میرا کالم مجتبیٰ حسین
سیاست کا 5 جون 2003 ء کا شمارہ مجھے تاخیر سے ملا تو پتہ چلا کہ اردو اور ہندی کے ممتاز شاعر کنول پرشاد کنولؔ 4 جون کو حیدرآباد میں رحلت فرماگئے ۔ دل کو ایک دھکاّ سالگا تھا ۔ اس لئے کہ کنول پرشاد کنولؔ سے دو رشتے تھے ۔ پہلا رشتہ تو یہ کہ وہ میرے بزرگ تھے ، عابد علی خاں ، محبوب حسین جگرؔ اور ابراہیم جلیسؔ کے قریبی دوستوں میں تھے ۔اس طرح میرے دل میں اُن کیلئے بڑا احترام تھا ۔ پھر ادب اور تہذیب کا الگ رشتہ تھا ۔ وہ حیدرآبادی تہذیب کے سچے علمبردار اور سیکولرزم ، رواداری ، اخوت ، انسان دوستی میں اٹوٹ عقیدہ رکھنے والے انسان تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کہ اُن کے اندر تنگ نظری اور تعصب جیسے گھٹیا جذبات کو داخل کرنا ایسا ہی تھا جیسے ٹوتھ پیسٹ کے ٹیوب سے باہر نکلے ہوئے پیسٹ کو دوبارہ ٹیوب کے اندر داخل کرنے کی کوشش کرنا ۔ شاعر ہونے کے ناطے شہرت کا طلب گار کون نہیں ہوتا ۔ وہ بھی تھے مگر انسان کھرے تھے ۔ چھوٹوں سے ہمیشہ بے حد شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ افسوس کہ رواداری ، محبت اور حیدرآبادی تہذیب کا ایک نادر نمونہ ہمارے درمیان سے اُٹھ گیا ۔ اُن سے میرا ایک اور رشتہ بھی تھا جو افسر اور ماتحت کا تھا ۔ 1962 ء میں جب میں نے حکومت آندھراپردیش کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں ملازمت اختیار کی تو کنول پرشاد کنولؔ اس محکمہ میں میرے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے ۔ اُن سے ادبی محفلوں اور اورینٹ ہوٹل کی بیٹھکوں میں میری ملاقاتیں ہوچکی تھیں ۔ گویا وہ نہ صرف میرے مزاج سے بخوبی واقف تھے بلکہ میری شرارتوں اور فقرہ بازیوں سے آگاہ تھے ۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ افسر اور ماتحت کا رشتہ بڑا پیچیدہ اور گنجلک ہوتا ہے ۔
یہ اُن کی بڑائی تھی کہ کبھی اس رشتے کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کو مجھ پر ظاہر نہیں ہونے دیا تاہم اپنی تمام تر شفقتوں کے باوجود دوران ملازمت وہ مجھ سے خائف ضرور رہے کہ پتہ نہیں میں کب کیا حرکت کر بیٹھوں ۔ اب انہیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو ان سے وابستہ کتنی ہی خوشگوار باتیں اور یادیں میرے ذہن میں تازہ ہونے لگی ہیں ۔ حالانکہ دل اندر سے روتا چلا جارہا ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ایک انسان گزر جائے تو کیا اُس کے پسماندگان صرف روتے دھوتے ہی رہ جائیں اور اس سے وابستہ خوشگوار یادوں اور باتوں کو یکسر فراموش کردیں ۔ انسان ہنسی اور غم کی آمیزش سے ہی ایک اکائی بنتا ہے صرف رونے دھونے سے نہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ آج کنول پرشاد کنولؔ سے وابستہ کچھ خوشگوار یادوں کو سمیٹنے کے جتن کروں ۔ محکمہ اطلاعات کے دفتر کے سامنے شام کے وقت ایک بھکاری اکثر کھڑا رہتا تھا اور کنول پرشاد کنولؔ دفتر سے گھر جاتے ہوئے اسے خیرات ضرور دیا کرتے تھے ۔ میں نے اس پس منظر میں ایک لطیفہ گھڑا اور سلیمان اریب کو سنادیا کہ کنولؔ جی نے جیسے ہی بھکاری کے کشکول میں دس پیسے کا سکہ ڈالا تو بھکاری نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کرکہا ’’ اللہ تیرے اشعار میں وزن پیدا کرے ‘‘ ۔ کنولؔ جی نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے بھکاری کی دعا سن تو نہیں لی ۔
