دہوک (عراق)، 13 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) جہادیوں کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہزاروں عراقیوں کیلئے وقت نکلا جارہا ہے جبکہ امریکہ نے آج کہا کہ وہ بچاؤ کاری کے ممکنہ طریقوں اور ’’امکانی نسل کشی ‘‘ کی اقوام متحدہ وارننگ کا جائزہ لے رہا ہے۔ امریکہ نے اسلامی مملکت (آئی ایس) جہادی گروپ کے ارکان کے خلاف کوہِ سنجار کے علاقے میں فضائی حملے انجام دیئے ہیں، جہاں یو این رفیوجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ 20,000 تا 30,000 افراد محاصرہ بند ہیں، جن کی اکثریت یزیدی اقلیت کے ارکان پر مشتمل ہے۔ مزید ہزاروں افراد جان بچانے کیلئے شام میں بھٹکنے کے بعد آج عراق کے خودمختار کرد خطہ میں پہنچ گئے، جن میں سے اکثر کے پاس بدن کے کپڑوں کے سواء کچھ نہیں ہے۔ بعض خواتین کے پاس نڈھال بچے ہیں جو رو رہے ہیں جبکہ وہ عراقی کردستان کے نسبتاً محفوظ علاقے کو پہنچے ہیں۔ لیکن ہنوز بڑی تعداد میں لوگ پہاڑی پر موجود ہیں، 45 سالہ محمود بکر نے یہ بات کہی۔ بکر نے بتایا کہ ان میں سے کئی معمر ہیں، وہ اتنا فاصلہ چل کر طئے نہیں کرسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اقلیتی حقوق ماہر ریتا ایزاک نے متنبہ کیا ہے کہ ’’انھیں اندرون چند یوم یا گھنٹے اجتماعی ظلم اور ممکنہ نسل کشی کا سامنا ہوسکتا ہے‘‘۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے آج کہا کہ واشنگٹن پھنسے ہوئے شہریوں کو باہر نکالنے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے۔
انھوں نے کہا، ’’ہم بہت سرعت سے اور اہم جائزہ لیں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو پہاڑوں سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہنگامی ضرورت ہے‘‘۔ اس دوران امریکی حکام نے مزید 130 عسکری مشیر عراق بھیجنے کی تصدیق کر دی ہے۔ وزیر دفاع چک ہیگل نے بتایا کہ یہ فوجی عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل پہنچ گئے ہیں۔ ہیگل کے بقول یہ ماہرین جنگی سرگرمیوں میں تو حصہ نہیں لیں گے لیکن اسلامک اسٹیٹ کے شدت پسندوں کے خلاف کرد فورسز کی معاونت کریں گے۔ دوسری جانب منگل کو بھی امریکی فضائیہ نے یزیدیوں کیلئے امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق سنجار کی پہاڑیوں میں چھپے ان ہزاروں افراد کیلئے خوراک اور پانی کے 180 بنڈل پھینکے گئے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدہ دار کے مطابق امریکی فوج کی میرین کور اور خصوصی فوجی دستوں سے تعلق رکھنے والے یہ افراد علاقے میں پھنسے افراد کی مشکلات اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گئے ہیں اور وہ کسی عسکری مہم میں شریک نہیں ہوں گے۔ امریکہ شمالی عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ اس تنظیم کے خوف کی وجہ سے مذکورہ علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔
منگل کو ریاست کیلیفورنیا میں کیمپ پینڈلٹن کے مقام پر چک ہیگل نے صحافیوں کو بتایا کہ ’یہ زمینی فوج بھیجنے جیسی کارروائی نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ جائزہ ٹیم کے ارکان شمالی شہر اربیل پہنچے ہیں اور وہ تفصیلی جائزہ پیش کریں گے کہ ہم کہاں کہاں مدد کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ پنٹگان کے ایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ امریکی حکومت ’سنجار میں جاری لڑائی سے متاثرہ عراقیوں‘ کی مدد کے ذرائع تلاش کرتی رہے گی تاکہ دولت اسلامیہ کی جانب سے ’انسانی نسل کشی کے واقعات‘ سے بچا جاسکے۔ اس سے قبل اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ شدت پسندوں کے خوف سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں افراد اب بھی شمالی عراق میں ایک پہاڑ پر پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں زندہ رہنے کے لیے فوری مدد درکار ہے۔ عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ کوہِ سنجار پر پھنسے یزیدی فرقے سے تعلق رکھنے والے ان خاندانوں کو فوری طور پر خوراک، پانی اور انتہائی سرد موسم سے بچاؤ کیلئے عارضی پناہ گاہیں درکار ہیں۔
یہ افراد دس دن قبل اس وقت سنجار کے قصبے سے نکل کر پہاڑ پر چلے گئے تھے جب دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے ان کے قصبے پر قبضہ کر لیا تھا۔ دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں نے حالیہ چند ماہ میں شمالی عراق اور شام کے متعدد علاقوں پر قبضہ کیا ہے جس کے بعد وہاں سے مختلف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے نقل مکانی کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ عراقی شہریوں کی امداد کے لیے مزید کام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کوہِ سنجار پر پھنسے یزیدیوں اور دیگر افراد کی حالت بہت خراب ہے۔‘ اقوامِ متحدہ کے عہدہ دار ایڈریئن ایڈورڈسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اندازاً 20 سے 30 ہزار افراد کوہِ سنجار پر پانی، خوراک اور مناسب پناہ گاہوں کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق میں اب اندرونی طور پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 12 لاکھ ہوگئی ہے۔