کابینہ میں ردو بدل…تین ریاستوں کی تیاری
مسلم ووٹ …سیاسی جماعتوںکی دو عملی
رشیدالدین
کسی بھی حکومت سے عوام کو امید ہوتی ہے کہ اس کے فیصلے ان کے مفادات کے تحفظ اور بھلائی کو پیش نظر رکھ کر کئے جائیں گے لیکن بدلتے وقت اور بدلتے سیاسی اقدار نے سیاسی جماعتوں کو سیاسی مفادات کا اسیر بنادیا ہے ، جس کے سبب عوامی مسائل پس پشت ہوچکے ہیں۔ اقتدار اور کرسی ہی سیاسی جماعتوں کی منزل بن چکی ہے اور تمام سیاسی فیصلے عوام سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ جب صورتحال یہ ہو تو پھر اچھے دن کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے گزشتہ دو برسوں میں عوامی سطح پر تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن انتخابی فائدے اور سیاسی مقصد براری کیلئے مرکزی کابینہ میں بڑے پیمانہ پر ردوبدل کیا گیا۔ بعض وزراء کو اہم وزارتوں سے سبکدوش کرتے ہوئے 19 نئے چہرے شامل کئے گئے۔ وزیراعظم نے اگرچہ ان تبدیلیوں کی وجوہات بیان نہیں کی ہیں، تاہم سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سنگھ پریوار کی مداخلت پر نریندر مودی نیند سے بیدار ہوئے۔ حکومت پر وزیراعظم کی گرفت کمزور ہوچکی تھی اور نریندر مودی کو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں کہ وہ وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیتے۔ حکومت پر سنگھ پریوار کے کنٹرول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے والے افراد کو کابینہ میں برقرار رکھا گیا۔ حالانکہ ان کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ کابینہ میں یہ رد و بدل نریندر مودی کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ ’’کم سے کم حکومت اور زیادہ سے زیادہ کارکردگی‘‘۔ 2014 ء کی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا گیا تھا لیکن وزارت نے 78 وزراء کی موجودگی نے سابق حکومتوں کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑدیا ہے ۔
اگر حکومت کی کارکر دگی اچھی ہوتی تو تبدیلیوں کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وعدوں کی تکمیل میں ناکامی اور عوام میں بڑھتی مایوسی نے نریندر مودی کو تبدیلیوں کیلئے مجبور کردیا۔ عوام کے اچھے دن بھلے ہی نہیں آئے لیکن وزارت میں تبدیلی سے پارٹی میں بعض کے اچھے اور بعض کے برے دن آگئے۔ حکومت کے تیسرے سال کے آغاز سے مودی حکومت اور بی جے پی کے کونسے دن شروع ہوں گے کہا نہیں جاسکتا۔ گزشتہ دو برسوں میں نریندر مودی اور ان کی حکومت کا ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ کہا جاسکے۔ ہاں بیرونی دوروں کے معاملہ میں مودی نے نہ صرف ملک کے پیشرو وزرائے اعظم بلکہ دیگر ممالک کے سربراہان مملکت کا ریکارڈ بھی توڑدیا ہے۔ دو برس میں 35 سے زائد ممالک کا دورہ کوئی مذاق نہیں۔ نریندر مودی ان دنوں پانچ ممالک کے دورہ پر ہیں اور اس طرح بیرونی دوروں کی فہرست میں مزید 5 ممالک کا اضافہ ہوجائے گا ۔اگر سندبادجہازی کی طرح پرواز کی یہی رفتار رہی تو 5 سال میں وہ بعض نئے ممالک کی کھوج کرتے ہوئے عصر حاضر کے واسکوڈی گاما بن جائیں گے ۔ پھر آئندہ انتخابات میں مودی کو بیرون ملک انتخابی مہم چلانی پڑے گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کے سبب غریب اور متوسط طبقات کے دسترخوان سے دال اور ٹماٹر غائب ہوچکے ہیں لیکن نریندر مودی بیرونی ممالک میں وہاں کی ہمہ اقسام کی ڈشس کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ کابینی تبدیلی میں سمرتی ایرانی کی وزارت فروغ انسانی وسائل سے علحدگی ایک طرف حکومت کو بدنامی سے بچانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی ہار ہے۔ سمرتی ایرانی اپنی وزارت کو زعفرانی کرتے ہوئے تعلیم ، ثقافت اور تہذیب کو آلودہ کرنے میں مصروف تھیں اور اسی ایجنڈہ کے ساتھ انہیں مامور کیا گیا تھا ۔