جب یقین ہوگیا کہ کسی نے نہیں سنی تو انہوں نے دس پیسے کا ایک اور سکہ اُس کے کشکول میں ڈالتے ہوئے کہا ’’بڑے میاں ! یہی دعا تھوڑی سی اور کرنا ‘‘ ۔ سلیمان اریب کے پیٹ میں کوئی بات نہیں رہتی تھی ۔ انہوں نے یہ لطیفہ اورینٹ ہوٹل کی ایک محفل میں سنادیا جس میں مخدومؔ محی الدین بھی موجود تھے ۔ مخدوم ؔ بھی کہاں رُکنے والے تھے انہوں نے ایک دن کنول پرشاد کنولؔ سے کہہ دیا کہ مجتبیٰ کہتا ہے کہ تم اپنے اشعار میں وزن پیدا کروانے کی خاطر ایک بھکاری سے دُعائیں لیتے ہو ۔ کنول پرشاد کنولؔ نے یہ لطیفہ تو سن لیا لیکن مجھ سے کچھ نہیں کہا ۔ البتہ ایک بار دیکھا کہ وہ مذکورہ بھکاری سے کچھ باتیں کررہے ہیں ۔ بھابی ریاست خانم ( بیگم اختر حسن ) بھی دفتر میں ہمارے ساتھ کام کرتی تھیں اور کنولؔ جی ریاست بھابی کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے ریاست بھابی کو بلا کر یہ لطیفہ سنایا اور کہا کہ : ’’ یہ مجتبیٰ بڑا شریر اور فتنہ گر ہے ۔ میرے بارے میں من گھڑت لطیفے بناکر لوگوں کو سنادیتا ہے ۔ اب اس بھکاری کو لیجئے ۔ کل میں نے اس بھکاری سے بات کی تو معلوم ہوا کہ وہ تو تلگوداں ہے ، اردو تو بالکل نہیں جانتا ۔ بھلا وہ میرے اشعار میں وزن پیدا کرنے کی دعا کیوں کر مانگے گا ۔ اُسے نہ تو ردیف معلوم ہے نہ قافیہ ۔ میں مجتبیٰ کے بڑے بھائیوں کادوست ہوں ، اسے کم از کم اس بات کا لحاظ تو کرنا ہی چاہئے ۔‘‘ ریاست بھابی نے جب یہ بات مجھے بتائی تو میں نے مسکین سی صورت بناکر کہا ’’ بھابی ! بھکاری کی زبان دانی سے کسی کو کیا لینا دینا ہے ۔ اس کا کام تو صرف دُعا کرنا ہے چاہے وہ کسی بھی زبان میں کرے ۔ آپ کو راز کی بات بتاؤں کہ خود میں اپنی مزاح نگاری کی ترقی کیلئے اُس بھکاری کو روز دس پیسے خیرات دیتا ہوں ۔ ماشاء اللہ میری مزاح نگاری تو ترقی کرتی چلی جارہی ہے ۔ یہ اُس بھکاری کی دعاؤں کا ہی فیض ہے ۔ چونکہ کنول جی بھی اُسے خیرات دیتے ہیں تو میں نے سوچا کہ شاید اپنی شاعری کی ترقی کی خاطر دیتے ہوں گے ۔ ‘‘ ریاست بھابی نے جب کنول جی کو لطیفے کے بارے میں میری صفائی سنائی تو بولے ’’ ذرا دیکھئے اس کی شرارت ، اب ایک نیا ہی شوشہ اُس نے لطیفے میں پیدا کردیا ہے ۔ ‘‘
جب چین نے ہندوستان پر جارحانہ حملہ کیا تو سارے ملک میں ’’ بلیک آوٹ ‘‘ کا حکم دے دیا گیا ۔ محکمہ اطلاعات کے دفتر میں بھی رات کے وقت عہدیداروں کی باری باری سے ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ دفتر میں موجود رہیں کہ پتہ نہیں چین کب محکمہ اطلاعات پر حملہ کردے ۔ ان دنوں نریندر لوتھر محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر تھے اور کنولؔ جی ان کی سختی اور ڈسپلن کی پابندی سے قدرے پریشان رہا کرتے تھے ۔ محکمہ اطلاعات کے دفتر کی عمارت پر عموماً رات کے وقت ایک لال بتّی جلتی رہتی تھی ۔ بلیک آؤٹ کی پہلی رات کو نو بجے تک میری ڈیوٹی تھی اور اس کے بعد کنولؔ جی کو دفتر میں رہنا تھا ۔ کنولؔ جی آئے تو دیکھا کہ دفتر کی عمارت پر لال بتّی حسب معمول جل رہی ہے ۔ بولے ’’ تمہیں تو معلوم ہے کہ سارے ملک میں بلیک آؤٹ کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ لال بتّی کیوں جل رہی ہے ۔ ‘‘ میں نے کہا ’’ نریندر لوتھر ابھی پانچ منٹ پہلے یہاں سے گئے ہیں ، انہوں نے بھی جلتی ہوئی لال بتی کو دیکھا تھا ۔ جب انہوں نے اسے بند نہیں کروایا تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ’’ بولے ’’ یہ غلط بات ہے ، تم فوراً ایک نوٹ ڈائریکٹر کے نام تیار کر کے لے آؤ تاکہ میں اس لال بتی کو بند کروانے کی اجازت اُن سے حاصل کرلوں ‘‘ ۔ میں نے بھی شرارتاً انگریزی میں ایک مزاحیہ نوٹ حسب ذیل عبارت کا تیار کر کے ٹائپ کروادیا :
” In the light of the present black out I may kindly be permitted to put off the light, fixed at our office building ”
کنولؔ جی اپنے ماتحتین پر بڑا اعتماد کرتے تھے ( چاہے ماتحت ہم جیسا ہی کیوں نہ ہو ) فوراً نوٹ پر دستخط کردیے اور تابڑتوڑ ایک خصوصی قاصد کے ذریعے نوٹ نریندر لوتھر کے گھر بھجوادیا ۔ نریندر لوتھر نے نوٹ تو اپنے پاس رکھ لیا البتہ خصوصی قاصد کو زبانی تاکید کی کہ وہ خود جاکر بتی بجھادے ۔ دوسرے دن نریندر لوتھر نے انہیں غالباً اُن کے نوٹ کا ” In the light of the present black out ” والا مزاحیہ فقرہ سنایا تو واپس آکر بھابی سے شکایت کی ’’ بھابی ! مجتبیٰ اب انگریزی میں بھی مزاح نگاری کرنے لگا ہے ۔ بھلا بتایئے ” In the light of the black out ” کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔ یہ دفتری نوٹ ہے یا جدید شاعری ۔ ‘‘ بھابی نے کہا ’’ وہ نوٹ تمہاری طرف سے تھا تو تم نے اس پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھا کیوں نہیں ۔ ’’ بولے ‘‘ مجھے لائٹ کو بند کروانے کی جلدی تھی ، کیا میں اپنے ماتحتین پر اتنا بھروسہ بھی نہ کروں ۔ پھر میں تو اس کے بڑے بھائیوں کا دوست ہوں ‘‘ ( وہ دفتر کے ہر معاملے میں میرے بڑے بھائیوں کو بیچ میں لے آتے تھے ۔ )
کنولؔ جی کو اپنے شعر سنانے کا بڑا شوق تھا ( کس شاعر کو نہیں ہوتا ) ۔ کوئی بھی ملنے والا اُن کے پاس آتا تو وہ فوراً اپنے خاص چپراسی اچیا کو طلب کرتے اور اُسے ہاتھ کی انگلیوں کے اشارے سے بتاتے کہ جاؤ جاکر چائے لے آؤ ۔ اگر دو انگلیاں بتاتے تو اس کا مطلب ہوتا دو گھنٹے بعد چائے لے آؤ۔ ایک انگلی بتاتے تو اُس کا مطلب ہوتا ایک گھنٹہ بعد چائے لے آؤ ۔ وہ اپنی شاعری کی مقدار اور اپنی نجی مصروفیت کے حساب سے انگلی کا اشارہ طے کرتے تھے اور اچیا حسب الحکم مقررہ وقت تک دفتر سے غائب ہوجاتا تھا ۔ اتنی دیر میں وہ اپنے ملاقاتی کو کلام سناتے رہتے تھے ۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتا تو کہتے بھائی چائے آرہی ہے ، کیسے چلے جاؤ گے ۔ چلو اتنی دیر میں میری ایک تازہ نظم سنو ۔ ایک بار کنولؔ جی اپنے چپراسی سے کسی بات پر ناراض ہوگئے اور اسے بُری طرح ڈانٹ دیا ۔ چپراسی بھی آخر کو انسان ہوتا ہے ۔ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے وہ میرے پاس آیا اور بتانے لگا کہ کس طرح وہ انگلیوں کے اشارے سے چائے لانے کا وقت متعین کردیتے ہیں اور اس عرصے میں معصوم ، مظلوم اور بے گناہ ملاقاتیوں کو اپنا کلام سناتے رہتے ہیں ۔ مجھ پر تو یہ راز فاش ہو ہی گیا تھا ۔ اسی اثناء میں میںنے دیکھا کہ حمایت اللہ کسی کام سے کنولؔ جی کے کمرے میں جارہے ہیں ۔ دوستی کے ناطے میں نے انہیں یہ راز بتادیا اور خبردار رہنے کی تلقین کی ۔ حمایت بھائی کے اندر داخل ہوتے ہی کنول جی خوش ہوئے اور اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اُٹھاکر اچیا کو چائے لانے کا آرڈر دینے ہی والے تھے کہ حمایت اللہ نے فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ پھر ان کے ہاتھ کی ایک انگلی اپنے ہاتھ سے نیچے گرائی اور دوسری انگلی کو آدھا موڑ کر براہ راست اچیا سے کہا ’’ اچیا ! میرے لئے آدھے گھنٹہ میں چائے لے آؤ ‘‘ ۔ اُس وقت تو کنول جی خاموش رہے ۔ حمایت اللہ کے جانے کے بعد ریاست بھابی کو بلا کر کہا ’’ بھابی ! میں مجتبیٰ کی غیرذمے داریوں سے تنگ آگیا ہوں ۔ بھئی دفتر میں کام کرنے کے بھی کچھ آداب اور اصول ہوتے ہیں ۔ وہ تو دفتر کے سارے راز لوگوں کو بتادیتا ہے ۔ ‘‘
کتنے ہی واقعات ہیں جو اب یاد آنے لگے ہیں ۔ ریاست بھابی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہیں اور اب تو کنول جی بھی رخصت ہوگئے ۔ان کی رفاقت میں دس برس کچھ اس طرح گزرے کہ آج بھی ذہن میں ترو تازہ ہیں۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ ان برسوں کا لمحہ لمحہ جوڑ کر ایک ناول لکھوں لیکن اب عمرکی نقدی ختم ہونے اور بلاوے کی دستک سنائی دینے لگی ہے ۔ یہ ان کی بڑائی تھی کہ کبھی میری سرزنش نہیں کی بلکہ ریاست بھابی نے بہت بعد میں مجھے بتایا کہ اندر ہی اندر وہ میری باتوں اور حرکتوں سے محظوظ ہوتے تھے ۔ کتنا بڑا ظرف تھا ان کا وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھے ضرور یاد کرتے تھے اور اپنی شفاف شفقتوں سے نوازتے تھے ۔ ابھی تین ہفتہ پہلے ہند ۔ پاک تعلقات کی بہتری کے پس منظر میں ان کی ایک نظم ’ سیاست ‘ میں شائع ہوئی تھی جسے پڑھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی کہ وہ تخلیقی اور جذباتی سطح پر اب بھی سرگرم عمل ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ اب کی بار حیدرآباد میں اُن سے ضرور ملوں گا بلکہ حمایت اللہ سے فون پر اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا ۔ کنول پرشاد کنولؔ جیسے مشفق اور سرپرست کا اس دنیا سے اُٹھ جانا میرے لئے ایک بڑا شخصی سانحہ ہے ۔ میں ان کی آتما کو بایدئہ نم سلام کرتا ہوں :
جو ہم اِدھر سے گزرتے ہیں کون دیکھتا ہے
جو ہم اِدھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا
( مجیدامجدؔ )
( ایک پرانی تحریر )