یہ درست ہے کہ آج لڑکی کی پیدائش ماضی کی طرح ایک حادثہ نہیں رہی لیکن اب بھی متوسط گھرانوں میں اوسط شکل و صورت کی لڑکیوں کیلئے زندگی کسی سانحے سے کم نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ ان کی زندگی کا نصب العین شادی ہے۔ ایک ایسا ڈھول جو فقط دور سے سہانا سنائی دیتا ہے۔ ان کو بچپن سے ہی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ لوگوں، خصوصاً صنف مخالف کے معیار پر پورا اُترنا اور خوب صورت نظر آنا عورت کی مجبوری ہے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ، ’’اگلے گھر جاکر ناک کٹواؤ گی‘‘ ، ’’زور سے نہ ہنسو‘‘ ، ’’سوال نہ کرو‘‘ ، ’’دھیمے لہجے میں بات کرو‘‘ ، ’’جھک کر چلو‘‘ ایسے ہی لاتعداد جملوں اور متضاد رویوں سے لڑکیوں کو بے انتہا غیر محفوظ کردیا جاتا ہے اور وہ زندگی کے ہر مرحلے پر خود کو منوانے کے لئے دوسروں کی قبولیت اور خوشنودی کی محتاج نظر آتی ہیں۔ آج لڑکیوں کی اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ اچھے ’’بر‘‘ کا حصول ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں عورت دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہے جو نہ پسندیدگی کے اظہار کا حق رکھتی ہے اور نہ محبت کا، کیوں کہ اس کا ہر عمل مرد کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس معاملے میں لڑکے والوں کا رویہ مطلق العنان حکمرانوں کا سا نظر آتا ہے۔ اکثر لڑکوں کی مائیں رد کی جانے والی لڑکیوں کی تعداد اس فخر سے بیان کرتی ہیں گویا میچ کا اسکور بتارہی ہوں۔ ’’اے سُن‘‘ میں تو اپنے بیٹے لئے چاند سی بہو لاؤں گی۔
اب تک سو سے زیادہ لڑکیاں دیکھ چکی ہوں، پر کیا کروں موئی کوئی پسند ہی نہیں آتی‘‘۔ اس سے قطع نظر کہ مشرق کے مرد کس قدر وجیہہ ہوتے ہیں، لڑکیوں کے لئے حسن کا معیار دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ پریوں کی تلاش میں نکلنے والے اکثر لڑکے اور ان کی مائیں، بہنیں آئینہ دیکھنا بھول جاتی ہیں۔ انھیں اپنے ہونہار کیلئے شریک سفر کی بجائے ایک ایسے حسین بت کی تلاش ہوتی ہے، جس کا قد نکلتا ہوا ہو، میدہ جیسی سفید رنگت، کشادہ پیشانی، تراشیدہ لب، ستواں ناک اور آنکھیں ترکش ہوں۔ اس کے علاوہ مال اور گرین کارڈ وہ اضافی خصوصیات ہیں، جو شادی کی منڈی میں لڑکی کی قیمت بڑھادیتی ہیں۔ صنف نازک کیلئے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت وہ عیب سمجھے جاتے ہیں جنھیں اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کے نزدیک علم عورت کو خود سر اور اپنی کمائی خود مختار بنادیتی ہے۔ ان جیسے لوگوں کے نزدیک بیوی جس قدر حسین، کم عمر اور کم عقل ہو، زندگی اتنی ہی اچھی گزرتی ہے۔ اکثر لڑکی دیکھنے کیلئے آنے والوں کا رویہ کسی قصائی سے کم نہیں ہوتا۔ نظروں ہی نظروں میں لڑکی کے سراپے کو جانچا، تولا اور پرکھا جاتا ہے ۔ پسند نہ آئے تو چہرے پر ایسے ناگوار تاثرات اُبھرتے ہیں کہ آگے کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، درجنوں گھر گھومنے، ضیافتیں اڑانے اور سینکڑوں دل توڑنے کے بعد کہیں جاکر لڑکے لئے حُور پری کا انتخاب تو ہوجاتا ہے لیکن دوسری طرف چبھتے ہوئے سوال، نظریں رویے اور بار بار مسترد کئے جانے کی تکلیف کتنی ہی لڑکیوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس کا اندازہ صرف وہی کرسکتا ہے جو اس عمل سے گزرا ہو۔ یہ درست ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لڑکی والوں کا رویہ بھی سطحی اور منفی ہوتا جارہا ہے۔ لڑکیاں شریف شریک سفر کے بجائے ہیرو کی تلاش میں نظر آتی ہیں اور والدین، خاندانی شرافت، تعلیم کی بجائے بینک، بیلنس، گاڑی کے ماڈل اور فارن میں رہنے والے داماد کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں منافقت اور قدامت پسندی کا یہ عالم ہے کہ اگر لڑکا یا لڑکی شادی کے سلسلے میں اپنی پسند کا اظہار کریں تو انھیں بے حجاب سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا کے اثرات، خاندانی اور سماجی نظام کے انحطاط کے باعث آج شادی بیاہ کے معاملات سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں اس حوالے سے ماہر نفسیات کہتے ہیں ایسے کیسوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جن میں خواتین کی اکثریت شادی نہ ہونے، منگنی ٹوٹنے، محبت میں ناکامی یا طلاق کے باعث شدید مایوسی، تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہوتی میں۔ ان میں سے بیشتر خود ترسی اور احساس محرومی کو گلے لگاکر اپنے خول میں بند ہوجاتی ہیں، دنیا سے کٹ جاتی ہیں اور بعض صورتوں میں خودکشی جیسا انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ بہت سی خواتین جارحانہ رویہ اختیار کرلیتی ہیں، جو ہر وقت دوسروں کا مذاق اُڑاتی ہیں، تنقید کرتی یا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک اچھے شریک حیات کے انتخاب کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ حق مردوں تک ہی کیوں محدود ہے؟ آخر بیٹیوں اور بیٹوں کے معاملے میں دہرا معیار کیوں؟ لڑکیوں کو محض شکل و صورت اور لڑکوں کو مال و حیثیت کی کسوٹی پر ہی کیوں پرکھا جاتا ہے؟ ڈرائنگ روم میں بار بار بیٹیوں کی نمائش کرنے اور انھیں مسترد کئے جانے کی روایت کیوں پروان چڑھائی جارہی ہے؟ کوئی ہے جو اس درد کا مداوا کرے؟ کوئی ہے جو ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کو روز روز مرنے سے بچائے؟ کیا ہماری پڑھی لکھی، نوجوان نسل میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اس فرسودہ روایت کے خلاف آواز بلند کرے اور اپنے عمل سے مثبت مثالیں قائم کرے۔ کاش! کہ ہم سمجھ سکیں، اس سے پہلے کہ لفظ شادی خوشی کے بجائے لڑکیوں کے لئے غم اور محرومی کی علامت بن جائے اور وہ مایوسی کے اندھیروں میں ہمیشہ کیلئے ڈوب جائیں۔
بالوں کو ڈائی کریں مگر احتیاط سے
آج کل بالوں کو دل پسند رنگوں میں ڈائی کرنے کا فیشن ہر عمر کی خواتین میں انتہائی مقبول ہے۔ اس حوالے سے بعض خواتین کیلئے یہ ضرورت تو بعض کے لئے فیشن کا ایک نیا انداز ہے۔ بالوں کو ڈائی کرنا اگرچہ اتنا مشکل تو نہیں تاہم کبھی کبھار آپ کی تھوڑی سی بے احتیاطی آپ کو مسائل سے دوچار بھی کرسکتی ہے۔ بالوں کا رنگ تبدیل کروانے کے حوالے سے جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ بال ڈائی کرنے کیلئے کون سے رنگ کا انتخاب کیا جائے، اکثر خواتین کسی سہیلی یا ماڈل کو دیکھ کر فیصلہ کرلیتی ہیں کہ وہ بھی اپنے بال اسی رنگ میں رنگوالیں، جبکہ ماہرین کے مطابق رنگ کا انتخاب کبھی بھی کسی دوسرے کو دیکھ کر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ضروری نہیں کہ جو رنگ کسی دوسرے کے بالوں میں اچھا لگ رہا ہو وہ آپ کے بالوں کو بھی اچھا لگے۔ رنگوں کے انتخاب میں ہمیشہ اپنی شخصیت، عمر اور ماحول کو مدِ نظر رکھنا چاہئے۔ ایک بار بال ڈائی کروانے کے کچھ عرصے بعد ان کا رنگ تبدیل کروانا نہ صرف بالوں کی صحت کیلئے نقصاندہ ہوتا ہے بلکہ آپ کی بینائی کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