جس وزیر کی قابلیت اور ڈگری شک کے دائرہ میں ہو اسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا ذمہ دار مقرر کیا گیا۔ آج تک بھی سمرتی ایرانی کی ڈگری کا تنازعہ حل نہیں ہوا ہے اور وہ اپنی ڈگری کی اصلیت ثابت نہیں کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ جس ملک میں وزیراعظم کی تعلیمی ڈگری شک کے دائرہ میں ہو تو ان کے وزراء کی قابلیت کیا ہوگی، اس کا اندازہ عوام کو بخوبی ہوچکا ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے تنازعات کیلئے سمرتی ایرانی ذمہ دار ہیں۔ تعلیمی اور ثقافتی اداروں پر زعفرانی ذہنیت کے عناصر کی نامزدگی سے کئی فنکار اور ادیبوں نے ایوارڈس واپس کردیئے ۔ جس وزیر نے کبھی کالج اور یونیو رسٹی کا رخ نہ کیا ہو، وہ طلبہ کے مطالبات اور ان کے احساسات کو کیا سمجھے گا۔ 10 سے زائد تنازعات کیلئے سمرتی ایرانی ذمہ دار پائی گئیں جس سے حکومت کو طلبہ اور اساتذہ کی مخالفت کا سامنا تھا۔ اطلاعات کے مطابق نریندر مودی پر ارون جیٹلی کا دباؤ تھا کہ سمرتی ایرانی کو برقرار رکھا جائے لیکن امیت شاہ نے قلمدان کی تبدیلی میں اہم رول ادا کیا۔ پرکاش جاؤڈیکر جو سنگھ پریوار سے زیادہ قریب ہے، انہیں فروغ انسانی وسائل کا وزیر مقرر کیا گیا ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ سنگھ کے ایجنڈہ پر عمل آوری میں سمرتی ایرانی سے زیادہ جاؤڈیکر بہتر انتخاب ثابت ہوسکتے ہیں۔
سمرتی ایرانی سے قلم چھین کر چرقہ تھمادیا گیا تاکہ ہینڈلوم پارچہ سازی میں مصروف رہیں۔ وزارت سے علحدگی پر سمرتی ایرانی نے فلمی نمغہ ’’کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘ کا تبصرہ کیا۔ ٹی وی سیریل سے سیاست میں قدم رکھنے والی ایرانی کو شائد پتہ نہیں کہ Reel اور Real میں کافی فرق ہے اور سیریل کی زندگی کی طرح حقیقی زندگی میں ڈرامہ بازی اور مکالمے کام نہیں آسکتے۔ دلت طالب عالم روہت ویمولا کی خودکشی کے بعد ایرانی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ روہت دلت نہیں تھے ۔ اسی طرح جے این یو میں کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات نے حکومت کو عوام کی عدالت میں کھڑا کردیا۔
بی جے پی حلقوں کا استدلال ہے کہ اترپردیش کے مجوزہ انتخابات میں سمرتی ایرانی کی خدمات حاصل کرنے کے لئے یہ تبدیلی کی گئی۔ اترپردیش میں کانگریس کی جانب سے پرینکا گاندھی کو انتخابی مہم کی کمان سونپنے کی صورت میں سمرتی ایرانی بی جے پی کا چہرہ ہوں گی۔ حالیہ عرصہ میں بی جے پی کے لئے خواتین نیک شگون ثابت نہیں ہوئیں۔ دہلی میں کرن بیدی کو چیف منسٹر کے امیدوار کے طور پر پیش کیا گیا تھا لیکن وہ خود انتخاب بری طرح ہار گئی تھیں۔ سمرتی ایرانی کو اگر اترپردیش میں بی جے پی اسٹار کیمپینر کے طور پر پیش کرے گی تو اسے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا۔ بی جے پی اترپردیش میں دلتوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ ایسے میں مخالف دلت چہرہ یعنی سمرتی ایرانی مزید نقصاندہ ثابت ہوں گی ۔ ہوسکتا ہے کہ دلجوئی اور تسلی کیلئے ہائی کمان نے ایرانی کو یہ دلاسہ دیا ہو۔ جس انداز کے ٹی وی سیریل سے ایرانی کو مقبولیت حاصل ہوئی، ان کیلئے بہبودی خواتین و اطفال کی وزارت زیادہ موزوں تھی۔
