے سوالات اٹھائے تھے
لیکن ان کے اطمینان بخش جوابات کویتا کرکرے کو ان کی موت تک نہیں ملے ۔ وہ ہمیشہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ اتنے سارے افسران بغیر کسی تیاری کے دہشت گردوں سے نمٹنے ایک ساتھ اور ایک ہی مقام پر کیوں پہنچ گئے تھے ؟ 26/11 حملوں سے محکمہ پولیس نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ محکمہ پولیس اب بھی ناقص ساز و سامان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اور ان کے پاس آج بھی دہشت گردی سے نمٹنے کوئی موثر حکمت عملی نہیں ہے ۔ بہرحال یہ وہ باتیں ہیں جن کا جواب شاید اب کسی کو بھی نہ مل سکے ۔ کویتا کرکرے اپنے شوہر کی موت کے بعد ٹوٹ سی گئی تھیں لیکن جب جب ان کی حوصلہ افزائی کے لئے انھیں ملک کے کسی بھی شہر میں مدعو کیا گیا تو انھوں نے خندہ پیشانی سے شرکت کی ۔ کویتا کرکرے وہ خاتون تھیں جنہوں نے اس وقت کے وزیراعلی گجرات اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ایک کروڑ روپئے کی مالی امداد کو ٹھکرادیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں مالی امداد کی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ اپنی سوچ میں غرق رہنے والی کویتا کرکرے آہستہ آہستہ اپنی صحت سے لاپرواہ ہوگئیں ۔
راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے تقریباً چار سال قبل مدیراعلی سیاست جناب زاہد علی خان نے فیاپسی آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک تقریب میں کویتا کرکرے کو تہنیت پیش کی تھی ۔ اس وقت وہاں ملک کے نامور صحافی بشمول کلدیپ نیر بھی موجود تھے ۔ کویتا کرکرے سے راقم الحروف نے بھی مختصر بات چیت کی تھی جہاں انھوں نے مراٹھی زبان میں کہا تھا کہ ’’اتا ملا ماجھی یدھ ایکٹاچ لڑائچاآہے‘‘ (اب مجھے اپنی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے) ۔ کویتا کرکرے وہ عظیم خاتون تھیں جنہوں نے مرکر بھی کئی لوگوں کو نئی زندگی دی ۔ ان کے دونوں گردے دو مختلف مریضوں کو بطور عطیہ دئے گئے ، جو گزشتہ کئی سال سے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھے اور ڈائیلاسس پر ان کی زندگی کا دار و مدار تھا ۔ کویتا کرکرے کا جگر بھی پیوند کاری کے ذریعہ دوسرے مریض کو منتقل کیا گیا جبکہ ان کی آنکھوں کو ممبئی کے علاقہ پریل میں واقع حاجی بچوعلی آئی بینک کو بطور عطیہ دیا گیا ۔ یہاں اس بات کا افسوسناک تذکرہ بھی کرنا پڑرہا ہے کہ ان کے انتقال پر ملک کے کسی بھی اعلی سطحی سیاسی قائد نے تعزیتی پیام روانہ نہیں کیا ۔ وزیراعظم تو اس وقت امریکہ میں ہیں لہذا ان سے توقعات رکھنا فضول ہے لیکن دیگر قائدین ، وزراء اور اپوزیشن قائدین نے بھی کویتا کرکرے کی موت کو ’’رات گئی بات گئی‘‘ کے مصداق تن آسانی سے لے لیا ۔ کویتا کرکرے کی موت کے بعد ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی زندگی میں یقیناً ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ ہیمنت کرکرے کی موت پر ملک بھر میں سوگ کا ماحول تھا لیکن ان کی ’’نصف بہتر‘‘ جنہوں نے خود ہیمنت کرکرے کی زندگی میں بطور بیوی ، دوست اور مشیر ایک اہم رول ادا کیا ، ان کی موت کو اخبارات میں صرف دو کالم کی جگہ ملی ۔ الغرض کویتا کرکرے کی موت نے یقیناً ممبئی حملوں کے ایک اور باب کا خاتمہ ضرور کیا ہے لیکن ان کی خواہش کے مطابق دیانتدارانہ تحقیقات کے ذریعہ اگر 26/11 کے پس پردہ مجرموں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا گیا تو یقیناً کویتا کرکرے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اور خراج عقیدت نہیں ہوسکتا کیونکہ مرنے والے کی آتما کی شانتی کے لئے ہمیشہ دعا کی جاتی ہے ۔
wajid_siasat@yahoo.com