رشیدالدین
پارلیمنٹ سیشن …خاطیوں کی پشت پناہی
موہن بھاگوت سپر پرائم منسٹر
پارلیمنٹ کا مانسون سیشن آخر کار ہنگامہ کی نذر ہوگیا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 18 دن تک کوئی کارروائی نہیں چلی جس کے سبب تقریباً 150 کروڑ روپئے کی خطیر عوامی رقم ضائع ہوگئی۔ پارلیمنٹ دراصل عوامی مسائل پر مباحث اور ان کے حق میں قانون سازی کا مقام ہے۔ جب کبھی پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوتا ہے تو عوام مختلف توقعات وابستہ کرلیتے ہیں لیکن اس مرتبہ انہیں مایوسی ہوئی۔ کارکردگی اور کام کاج کے لحاظ سے اس سیشن کو گزشتہ 15 برسوں کا بدترین سیشن کہا جارہا ہے کیونکہ لوک سبھا میں 6 فیصد اور راجیہ سبھا میں صرف 2 فیصد کام ہوا۔ دونوں ایوانوں میں اس صورتحال کیلئے یقیناً حکومت ذمہ دار ہے جس نے بے قاعدگیوں اور اسکامس پر جوابدہی سے بچنے کیلئے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ للت مودی اور ویاپم اسکام میں شامل افراد کے خلاف واضح ثبوت کے باوجود انہیں بچانے کی کوشش کی گئی۔ اگر حکومت میں شامل افراد اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوجاتے تو سیشن کو اطمینان بخش طریقہ سے چلایا جاسکتا تھا۔ صاف ستھری اور کرپشن سے پاک حکومت کی فراہمی کے وعدے کہاں گئے۔ اچھے دن کیا یہی ہیں کہ عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں اور قائدین اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں۔ انڈیا فرسٹ کیا یہی ہے کہ ثبوت کے باوجود اپنی پارٹی والوں کو بچایا جائے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج، راجستھان و مدھیہ پردیش کے چیف منسٹرس کو بچانے میں حکومت اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ سب کچھ واضح ہونے کے باوجود انہیں کلین چٹ دی گئی۔ آئی پی ایل اسکام کے ذمہ دار کی مدد کرنے کا اعتراف سشما سوراج نے کیا جبکہ وسندھرا راجے کے خلاف دستاویزی ثبوت منظر عام پر آگئے۔ ویاپم گھٹالے میں چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے یو پی اے دور حکومت میں بعض وزراء کے استعفوں کی مانگ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو چلنے نہیں دیا تھا۔ یو پی اے حکومت نے الزامات کا سامنا کرنے والے وزراء کو حکومت سے باہر کردیا لیکن آج بی جے پی داغدار وزراء کے استعفیٰ کی مانگ قبول کرنے تیار نہیں۔ اقتدار کے 15 ماہ میں بی جے پی کا دوہرا معیار بے نقاب ہوچکا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اپنے آمرانہ اور ڈکٹیٹر شپ کے رویہ سے جمہوری اصولوں کا قتل کرنے والے آج جمہوریت بچاؤ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
فی الوقت جمہوریت بچانے سے زیادہ ملک کو بی جے پی کے اسکامس اور نفرت کا پرچار کرنے والے سنگھ پریوار سے بچانے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اپوزیشن میں پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی تیار کی ہے تاکہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے اہم بلز کو منظور کیا جائے ۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ 18 دن میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک مرتبہ بھی سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کی۔ وہ اس سیشن میں اپوزیشن کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔ پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران جنہیں آئرن میان کے طور پر پیش کیا تھا، آج وہی شخصیت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ کارروائی توکجا مودی نے ان افراد کی باز پرس تک نہیں کی جن کے نام اسکامس میں منظر عام پر آئے ہیں۔ بی جے پی نے خاطیوں کو بچانے کیلئے سارے سیشن کو قربان کردیا۔ نریندر مودی جو ٹوئیٹ کے ماہر ہیں اور ریڈیو پر عوام سے من کی بات کرتے ہیں، ان تنازعات پر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی جبکہ عوام ان کے من کی بات جاننے کیلئے بے چین ہیں۔ سارے ہنگامے پر تو انہوں نے پارلیمنٹ میں لب کشائی نہیں کی لیکن بی جے پی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کانگریس پر تنقید کیلئے اپنا مون ورت توڑا۔ مودی نے وہاں بھی مسائل اور اسکامس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے وزراء اور بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو ہدایت دی کہ کانگریس اور بائیں بازو ارکان کے لوک سبھا حلقوں کا دورہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی کارروائی میں رکاوٹ پیدا کرنے پر انہیں ’’بے نقاب‘‘ کریں۔ مودی نے کانگریس پر ایمرجنسی ایام کی طرح رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کیلئے مسائل پر اظہار خیال کی اصلی جگہ پارلیمنٹ ہے، وہاں سے فرار کیوں ؟ آخر بی جے پی عوام کے درمیان کس کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے ۔ حالانکہ وہ خود پارلیمنٹ میں اپنے ہٹ دھرمی کے رویہ کے سبب دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے رویہ کے بارے میں عوام کے درمیان پہنچ کر بتانے کی بات مضحکہ خیز ہے ۔ شاید بی جے پی ابھی بھی پتھر کے زمانے میں ہے ۔ وہ بھول چکی ہے کہ یہ 21 ویں صدی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا دور ہے۔ گاؤں گاؤں میں عوام پارلیمنٹ اور دنیا کے حالات سے باخبر ہیں۔ عوام کے درمیان جانے سے قبل بی جے پی قائدین کو ان سوالات کے جواب تیار کرنے چاہئیں جو عوام کی جانب سے پوچھے جائیں گے۔ بی جے پی کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ للت مودی کی مدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ کس منہ سے عوام کا سامنا کریں گے۔ ایمرجنسی کی بات کرنے والے نریندر مودی خود پارٹی میں ایمرجنسی کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔ ان پر زبان بندی کے ذریعہ عملاً ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ للت مودی اور دوسرے اسکامس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا جہاں تک سوال ہے، گزشتہ 15 ماہ میں مودی نے کس کے خلاف کارروائی کی جو سشما سوراج اور دوسروں کے خلاف کریں گے۔ مسلمانوں کو پاکستان جاؤ، رام زادے، حرام زادے کہنے والوں لو جہاد ، گھر واپسی حتیٰ کہ فسادات کے ذمہ داروں میں سے ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی۔ برخلاف اس کے ایسے افراد کو وزارت میں شامل کیا گیا۔ نریندر مودی بھلے ہی کارروائی نہ کریں لیکن ملک کے عوام بی جے پی کے خلاف کارروائی کا ذہن بنا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ میںجاری تعطل کے دوران مودی حکومت اور کارپوریٹ گھرانوں کی ملی بھگت بے نقاب ہوگئی۔ ملک کی تاریخ میں پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے کہ اپوزیشن نے کسی مسئلہ پر پارلیمنٹ کی کارروائی کو چلنے نہیں دیا لیکن یہ پہلا موقع ہے جب ملک کے سرکردہ کارپوریٹ گھرانوں اور صنعت کاروں نے پارلیمنٹ کی کارروائی چلانے کی اپیل کی۔ پہلی بات تو یہ کہ صنعتی گھرانوں کا سیاست سے کیا تعلق؟ پارلیمنٹ کی کارروائی چلے یا نہ چلے ان کو کیا فائدہ یا نقصان؟ کارپوریٹ گھرانوں کو دراصل یہ بات پسند نہیں تھی کہ للت مودی جو خود کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہیں، ان کے خلاف پارلیمنٹ میں بحث ہو۔ پارلیمنٹ کی کارروائی سے دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے کارپوریٹ گھرانے اس وقت کیوں خاموش تھے
