کون بنارہا ہے ہندوستان کو لنچستان؟۔ بقلم شکیل شمسی

لینچنگ کا لفظ پہلی مرتبہ میں نے گاندھی جی کی زندگی کے متعلق تحریرکئے گئے ایک واقعہ میں اسکول کے زمانے میں پڑھاتھا اس وقت میں نے کئی لوگوں سے اس لفظ کے معنی پوچھے تھے تو کو بھی معلوم نہیں تھے۔ آخرکار انگلش اُردو ڈشنری میں تلاش کیا تومعلوم ہوا ہے کہ ہجوم اگر کسی شخص کو گھیر کر ماردے تو اس کو لینچنگ کہتے ہیں۔ پھر برسوں تک لنچنگ کا لفظ نہ تو کہیں سنا اور نہ ہی کسی جگہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ‘ مگر گذشتہ چار پانچ سالوں کے درمیان یہ لفظ ہماری ہر صبح کا حصہ ہوگیا ہے۔

صبح ہوتے ہی اخبار میں لپیٹ کر کوئی اخبارفروش ہمارے دہلیز پر لینچنگ کاشکار ہونے والوں کی لاشیں رکھ کر چلاجاتا ہے اور ہم سب س حسرت ویاس سے حکومت کو تکتے ہیں کہ شاید کوئی لفظ ایوان حکومت سے اس کی مذمت میں نکلے۔

لیکن ہماری امیدوں کے برخلاف وہاں کوئی وزیر لینچنگ کرنے والوں کی گلپورشی کرتا ہوا ملتا ہے اور کوئی ایم پی یا ایم ایل اے لینچنگ والو ں کی دفاع کے لئے قانونی لڑائی کا وعدہ کرتاہوا ملتا ہے ویسے تو یہ کام گاؤ رکھشکوں نے شروع کیاتھا‘ لیکن یہ مرض اب وہیں تک محدود نہیں رہا۔

ہندوستان کے کسی بھی گاؤں او رکسی بھی شہر میں کسی بھی دن آپ کو لاٹھی ڈنڈوں سے لیس دیش بھکتوں‘ سماج کے محافظوں اور اقدار کی حفاظت کرنے کا دعوی کرنے والو ں کی بھیڑ کسی نے کسی شخص کو گھر کرمارتی ہوئی مل جائے گی اور اس کا ہی ایک نمونہ جمعہ کو بہار کے بیگوسرائے میں دیکھنے کو ملاجب تین لوگوں کو گاؤں والوں نے اس الزام میں گھیر کر ماردیا کہ وہ کسی بچی کو اغوا کرنے کے ارادے سے ائے تھے۔

گاؤں والوں کا یہ بھی کہناہے کہ تینوں مسلح تھے لیک حیرانی کی بات یہ ہے کہ اگر مسلح تھے تو انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے کوئی گولی کیوں نہیں چلائی؟۔

اگر ان کے پاس پستول یا دیسی کٹے موجود تھے تو انہوں نے اس سے فائیرنگ کرکے گاؤں والوں کو بھگایا کیوں نہیں؟ اگر وہ بدمعاش تھے تو خاموشی سے شریفوں کے ہاتھوں اپنی جان کیوں گنوا بیٹھے؟کیا پولیس گاؤ ں والوں کی بیان کردہ کہانی کو سچ مان کر ہی ان کی موت کو حق بجانب ٹھرادے گی؟

اصل میں لینچنگ کے بڑھتے واقعات کی ذمہ دار پولیس بھی ہے جو ہجومی تشدد میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے میں نہایت سسی او رلاپرواہی برتتی ہے۔

ایسی ہی ایک مثال راجدھانی دہلی میں بھی2ستمبر کو اسوقت دیکھنے کو ملی جب ایک مسلم لڑکے کو چوری کا الزام لگاکر ایک بھیڑ نے گھیر کر ماردیا۔

مارنے والوں نے اس کو چور کہاجبکہ اس کے گھروالوں کا کہنا ہے کہ وہ دہلی میں نیا نیا آیاتھااس لئے راستہ بھٹک گیا تو انجان انسان کو رات دیر گئے گھومتے دیکھ کر محملے والو ں نے بیدردی سے اس کی پیٹائی کردی اورجب تک وہ مر نہیں گیا اس کو اہل محلہ مارتے رہے۔

صبح کو جب پولیس پہنچی تو اس نے اس نے اسی کہانی پر یقین کیا جو اس کو قاتلوں کے قبیلے نے سنائی او رپولیس نے نہایت لاپرواہی سے کام لیتے ہوئے دفعہ 304کے تحت مقدمہ درج کیا۔

یہ ایسی دفعہ ہے جس کا مقصد غیر اردی طور پر قتل کے معاملے پر لگائی جاتی ہے۔ جب ملزموں کے ساتھ رعایت برتنے کا معاملہ سامنے آیا تب انقلاب نے اس معاملے کو اٹھایااور بیورو چیف نے ایک سابق جسٹس اور ایک مشہور وکیل اور ایک رکن پارلیمنٹ کا ردعمل شائع کیاجس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور دلی پولیس نے دوسرے ہی دن معاملے کو دفعہ302کے تحت تبدیل کیا۔اس کے بعد دیگر ملزمین کی بھی گرفتاری عمل میں لائی۔

ہمیں معلوم ہے کہ اس معاملے میں پولیس کو گواہوں کا استعمال کرنے میں کافی دشواری پیش ائے گی مگر سائنٹفکشواہد کے ذریعہ پولیس مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاسکتی ہے۔

ہمارے خیال میں ماب لینچنگ کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو موثر قانون واضے کرنے کی جو ہدایت دی ہے اس پر عمل درآمد ہوئے بغیرمعاملات رک نہیں سکتے لیکن حکومت کی خاموشی اور بی جے پی والوں کی جانب سے ہجومی تشدد کی حوصلہ افزائی کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ نیا قانون بنانے یا اس کو نافذ کرنے کی حکومت کو کوئی جلدی ہے۔