آسام میں حالیہ کامیابی کے بعد کابینہ میں بڑے پیمانہ پر تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ دراصل آئندہ سال ہونے والے اترپردیش، گجرات اور پنجاب کے انتخابات کو لیکر بی جے پی خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجوزہ انتخابات والی ریاستوں سے 7 نئے چہرے کابینہ میں شامل کئے گئے، ان میں سے 5 دلت ہیں۔ بی ایس پی کے گڑھ علاقوں سے وزارت میں نمائندگی دی گئی۔ لوک سبھا انتخابات میں اترپردیش سے 71 نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی ملی ۔ اس کے باوجود وہ موقف مستحکم حاصل نہ کرسکی اور دلتوں اور کمزور طبقات کو بی جے پی سے قریب لانے 71 ارکان پارلیمنٹ ناکام ثابت ہوئے۔ جس طرح ممتا بنرجی اور جیہ للیتا نے بی جے پی سے مقابلہ کیا ، اسی طرح اکھلیش یادو بھی مزاحمت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مسلمانوںکو خوش کرنے ایم جے اکبر کو وزارت خارجہ میں جونیئر موسٹ وزیر کا درجہ دیا گیا جبکہ ان کی صلاحیتوں اور قابلیت دوسروں سے زیادہ ہے۔ دراصل بی جے پی کو مسلمانوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت کے تحت دو مسلم وزیر رکھے گئے۔ حالانکہ بی جے پی کی مخالف مسلم پالیسیوں کے پیش نظر اس وزارت کی چنداں ضرورت ہی نہیں ہے ۔ دونوں وزراء کے پاس کچھ کام نہیں اور دونوں میں سخت اختلافات ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں سے زبانی ہمدردی کا ماننا ہے ، یہ کسی ایک پارٹی تک محدود نہیں۔ صرف انداز الگ الگ ہیں۔ کانگریس پارٹی بھی مسلمانوں کو ووٹ بینک سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی اور وہ بھی اس وقت جب ان کی ضرورت ہو۔ سونیا گاندھی نے ہندو ووٹ بینک کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مرتبہ دعوت افطار کا اہتمام نہیں کیا اور وہ نریندر مودی کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ کانگریس میں پنڈت نہرو سے دعوت افطار کی روایت موجود ہے لیکن جاریہ سال سونیا گاندھی نے اسے ختم کردیا۔ آسام اور کیرالا میں اقلیتوں کی تائید سے محرومی کے ردعمل کے طور پر دعوت افطار نہیں کی گئی۔ وزیراعظم تو مسلسل دوسرے سال بھی دعوت افطار کے اہتمام سے دور رہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق کانگریس آسام اور کیرالا کی شکست سے خوفزدہ ہے اور وہ کھل کر مسلمانوں کے ساتھ کھڑی رہنے تیار نہیں۔ اسی لئے ہندو ووٹ بینک پر توجہ دی جارہی ہے۔ اترپردیش میں یوں بھی مسلم ووٹ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان تقسیم ہوجائیں گے ۔ نریندر مودی نے نہ صرف دعوت افطار نہیں کی بلکہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی دعوت افطار سے غیر حاضر رہے۔ نریندر مودی مسلمانوںکو دعوت افطار کیلئے تیار نہیں لیکن عید کی مبارکباد کے سلسلہ میں ان کی بیرونی ملک عاشقی نے خود مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ مودی نے کئی مسلم ممالک کے سربراہوں کو فون کرتے ہوئے عیدالفطر کی مبارکباد پیش کی۔ خوشی کے اس موقع پر مودی اپنے جگری دوست نواز شریف کو کس طرح بھلا سکتے تھے، انہیں بھی فون کر کے عید کی مبارکباد دی گئی۔ عین ممکن ہے کہ کسی دن نواز شریف کی مزاج پرسی کیلئے مودی لاہور پہنچ جائیں۔ جس طرح سالگرہ میں شرکت کیلئے گئے تھے۔ دراصل یہ اترپردیش میں مسلمانوں کو خوش کرنے کی مہم کا حصہ ہے لیکن مسلمان پاکستان سے درپردہ عاشقی کو پسند نہیں کریں گے کیونکہ اس ملک کا رویہ ہندوستان کے حق میں ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔ مودی کی جانب سے ایک طرف مسلمانوں کو عید کی مبارکباد تو دوسری طرف یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کیلئے تیاریاں تیز کردی گئیں۔ حکومت نے اس معاملہ کو لاء کمیشن سے رجوع کرتے ہوئے اپنی سازش اور بدنیتی کو آشکار کیا ہے۔ اوج یعقوبی نے کیا خوب کہا ہے ؎
کس کو منظور ہے صرف اپنی انا کی تسکین
کون تنقید سے بیزار ہے تم خود سوچو