مرکزی حکومت کے علم میں ایک اہم بات لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پورے ملک میں تحفظات کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے۔ کسی بھی طبقہ کے مطالبات کی پیچیدگیوں کی تشخیص کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ریاست گجرات سے بھی تحفظات کا مطالبہ بلند ہونے کے بعد مرکز کی مودی حکومت کے سامنے عقل مندوں کے لئے اشارے ہی کافی ہوتے ہیں کہ مصداق ان کی نام نہاد سیاسی طاقت کو ان کی ہی ریاست سے چیلنج کیا جارہا ہے۔ پٹیل طبقہ کو بھی تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے پٹے دار انامت آندولن سمیتی کے کنوینر 21 سالہ ہاردک پٹیل نے او بی سی کوٹہ کے تحت تحفظات کے لئے زور دیا ہے۔ انھوں نے خبردار کیاکہ اگر پٹیل طبقہ کو کوٹہ کے لئے قابل نہیں سمجھا گیا تو گجرات میں 2017 ء کے انتخابات میں بی جے پی حکومت کو سنگینیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بی جے پی کا کنول ہرگز نہیں کھلے گا۔ اس مطالبہ کی شدت اور گرفتاری کے خلاف گجرات میں فسادات ، آتشزنی کے واقعات میں 5 افراد ہلاک ہوئے۔ مودی کی ریاست ایک بار پھر تشدد کی لپیٹ میں آئی ہے۔ یہ کارروائی عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ گجرات میں پٹیل برادری متمول خوشحال طبقہ سمجھی جاتی ہے۔ اس طبقہ کے اندر بھی کوٹہ کا رجحان پیدا ہونا غور طلب سیاسی امر ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی غور طلب ہے کہ جو پٹیل برادری کے مفادات کی بات کرے گا وہی پٹیلوں پر حکومت کرے گا۔
1985 ء میں پٹیل برادری ہی نے گجرات سے کانگریس کا صفایا کیا تھا اب 2017 ء میں بی جے پی کا صفایا ہوگا۔ احمدآباد میں نکالی گئی ریالی اور پٹیل طبقہ کے افراد کی کثیر تعداد کی شرکت کے بعد مودی حکومت کے سامنے ایک نیا چیلنج کھڑا ہوا ہے۔ کوٹہ کی سیاست کے ذریعہ بی جے پی کیا نیا گُل کھلانے والی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت کوٹہ کی آڑ میں ہندوستان کے اندر کئی سیاسی چال چلی جارہی ہے جو سنگین خطرے کی علامت ہے۔ کسی بھی مسئلہ کا دیرپا حل اس وقت نکل سکتا ہے جب مطالبات اور تقاضے حقیقی ہوں۔ ضرورت مندوں کے مطالبات کو نظرانداز کرتے آرہی حکومتوں کو اب خوشحال طبقہ کی جانب سے بھی کوٹہ کی صدا بلند ہوتی ہے تو یہ تشویشناک آغاز ہے۔ گجرات کے شہر احمدآباد کو سیاسی تبدیلیوں کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔ 1974 ء میں جب ایک انجینئرنگ کالج کے طلباء نے فیس میں اضافہ کے خلاف احتجاج کیا تو یہ طلباء سڑکوں پر نکل آئے تھے جن کی حمایت کے لئے سارا گجرات اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس وقت کی چمن بھائی پٹیل حکومت کو مہنگائی اور مبینہ رشوت ستانی کے الزامات کا سامنا تھا جس کے بعد احتجاج کی لہر نے ساری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور نو نرمان آندولن کی وجہ سے حکومت گر گئی تھی۔ اس آندولن کے دوران ہی جئے پرکاش نارائن نے گجرات کا دورہ کرکے احتجاجی نظریہ کو انقلابی تحریک میں تبدیل کردیا جس کے نتیجہ میں ملک پر ایمرجنسی کا سایہ چھایا تھا۔ گجرات میں پھر ایک بار پٹیل برادری یا پٹہ دار طبقہ نے بڑی ریالی نکالی ہے تو اس کے کہنے کے مطابق 2017 ء میں بی جے پی کا صفایا ہوجاتا ہے تو ملک میں ایک نئی تبدیلی رونما ہوگی جہاں تک کوٹہ کا سوال ہے کوٹہ کی سیاست کا مسئلہ ہے یہ ایک سیاسی مفادات کے تابع ہے۔ گجرات میں بعض طبقوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو احمدآباد میں یا گجرات کے کسی شہر میں پاش رہائشی علاقوں میں مکان کی تلاش ہوتی ہے تو اسے پٹیل، بنیا اور برہمنوں کے علاقوں میں مکان ملنا مشکل ہوتا ہے۔ حال ہی میں اس طرح ایک مسلم شہری کو مجبوراً اکثریتی طبقہ کے علاقہ سے تخلیہ کرنا پڑا تھا۔
سماجی بے چینی پیدا کرنے والے واقعات کے درمیان اگر پٹیل برادری بھی اپنے لئے کوٹہ طلب کرتی ہے تو پھر کوٹہ کی افادیت اور اس کے مستحقین کے تقاضے فوت ہوجائیں گے۔ کوٹہ کی سیاست کو گجرات کے عوام نے 1980 ء میں بھی دیکھا ہے جب مدھو سنہا سولنکی کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے سماجی، معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے لئے کوٹہ پر عمل آوری کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت گجرات کی اعلیٰ ذاتوں خاص کر پٹیل طبقہ نے ناراضگی ظاہر کی تھی۔ گجرات میں 3 مرتبہ بڑے پیمانہ پر سیاسی تبدیلیاں دیکھی جاچکی ہیں۔ ایک 1974 ء دوسرا 1985 ء اور تیسرا 2002 ء میں۔ اب پٹیل طبقہ کیلئے کوٹہ کا مطالبہ کرتے ہوئے 21 سالہ ہاردک پٹیل نے کثیر ریالی منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے تو یہ آنے والی سیاسی تبدیلی کا بگل معلوم ہوتی ہے۔ حال ہی میں میں جاٹ طبقہ کے کوٹہ مطالبہ نے بظاہر کوئی خاص اثر نہیں دکھایا کیوں کہ اس سال مارچ میں سپریم کورٹ نے جاٹ طبقہ کو او بی سی موقف دینے یو پی اے حکومت کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن جاٹ طبقہ کی طرح گجرات میں پٹیل برادری کے کوٹہ مطالبہ کا انجام یوں نہیں ہوتا بلکہ اس کے سیاسی اثرات سے سارا ملک متاثر ہوسکتا ہے۔ پٹیل طبقہ کی آبادی گجرات میں اگر 1.80 کروڑ ہے تو ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی اس طبقہ کے افراد کی قابل لحاظ تعداد مقیم ہے۔ کوٹہ کی سیاست کی زد میں وہ طبقہ آرہے ہیں جن کے تعلق سے کئی رپورٹس حکومتوں کی الماریوں میں بند ہیں۔