جب یو پی اے دور میں بی جے پی نے 2G اسکام پر پارلیمنٹ چلنے نہیں دی؟ اس وقت انہیں ملک کی ترقی کا خیال کیوں نہیں آیا؟ حکومت مانسون سیشن میں کارپوریٹ گھرانوں کے حق میں شائد کچھ فیصلے کرنے والی تھی جس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ انتخابی مہم کے دوران کارپوریٹ گھرانوں نے بی جے پی کے حق میں جو سرمایہ کاری کی تھی آج مودی حکومت اس کا احسان چکا رہی ہے۔ عوام کے لئے اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیا لیکن حکومت کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہے۔ ظاہر ہے کہ للت مودی بھی اسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کو بچانا حکومت کی مجبوری ہے۔ اس معاملہ میں ملائم سنگھ یادو نے پھر ایک بار اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔ پارلیمنٹ میں احتجاج کے مسئلہ پر انہوں نے سیکولر جماعتوں سے اختلاف کرتے ہوئے بی جے پی کا ساتھ دیا اور دیوار کی بلی کا کردار نبھانے لگے ۔ ایک طرف وہ جنتا دل پریوار کے مکھیا ہیں جو بی جے پی سے مقابلہ کیلئے قائم کیا گیا لیکن ملائم سنگھ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے ۔ بی جے پی کے حق میں ان کی ہمدردی اور کسی بھی وقت رنگ بدلنا نئی بات نہیں ہے۔ وہ سابق میں بی جے پی کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ مسلمانوں کے ہمدرد کے طور پر خود کو پیش کرنے والے ملائم سنگھ تو بابری مسجد شہادت کے اصل ملزم کلیان سنگھ کو گلے لگا چکے ہیں۔ انہوں نے کلیان سنگھ کی پارٹی سے اترپردیش میں اتحاد کیا تھا۔ اسی دوران حکومت پر آر ایس ایس کے اثر انداز ہونے کی ایک مثال اس وقت منظر عام پر آئی جب مدھیہ پردیش ہائیکورٹ نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو نوٹس جاری کی۔ بھاگوت نے حال ہی میں جبلپور کے دورہ کے موقع پر بعض محکمہ جات کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اجلاس کیا تھا۔
کسی سرکاری پوزیشن کے بغیر عہدیداروں کے ساتھ اجلاس پر عدالت نے بھاگوت اور شرکت کرنے والے عہدیداروں کو نوٹس جاری کی ہے۔ حکومت کے کاج میں آر ایس ایس کی مداخلت اظہر من الشمس ہے۔ عہدیدار ہی کیا خود وزیراعظم اور ساری کابینہ پر آر ایس ایس کنٹرول ہے اور حکومت کا ریموٹ کنٹرول ناگپور ہیڈکوارٹر میں ہے۔ چونکہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کا اقتدار ہے ، لہذا موہن بھاگوت نے اجلاس طلب کرنے کو اپنا حق سمجھا۔ اگر کسی اور مذہب کے رہنما اس طرح عہدیداروں کو طلب کرتے تو کیا حکومت خاموش رہتی؟ عہدیدار تو کیا ایک معمولی اٹینڈر بھی حاضر نہیں ہوگا۔ پھر بھاگوت کو قانون شکنی کی کھلی اجازت کس نے دی؟ اب تو نریندر مودی حکومت نے موہن بھاگوت کو ملک کی تیسری قیمتی اور اہم ترین شخصیت کا درجہ دے دیا ہے۔ دہشت گردوں سے خطرہ کا بہانہ بناکر انہیں زیڈ پلس سیکوریٹی فراہم کی گئی، انہیں اسپیشل سیکوریٹی گروپ کے 190 کمانڈوز کا حفاظتی گھیرا فراہم کیا گیا۔ صدر جمہوریہ اور وزیراعظم کے بعد اس قدر سیکوریٹی کے حامل بھاگوت تیسرے شخص ہیں۔ کسی دستوری عہدہ کے بغیر اور غیر سیاسی شخصیت کی حیثیت سے بھاگوت پہلے شخص ہیں جنہیں اس قدر تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان کے کسی بھی دورہ میں بیک وقت 45 کمانڈوز ساتھ رہیں گے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت دراصل سوپر پرائم منسٹر کے درجہ میں ہیں۔ جو تنظیم اکثریتی طبقہ کو حفاظت خود اختیاری کی کھلے عام ٹریننگ دیتی ہے ، اس کے سر سنچالک خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ کیا آر ایس ایس کے تربیت یافتہ سوئم سیوک انہیں تحفظ فراہم نہیں کرسکتے یا پھر بھاگوت کو ان پر بھروسہ نہیں؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرکاری کمانڈوز کے بجائے سوئم سیوکوں کو بھاگوت اپنا محافظ بناتے۔ پارلیمنٹ کے حالات پر اوج یعقوبی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
کس کو منظور ہے صرف اپنی انا کی تسکین
کون تنقید سے بیزار ہے تم خود سوچو
rasheeduddin@hotmail.com